’’فتنہ‘‘ کا معنی ہے: ’’آزمائش۔‘‘ آدمی کو جس چیز کے ذریعے آزمایا جاتا ہے، اس میں نفع اور ضرر دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ مال و دولت بھی ایک ایسی ہی چیز ہے۔ اللہ تعالی نے اسے ’’فتنہ‘‘کہا ہے۔ دولت کے بے شمار فوائد ہیں۔ بعض وجوہ سے اس کو کمانا اور حاصل کرنا لازمی بھی ہے۔ دوسری جانب اس کی مضرتیں اور نقصانات بھی لاتعداد ہیں۔
دولت کے مفید پہلو ملاحظہ کیجیے۔ آدمی کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔ کسی کی محتاجی سے بچاتی ہے۔ عزت کی زندگی میسر آتی ہے۔ تعلیم، صحت، رہائش اور خوراک کا بندوبست ہوتا ہے۔ عزت نفس محفوظ رہتی ہے۔ اپنے اہل وعیال کی کفالت کی جا سکتی ہے۔ فراغت قلبی کے ساتھ عبادات کی ادائیگی ممکن ہوتی ہے۔ بہت سی نیکیاں اس کے ذریعے کمائی جا سکتی ہیں۔ان حوالوں سے دولت ناگزیر ہے۔ انہی وجوہ سے کسب معاش کو ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔
مگر اس کے باوجود اللہ تعالی نے مال کو ’’فتنہ‘‘ کہا ہے۔ سورہ تغابن میں ارشاد باری تعالی ہے: ’’تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہے۔‘‘(آیۃ:16) سورہ منافقون میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! نہ غافل کریں تم کو تمہارے اموال اور تمہاری اولاداللہ کی یاد سے، اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہی لوگ خسارے میں ہیں۔‘‘ (آیۃ:9) سو، ہمیں ’ضرورت‘ اور’ مضرت‘ کے درمیان کی لکیر تلاش کرنی ہو گی۔ ہمیں فریضے اور فتنے کے بیچ کی پگڈنڈی پہ آنا ہو گا۔ ہمیں کافر اور مسلم کی سوچ کے درمیان فرق کرکے چلنا ہوگا۔ ہمیں دولت کی دھن میں سرمست ہونے کے بجائے شریعت کی منشا معلوم کرنا ہو گی۔ تبھی ہم فتنے سے محفوظ رہ پائیں گے۔ تبھی ہم صراط مستقیم پر ہوں گے۔ تبھی دولت کی دو دھاری تلوار کے وار سے بچنے کے قابل ہوں گے۔
دولت کب ’’فریضے‘‘ کی حدود سے ’’فتنے‘‘ کی سرحدوں میں داخل ہوتی ہے؟ آئیے! چند احادیث کے توسط سے سمجھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مال انسان کا اچھا ساتھی ہے، بشرطیکہ وہ اس میں سے اللہ کا اور اس کے بندوں کا حق ادا کرے اور اگر حق ادا نہیں کرتا تو یہی مال اس کے لیے وبال جان ہے۔‘‘ (بحوالہ: تفسیر معالم العرفان:376/4)
ایک اور حدیث پاک میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں۔ مجھے تمہارے متعلق یہ ڈر ہے تم پر دنیا وسیع کر دی جائے گی، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی۔ پھر تم اس میں رغبت کرنے لگو گے جس طرح ان لوگوں نے کی، پھر وہ تم کو ہلاک کر دے گی جس طرح پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ ‘‘ (حوالہ بالا) تیسری حدیث پاک میں ہے: ’’حضرت کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’ہر امت کے لیے کوئی خاص آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی خاص آزمائش مال ہے۔‘‘ (معارف الحدیث:56/2)
چوتھی حدیث نظرنواز ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر آدمی کے پاس مال سے بھرے ہوئے دو میدان اور دو جنگل ہوں تو وہ تیسرا بھی چاہے گا، اور آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے بھرے گا(یعنی مال و دولت کی اس نہ ختم ہونے والی ہوس اور بھوک کا خاتمہ بس قبر میں جا کر ہو گا) اور اللہ اس بندے پر عنایت اور مہربانی کرتا ہے جو اپنا رخ اور اپنی توجہ اُس کی طرف کر لے۔‘‘ (حوالہ بالا)
پانچویں حدیث کچھ اس طرح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے (اور بڑھاپے کے اثر سے اس کی ساری قوتیں مضمحل ہو کر کمزور پڑجاتی ہیں) مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان اور طاقت ور ہوتی رہتی ہیں: ایک دولت کی حرص اور دوسری عمر کی حرص۔‘‘ (معارف الحدیث: 57/2) چھٹی حدیث کا مفہوم ملاحظہ کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے گئے ہوں، ان بکریوں کو اس سے زیادہ تباہ نہیں کر سکتے، جتنا تباہ آدمی کے دین کو مال کی اور عزت و منصب کی حرص کرتی ہے۔‘‘ (ایضاً)
آپ ’’فتنے‘‘ کی سرحد میں داخل ہو جاتے ہیں جب زیادہ کی ہوس میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ دولت فتنہ بن جاتی ہے جب ہم راتوں رات ارب پتی بن جانے کی فکر میں اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق پر ہاتھ صاف کرنے لگتے ہیں۔ آپ یقینا دولت نہیں فتنہ کما رہے ہیں جب آپ کی دکانداری میں ایمانداری اور تجارت میں امانت ایسے اوصاف کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔
کمائی میں قناعت اپنائیے کہ ہمارے اللہ کی یہی چاہت ہے۔ دنیا اور دولت کی محبت سے دل کو پاک اور صاف رکھیے کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے۔ اس دولت کے تمام حقوق (زکوۃ، صدقات اور ادائیگیاں) پوری کیجیے کہ مال کی برکت اور دکھوں سے نجات کا راز اسی میں مضمر ہے۔
آپ کی رائے