شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

اسلامی انقلاب کی بقا عوام کے ساتھ ہی ممکن ہے

اسلامی انقلاب کی بقا عوام کے ساتھ ہی ممکن ہے

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے سات فروری دوہزار بیس کے خطبہ جمعہ میں ایران کے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب ایک عوامی انقلاب تھا جس کی بقا بھی عوام کو ساتھ رکھنے ہی سے ممکن ہے۔

سنی آن لائن نے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب میں کہا: اناسی کے انقلاب کی کامیابی میں عوام کی امیدیں شامل تھیں جو انقلابی لیڈروں سے وابستہ تھیں۔ ان ہی امیدوں نے عوام کو علما اور قائد انقلاب کے پیچھے متحد کیا اور اس طرح اکتیس سال قبل انقلاب کامیاب ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: لوگوں کا خیال تھا کہ علما دین سے وابستہ ہیں اور اللہ جل جلالہ اور رسول اللہ ﷺ سے ان کی شناخت زیادہ ہے، لہذا وہ اعلی ظرف رہ نما ہوں گے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اناسی کا انقلاب ایک عوامی انقلاب تھا جس میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس انقلاب کی بقا بھی ان ہی عوام کی حمایت سے ممکن ہے۔ لوگوں کو ساتھ رکھنا انتہائی اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’عوامی مطالبات پر توجہ، نفاذِعدل اور آزادی‘ انقلابی لوگوں کے نعرے اور مطالبات تھے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔

امتیازی رویوں اور ناانصافی کا خاتمہ ہونا چاہیے
صدر دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ملک میں عدل کا نفاذ ہونا چاہیے اور عوام کے معاملے میں امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوناچاہیے۔ اسلام میں امتیازی سلوک اور ناانصافی کا تصور ہی نہیں ہے۔ حکام ناانصافی کا خاتمہ کریں، امتیازی رویوں کی بیخ کنی ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: پوری ایران قوم کے حقوق برابر ہیں۔ انقلاب کسی مخصوص مسلک یا قومیت کا نہیں ہے؛ اس کا نام اسلامی انقلاب ہے۔ اسلام کی اعلی ظرفی کو مد نظر رکھنا چاہیے، مسلک کی نہیں جو محدود ہے۔
امتیازی رویوں کے منفی اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: مسلکی نگاہیں محدود ہیں جن کے نقصانات خطرناک ہیں۔ اپنی سوچ اور حد نگاہ اسلامی بنائیں جس کا ظرف بڑا اور اعلی ہے۔ لسانی و مسلکی سمیت ہر قسم کی تقسیم میں محدودیت و رکاوٹ ہے، لیکن اسلام ایسا نہیں ہے۔ اگر نگاہیں اسلامی ہوجائیں، سب کو ان کے جائز حقوق مل ہی جائیں گے اور سب مسائل حل ہوجائیں گے۔

ایران کے سنی اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں
اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے ایرانی سنیوں کی مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: گزشتہ اکتیس برسوں کے دوران تمام تر مشکلات کے باجود ایران کی سنی برادری نے اسلامی انقلاب کی حمایت کی ہے، لیکن ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ابھی تک اہل سنت اپنے ملک میں پریشان ہیں اور اپنے حقوق کے بارے میں انہیں پریشانی لاحق ہوچکی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے امتیازی سلوک اور مذہبی آزادی کے بارے میں اہل سنت کے شکووں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ترقیاتی کاموں اور رفاہ عامہ کی خدمات کے حوالے سے شکوہ کم ہے، لیکن عہدوں کی تقسیم میں اہل سنت کو نظرانداز کیا جارہاہے اور بعض علاقوں اور بڑے شہروں میں جہاں سنی اقلیت میں ہیں، انہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بطور خاص کرمان اور اہواز کے سنی شہری سخت نالاں ہیں کہ ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ان پر مذہبی دباؤ شدید ہے۔ توقع ہے کہ سنی برادری سے محبت کرکے انہیں گلہ لگائیں، انہیں نظرانداز کرکے دیوار سے نہ لگایا جائے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: اتحاد و بھائی چارہ کا تقاضا ہے کہ ملکی سطح پر اہل سنت جہاں بھی رہتے ہیں، انہیں آزادی حاصل ہو اور نماز کے اقامہ اور اپنے بچوں کی دینی تعلیم کے حوالے سے شیعہ وسنی شہریوں کو یکساں آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں اور ہمارے عقائد کو نہیں مانتے ہیں یا ہماری طرح نہیں سوچتے ہیں، انہیں بھی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔

عہدوں کی تقسیم میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہیے
حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے میرٹ پر زور دیتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں میرٹ پوری طرح نافذ نہیں ہوتاہے۔ جن فارمز پر ’شیعہ‘ و ’سنی‘ کا خانہ لگاہواہے، وہ دنیا کے عرف و رواج کے خلاف ہے۔ دنیا میں کسی بھی ریاست میں (روزگار دیتے وقت) مسلک سے نہیں پوچھتے ہیں؛ ایرانی ہونا ہی کافی ہے۔ اگر مزید جاننا ہے، تو مسلمانی کا دعوی کافی ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی بھی نظام میں تنگ نظری و کوتہ فکری سے اس نظام کو سخت نقصان پہنچے گا۔ جتنا سخت نقصان کسی ملک کو تنگ نظری سے پہنچتاہے، اتنا سخت نقصان کسی خارجی دشمن سے بھی نہیں پہنچتاہے۔ جس فرد اور نظام و ادارہ میں تنگ نظری آجائے، اللہ تعالی کی نصرت اس کے ساتھ نہیں ہوگی۔
مولانا عبدالحمید نے اسلام، سیرت النبیﷺ اور صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کی اعلی ظرفی کی مثال دیتے ہوئے کہا: ہم خود کو ان بزرگوں کے پیروکار سمجھتے ہیں، تو ہمیں دل بڑا کرنا چاہیے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: اسلامی انقلاب سے اکتیس برس گزرچکے ہیں، لیکن ابھی تک آئین کے بہت سارے آرٹیکلز کو نظرانداز کیاجارہاہے یا ان پر اپنی خواہش کے مطابق عمل ہوتاہے۔ تمام حکام کو ہمارا پیغام ہے کہ مواقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ لسانی و مسلکی برادریوں سے اسی ظرف سے برتاؤ رکھیں جو آئین میں ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: اہل سنت کو مایوس مت بنائیں، انہیں خود سے قریب رکھیں۔ اہل سنت پریشان ہیں اور ان کی شکایات ہیں۔ ان کی پریشانیاں دور کریں۔

انتخابات میں امیدواروں کی صلاحیتیں دیکھیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اکیس فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: انتخابات بھی اعلی ظرفی و فراخدلی سے ہونا چاہیے۔ انتخابات میں امیدواروں کی کارکردگی وصلاحیت اور اہلیت بہت اہم ہے۔ اگر کوئی شخص دیندار و متقی ہو، لیکن اہلیت نہ رکھتاہو اور کم ظرف ہو، وہ پارلیمنٹ کے لیے مناسب شخص نہیں ہوگا۔ رکن مجلس کو اعلی ظرف ہونا چاہیے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی لسانی و مذہبی برادری سے ہو۔
گارڈین کونسل کو خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: اہل اور قابل افراد کو منظوری دینے سے انتخابات کا تنور گرم رکھیں۔ مختلف الخیال لوگوں کو میدان اتارنے سے انتخابات میں ہلچل پیدا ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا: ایران سب ایرانیوں کا ملک ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں کوئی حکومت ہی نہیں تھی، لیکن لوگوں نے انگریزوں کے خلاف لڑکر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ اپنے ملک کو سامراجی طاقتوں کے جراثیم سے پاک رکھیں۔ اگر ظرف اعلی ہو، تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔

اسلام اعلی ظرفی کا دین ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں اسلام کی اعلی ظرفی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: تمام آسمانی مذاہب اعلی ظرفی کی مثالیں ہیں، لیکن جو اعلی ظرف اسلام میں ہے، وہ کسی بھی دین میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے تمام قوانین اور احکام اعلی ظرفی اور عدل و انصاف کی بہترین مثالیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام محض نظریہ اور تھیوری نہیں ہے، یہ عمل کا دین ہے۔ اگر ہم اس دین کو مان لیں، لیکن اس پر عمل کرنے میں من مانی کریں اور اپنی خواہشات پر عمل کریں، پھر اس کی برکات سے محروم رہ جائیں گے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: انسان کسی بھی سطح پر ہو، اسے عدل کا دامن تھامن لینا چاہیے؛ چاہے وہ عام آدمی ہو یا کسی ملک کا صدر، صوبے کا گورنر، شہر کا ناظم و۔۔۔ ہر حال میں عادل ہونا چاہیے۔ اسلام عدل اور میانہ روی کا دین ہے۔ اسلام ہمیں دیگر مذاہب و ادیان کے پیروکاروں سے حسن سلوک اور تعامل سکھاتاہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں