افغانستان: ایک ہفتے میں 291 سیکیورٹی اہلکار ہلاک

افغانستان: ایک ہفتے میں 291 سیکیورٹی اہلکار ہلاک

افغان حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ ہفتہ 19 سالہ خانہ جنگی کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے سب سے زیادہ جانی نقصان کا ہفتہ رہا۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ‘گزشتہ ہفتہ پچھلے 19 برس میں سے مہلک ترین ہفتہ رہا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘طالبان نے 32 صوبوں میں 422 حملے کیے اور سیکیورٹی فورسز کے 291 اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور دیگر 550 زخمی ہوگئے’۔
جاوید فیصل کاکہنا تھا کہ ‘طالبان کا کشیدگی کو کم کرنے کا عزم بےمعنی ہے اور ان کی کارروائیاں امن کے لیے مسلسل خطرہ ہیں’۔
پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حکومت کے تازہ اعداد وشمار کو مسترد کردیا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ‘دشمن اس طرح کی جھوٹی خبریں جاری کرکے امن عمل اور بین الافغان مذاکرات کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے گزشتہ ہفتے متعدد حملے کیے تھے لیکن ان میں سے اکثر اپنے دفاع میں تھے’۔
اس سے قبل دونوں فریقین نے طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ہونے والے بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ مکمل کرلیا جائے گا جو امن مذاکرات کے لیے بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔
دوسری جانب طالبان کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن مزید 2 ہزار قیدیوں کی رہائی کے بعد مذاکرات ہوں گے۔
افغان حکومت کے مطابق رواں برس فروری میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد مجموعی طور پر 3 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مزید 2 ہزار قیدیوں کو بھی رہا کرنے کا منصوبہ ہے۔
امریکا اور طالبان کے معاہدے میں طے پایا ہے کہ امریکا اپنی فوج کو بتدریج واپس بلالے گا جبکہ طالبان افغان سرزمین بیرونی دہشت گروں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان نے معاہدے میں کہا کہ امریکی فوج کی مکمل واپسی تک بیرونی فوج پر حملے بھی نہیں کیے جائیں گے۔
افغان حکومت سے معاہدہ نہ ہونے کے باعث طالبان نے سیکیورٹی فورسز پر حملے بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس دوران سیکڑوں افراد جان گنوا بیٹھے ہیں۔
طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے قیدیوں کو بھی رہا کیا جاچکا ہے تاہم دونوں فریقین اس عمل کو مکمل کرنے میں سست روی سے کام لے رہے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں