مدرسہ میں نووارد طالب علم ایک صبح دس منٹ تاخیر سے کلاس پہونچا؛ طالب علم نا استاد سے واقف تھا اور نا ہی طلبہ نے کلاس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے استاد سے دریافت کیا: کیا یہ استاد محمد کی کلاس ہے؟ استاد نے جواب دیا: نہیں! ان کا سبق تو آٹھ بجے شروع ہوگا۔ استاد نے فطری انداز میں جواب دیا۔ چنانچہ نووارد طالب علم نامراد واپس چلا گیا اور اس کو طلبہ کے ہنسنے کا مطلب بھی سمجھ میں نا آسکا۔ لیکن بعد میں طالب علم کو احساس ہوگیا کہ استاد محترم نے اس کو ایک ناقابل فراموش انداز میں اپنا پہلا سبق پڑھا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت کی قدر کیجیے!
ہمارے معاشرہ میں اگر کوئی چیز متاع گم شدہ ہے تو وہ احترام وقت ہے۔ ضروری ہے کہ بچوں اور طلبہ کو عنفوان شباب ہی سے احترام وقت کی تعلیم اس طرح دی جائے اور وقت کی قدر و قیمت کا شعور ان کے اندر اس انداز سے پیدا کیا جائے اور ان کے ذہنوں میں ان کی زندگی اور اوقات کی اہمیت اس اعتبار سے راسخ کیا جائے کہ وہ پوری زندگی وقت کو اپنی متاع گرانمایہ سمجھ کر استعمال کریں؛ جو طرز عمل وقت شناس اور لائق ترین استاد نے اختیار کیا۔
بلاشبہ کہ وقت ہماری بیش قیمت شے ہے، لیکن وقت ہی ہم سب سے زیادہ ضائع ہوتا ہے۔ علمائے متقدمین نے وقت کی اہمیت کو سمجھا؛ جب بھی ہم ان کے وقت کے کارآمد بنانے کے واقعات پڑھتے ہیں تو ہم پوری طرح سر تا پا حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتے ہیں، ان کے یہ واقعات ہمیں افسانہ معلوم ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان واقعات کی معقولیت ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ حضرت معروف کرخی کے سوانح حیات میں ہے کہ وہ وقت کے بہت زیادہ پابند تھے؛ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے اور بہت دیر تک بیٹھے رہے، تو انہوں نے کہا: سورج کا فرشتہ اس کو ہانکنے سے نہیں رکے گا، اس لیے آپ حضرات کب تشریف لیجائیں گے؟
تابعی حضرت عامر بن قیس سے روایت ہے ایک مرتبہ ان سے ایک شخص نے کہا: مجھ کو شرف کلام سے ممنون فرمائیں. حضرت عامر نے جواب دیا: سورج کو روک لیجیے!
اس طرح کے واقعات ہم میں سے کچھ لوگ پڑھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور ان کو لطائف و افسانے گردانتے ہیں اور ان کو حقائق پر مبنی اور قابل اعتبار واقعات نہیں سمجھتے، جبکہ یہ واقعات ایسے لوگوں کی زندگی میں پیش آئے جنہوں نے حقیقت میں وقت کی بے انتہا قدر کی۔
ہمارے بزرگ وقت کے تعلق سے بڑے”باغیرت” تھے؛ یہ تعبیر آج کل غیر مانوس لگتی ہے اور اس کا استعمال لوگوں میں اس حد تک حیرت پیدا کرتا ہے کہ وہ اس تعبیر کے اختیار کرنے والے کو کورفہم جانتے ہیں اور پوچھتے ہیں غیرت اور وقت کا کیا رشتہ؟! کیا وقت بھی کوئی ایسی چیز ہے جس کے تعلق سے غیرت و حمیت ہوجائے؟!
لیکن حضرت امام ابن القیم الجوزی اپنی کتاب “مدارج السالکین” میں “غیرت” اور اس کے مقام و مرتبہ اور اس کے بہت سارے امور پر محیط ہونے اور غیرت کے اجزاء میں سے ایک جز وقت کو بتلا تے ہوئے بیان کرتے ہیں وقت کے تعلق سے خودداری کا جذبہ فوت ہوچکا ہے؛ اس لیے کہ وقت اگرچہ جلد ختم ہونے والا ہے، لیکن بڑی خودداری کا پہلو رکھتا ہے، لوٹ کر واپس آنے میں سست رفتار ہے. عبادت گزار کے نزدیک وقت کے معنی یہ ہیں کہ اس میں عبادت اور اوراد و وظائف کا اہتمام کیا جائے اور مرید کے نزدیک وقت کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کلی طور سے اللہ کی طرف انہماک اور اسی کے لیے جمعیت خاطر اور قلب و ذہن ہمہ وقت اسی جانب متوجہ ہو، اس کے نزدیک وقت عزیزترین شے ہے۔ اس کو شرم محسوس ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا احساسات اور جذبات کے بدون وقت گزر جائے۔
چنانچہ جب وقت گزرجاتاہے اس کو کسی بھی صورت دوبارہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ دوسرا وقت اپنی قدردانی کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے، چنانچہ جب وقت چلا جاتاہے اس کے دوبارہ حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ (مدارج السالکین: 3/49)
ہمارے وقت کی قیمت جاننے کا سب سے بہتر ذریعہ اور ہمارے دلوں میں اس کی عظمت و وقعت پیدا کر نے کا محرک اور اس کے بعد اس کو زندگی کے سرمایہ اور سب سے بیش قیمت چیز سمجھنے کا ذریعہ یہ ہے کہ ہم وقت کے متعلق بزرگوں کے واقعات پڑھیں۔ اس سلسلہ میں سب سے عمدہ تصنیف علامہ و محدث اور شامی عالم و فقیہ اور ادیب، عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالی کی “قیمة الزمن عند العلماء” ہے۔ یہ کتاب مطالعہ کے دوران جہاں قاری کے دل میں وقت کی قدر و قیمت کو پیوست کرتی ہے، وہیں دوسری طرف آپ ایسے علمائے اسلام کے گرانقدر علمی نقوش اور ان کے غیر معمولی علمی کارناموں کا مطالعہ کریں گے، جن کے انجام دینے کی توفیق ان کو اس وقت حاصل ہوئی جب انہوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا۔
کتنا اچھا ہوتا اگر ہم اس نادرہ زمانہ کتاب کو ان ایام اور حالات میں جو ہمیں کورونا وائرس کی وجہ سے پیش آچکے ہیں، یعنی عزلت نشینی میں میسر ہیں، اپنے مطالعہ کی فہرست میں سب سے مقدم رکھیں اور اس کا اہتمام سے مطالعہ کریں۔
اردو ترجمہ: محمد ساجد ندوی
3 شعبان المعظم 1441ھ
29 مارچ 2020
آپ کی رائے