بابرکت شادی

بابرکت شادی

میری خالہ ساس (شوہر کی خالہ جان) پاکستان ہجرت کر کے آئیں تو تقریبا 35 سال بعد انڈیا جانا نصیب ہوا۔ وہاں سے آکر ان کی زبان پر اپنے بھائی بھاوج کی تعریفوں کے قصے تو تھے ہی مگر ایک ہستی جس کا تذکرہ وہ خصوصی طور پر کرتیں، ان کی بھتیجی شاہین تھی۔
بتانے لگیں:
”انور بھیا کی چھے بیٹوں کے ساتھ بس ایک ہی بیٹی ہے مگر شاباش ہے والدین کو کہ اس اکلوتی بچی کے جتنے ناز اٹھاتے کم تھا مگر انہوں نے اس کی تربیت اس طرح کی ہے کہ مثال ملنا مشکل ہے۔ گھر میں ہر طرف سے شاہین پکاری جاتی ہے۔ شاہین کی والدہ ہر کام کے لیے شاہین کو ہی آواز دیتی ہیں۔ گھر میں بہوویں ہیں مگر بھائی بھی شاہین کو ہی صدا لگاتے ہیں۔ والد ہر ضرورت کے لیے شاہین کو دوڑاتے نظر آتے ہیں۔ وہ بچی اوپر نیچے کبھی ادھر کبھی ادھر بھاگی بھاگی پھرتی ہے۔ دوڑ دوڑ کر سب کے کام ہنسی خوشی کرتی ہے۔ ہم نے اپنی بھابی سے کہا بھی کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ شاہین ہی ہر کام کے لیے نظر آتی ہے۔ ذرا اپنی بہوؤں پر بھی گھر داری کا بوجھ ڈالیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ بہو بیٹی ایک ساتھ مل جل کر کام میں دلچسپی لیں تو وہ مسکرادیں اور کہنے لگیں:
”بی بی! لڑکی کو پرائے گھر جانا ہے۔ اس کی ہڈی، ہڈی، جوڑ جوڑ میں کام کی عادت رچی بس ہوگی تب ہی سسرال نبھائے گی۔ ہماری بہووں کی خوش نصیبی کہ ہمارا گھر ملا ہے۔ کیا خبر میری بچی کا نصیب کہاں لے جائے۔ ذرا ذرا سے کام کو بوجھ سمجھے۔ بات بات پر منہ بنائے۔ آنسو بہائے تو کیسے زندگی گزرے گی۔ رہی بہووں کی بات تو ان کے یہی دن ہیں سجنے سنورنے کے۔ شاہین کے رخصت ہونے کے بعد انہی نے گھر سنبھالنا ہے۔ یہ دن ہمیشہ یاد رکھیں گی۔“
خالہ جان کے پاکستان آنے کے کچھ عرصہ بعد ان کے بھائی بھاوج پاکستان آئے تو انہوں نے اپنے انجینئر بیٹے کا جو بہت خوب صورت، خوب سیرت نوجوان تھا، رشتہ شاہین کے لیے دیا۔ اب معاملہ بڑا پیچیدہ، گھمبیر صورت اختیار کر گیا۔ وہ بھائی جسے ابھی تک اپنے تمام گھروالوں کی ہجرت کے اذیت ناک لمحات نہیں بھولے تھے۔ اپنوں کی جدائی نے جسے توڑ کر رکھ دیا تھا جس کا کم عمر بیٹا دادا دادی سے لپٹ کر ایسے بلکتا تھا کہ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں مگر بے پناہ چاہنے والے دادا دادی چچا تایا پھوپھیاں سب ہی پاکستان آگئے تھے کہ ہجرت کا فیصلہ دلوں پر پتھر رکھ کر ہی کیا گیا تھا۔ وہ ننھا منا پوتا جو دادی کی ٹانگوں پر چمٹا تو چھڑانا مشکل ہوگیا۔ وہ بڑا ہو کر شاعر بن گیا۔ منور رانا بھارتی شاعر جو کئی بار پاکستان مشاعروں میں آچکے ہیں۔ ان کے اکثر اشعار میں ہجرت کی یادیں، جدائی کا دکھ جھلکتا ہے۔
خالہ جان کا بیٹا جو سب سے چھوٹا تھا، ممانی کے پاؤں پکڑنے التجا کرتا رہتا۔ مامی جان آپ بس ہاں کردیں۔ دیکھیں انکار نہیں کرنا ہے۔ اس کے چھوٹے ماموں بھی اپنے بھائی کو سمجھاتے۔ ”بھیا! آپ کی بچی بہت خوش رہے گی۔ میں ضمانت لیتا ہوں، ناصر بہت اچھا لڑکا ہے۔ ہم سب ہیں۔ سب اس کا خیال رکھیں گے۔“
ان کی بیٹی نے سو رکعت نفل مان لیے۔ وہ انڈیا واپس گئے۔ وہاں سے انہوں نے انکار کردیا کہ سب کچھ بہترین ہے مگر بہن بھائیوں کے بعد بیٹی کی ہجرت بہت مشکل مرحلہ ہے۔
کچھ عرصہ بعد ان کی شادہ شدہ بیٹا دو بچوں کا باپ ایک حادثے میں دنیا سے رخصت ہوگیا تب انہوں نے سوچا کہ جوان بچہ ہم سے جدا ہوگیا۔ آخر ہم رو دھو کر زندہ ہیں نا تو ہم اپنی بچی کا مستقبل کیوں برباد کریں۔ سو انہوں نے ہاں کردی۔ ان کا یہ فیصلہ بہت اچھا بروقت تھا۔ رشتے تو شاہین کے بہت تھے مگر یہ سگا بھانجا تھا سب کی دعاؤں سے وہ مرحلہ آیا کہ یہاں سے خالہ جان کا پورا گھر ان کی بیٹی داماد بچے چھوٹے بھائی کی فیملی، اتنے لوگ باراتی انڈیا گئے۔
شاہین کا نکاح امت مسلمہ کی عظیم ترین ہستی حضرت سیدابوالحسن علی ندوی عرف علی میاں نے پڑھایا۔ چھوٹے ماموں سیدمشرف علی ندوی ان کے خاص شاگردوں میں تھے۔ وہ پاکستان آتے تو ان کے گھر آتے یا ان کو اپنے پاس بلاتے تھے۔
شاہین کی شادی میں حضرت علی میاں رحمہ اللہ کے گھرانے کی آٹھ خواتین بھی تھیں جنھیں علیحدہ مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا تھا۔ ان کے بارے میں چھوٹے ماموں (مشرف علی ندوی) کی صاحب زادی سلمیٰ نے بتایا کہ ان خواتین سے مل کر ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ نورانی چہرے، نورانی اعمال اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے ہر وقت ہوتے، دعائیں ہوتیں۔ سلمی نے بتایا کہ جب ہم لوگ رائے بریلی پہنچے تھے شادی میں شرکت کے لیے تو ایک دن صبح ہی صبح بڑے ابو نے آواز دے کر بلایا کہ چلو علی میاں کو مشرف علی کے بچوں سے ملنا ہے (مشرف علی ندوی نہیں گئے تھے)۔ ہم لوگ خوشی خوشی گئے۔ ”تکیہ“ نام ہے اس علاقے کا جہاں حضرت علی میاں کی رہائش گاہ ہے۔ ہم اس علاقے میں داخل ہوئے تو لگا فرشتوں کے دیس میں آگئے۔ ہر طرف سفید ٹوپیوں کرتے پاجامے میں ملبوس نورانی نفوس اور سرسبز علاقہ۔ بہت خوب صورت منظر تھا۔
جیسے ہی حضرت علی میاں کو پتا چلا تو مردانے سے زنانے میں آئے۔ میں سامنے تخت پر برقع نقاب میں تھی۔ وہ فوراً پلٹ گئے۔ وہ سمجھ رہے تھے بچی کو چھوٹا دیکھا تھا ابھی چھوٹی ہوگی۔ جب کہ قد لمبا ہونے کی وجہ سے میں نے جلد ہی برقع پہن لیا تھا۔ وہ پیٹھ موڑے ہی خیر خیریت پوچھتے رہے۔ ابو کو بہت یاد کرتے دعائیں دیتے رہے۔
شاہین کی شادی میں ایسی بابرکت عظیم ہستیوں کی شرکت کے علاوہ علاقے کے ہندوؤں نے بھی بھرپور شرکت کی اور بے شمار کھانے ان کے لیے علیحدہ سے تیار کیے گئے۔ گویا ہر لحاظ سے یہ ایک یادگار شادی تھی۔ پردے کا بہترین انتظام تھا۔ شاہین کے والد انور رانا رائے بریلی کی نامور شخصیت تھے۔ 400 گز کا تین منزلہ کارنر مکان جو مہمانوں سے بھرا تھا۔ روڈ کے ایک طرف خواتین کے لیے اور دوسری طرف مردوں کے لیے علیحدہ انتظامات تھے۔ اس بابرکت شادی کا مزہ ہمیشہ یاد رہے گا۔
شادی کے بعد شاہین کراچی آئیں۔ کچھ عرصہ بعد اس کے شوہر اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا فیملی کے ساتھ چلے گئے۔ وہاں سے ڈگری اور نیشنلٹی ملنے کے بعد بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کینیڈا چھوڑ کر قطر میں جاب کرلی۔ آج کل وہیں رہائش ہے۔
شاہین تین بچوں کی ماں ہیں اور وہ بھی اپنے بچوں کو دینی و اخلاقی تربیت کے معاملے میں بہت اصول پسند ہیں۔ اپنے والدین کی طرح وہ بھی اپنے بچوں کو بہترین اخلاق کا حامل بہترین انسان (جو انسانیت کا درد رکھتا ہو) بنانے میں سرخرو ہونا چاہتی ہیں۔
شاہین کی زندگی کے سب سے مشکل لمحات وہ تھے جب والد کے انتقال کے کچھ عرصے بعد والدہ کی بیماری کی اطلاع ملی۔ وہ والدہ کے پاس خدمت کے لیے قطر سے انڈیا گئیں۔ ان کے سامنے ہی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت انھیں اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ دنیا اندھیر ہونا، پیروں تلے زمین نکلنا اب سمجھ آیا تھا۔
یہ تھا میری ماموں زاد نند کا تذکرہ جس سے بات کرکے دل کو سکون ملتا ہے۔ لگتا ہے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ ہمدرد، پرخلوص، بہت بااخلاق، بہت غریب پرور سخی، کسی کی تکلیف پریشانی کا پتا چل جائے، مالی مدد کی ضرورت ہو، وہ نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ اللہ جان و مال میں برکت دے اور دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں نصیب کرے۔ آمین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں