کورونا وائرس اور اسلام کی حقانیت

کورونا وائرس اور اسلام کی حقانیت

اسلام ایک خوبصورت مذہب ہے جس نے انسانیت کو جینے کا شعور دیا۔
اسلام سے قبل معاشرے کی بے راہ روی آج کے یورپی معاشرے سے کم نہ تھی۔ ان کی اخلاقی حالت ایسی تھی کہ کوئی ان پر حکومت تک کرنے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ اسلام نے انہیں جینے کا ایسا سلیقہ سکھایا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے رہبر و رہنما بن گئے۔ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رہنمائی فراہم کی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زندگی کے ہر ہر شعبے اور ان کی جزئیات کے متعلق بھی اسلام رہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ اس میں تمام تر مسائل کی بنیاد فراہم کردی ہے اور تفصیلی کام امت کے اصحاب علم و بصیرت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ہر دور میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام جزئی مسائل کا حل تلاش کریں۔ اسلام میں بیان کردہ احکامات میں حلال و حرام کی واضح تمیز کی گئی ہے۔ ویسے تو ہر یک مسئلہ اور معاملہ میں حلال و حرام کو واضح کیا گیا ہے لیکن اسلام نے حلال غذا کھانے اور حرام غذا سے بچنے کی بھی خاص تلقین کی ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا: ترجمہ، اے ایمان والو، جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطاء کی ہیں ان کو کھاؤاور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اللہ کے بندے ہو۔ (البقرہ) اسی طرح اور بھی بہت سی آیات اور احادیث مبارکہ میں حلال غذائیں کھانے کی تاکید کی گئی ہے۔ تمام وہ غذائیں جو شریعت مطہرہ نے انسان کے لیے حلال قرار دی ہیں ان میں انسان کے لیے روحانی فوائد تو ہیں ہی، اس کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے ان غذاؤں میں بے شمار طبعی و طبی فوائد بھی ہیں اور جن غذاؤں کو حرام قرار دیا گیا ہے ان میں انسان کے لیے نقصانات ہیں۔ ہماری غذائیں معدہ، جگر اور گردوں کے افعال پر اثرانداز ہونے کے علاوہ دل و دماغ پر بھی اثر کرتی ہیں، لہذا حلال اور صاف ستھری غذائیں اسی طرح استعمال کی جائیں جیسے اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے تو یہ غذائیں انسان کے دل و دماغ کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں اور اگر حرام اشیاء کا استعمال کیا جائے تو دل و دماغ کے مفسد ہونے کے علاوہ جسم بھی مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ آج کل کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لیپٹ میں لے رکھا ہے جس کی ابتدا چین سے ہوئی اور اس کے سب سے زیادہ متاثرین بھی چین میں ہی ہیں اور ہلاکتیں بھی چین میں ہی سب سے زیادہ ہوچکی ہیں جبکہ دیگر بہت سے ممالک میں بھی اس کے کیس سامنے آرہے ہیں بلکہ اکا دکا اموات کی بھی خبریں ہیں۔ اللہ رب العزت سب کو موذی امراض سے محفوظ رکھے اور جو اس سے متاثر ہیں انہیں صحت عطاء فرمائے۔
یہاں اس بات کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ممکنہ طور پر یہ وائرس چمگادڑوں کے ذریعے کتے بلی و غیرہ میں منتقل ہوا اور وہاں سے انسانوں میں۔ چینی حلال و حرام اور غذا کی پاکی و ناپاکی میں تمیز کیے بغیر ہر چیز کھالیتے ہیں، جن میں کتے بلے، چوہے اور کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں۔ اسی وجہ سے اتنا شدید اور موذی وائرس اتنی تیزی سے پھیلا کہ چین جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس کی روک تھام میں ناکام نظر آتا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ چین جیسا مضبوط معیشت رکھنے والا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بھی اپنے شہریوں میں پاک و ناپاک غذا کے بارے میں شعور پیدا نہیں کرسکا اور انہیں مضر صحت غذا کھانے سے روک نہیں سکا۔ جن اشیاء کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے انہیں آج کی سائنس بھی مضر صحت مانتی ہے اور اسلام کی حلال کردہ اشیاء صحت کے لیے سودمند ثابت ہوچکی ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور بات جو اسلام کی حقانیت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ چین میں وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چین نے فضائی آپریشن تقریبا بند کردیا اور کسی کو چین میں داخل ہونے یا چین سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اپنے شہریوں چین جانے اور جو شہری چین میں مقیم تھے، انہیں وہاں سے نہ نکالنے کا اعلان کیا۔ اگر چہ اب اسکریننگ و غیرہ کی شرط پر تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنا شروع کردیا ہے لیکن ابتداء میں انہوں نے نہ نکالنے کا ہی فیصلہ کیا تھا۔
یہ اسی کا عملی ثبوت ہے جو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس علاقے میں طاعون پھیلا ہو اس علاقے میں نہ جاؤ اور ایسے ہی (موت کو خوف سے) وہاں سے مت بھاگو۔ بعض علمائے کرام کی نظر میں طاعن ایک خاص قسم کی بیماری تھی، جس کے بارے میں یہ ارشاد ہے لیکن بہت سے علماء کرام کا یہ بھی موقف ہے کہ طاعون ایک خاص قسم کی بیماری تھی، جس کے بارے میں یہ ارشاد ہے لیکن بہت سے علماء کرام کا یہ بھی موقف ہے کہ طاعون سے مراد ہر وہ موذی بیماری ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اور جس علاقے میں یہ بیماری پھیلی ہو، وہاں نہ تو جانا جائز ہے اور نہ ہی وہاں سے موت کے خوف سے بھاگنا جائز ہے۔ ایسے لوگ جو اس بیماری پر صبر کرکے اسی علاقے میں ٹھہرے رہیں تو ان کے لیے شہید کا اجر ہے، اس پر بھی بہت سے علمائے کرام کا یہ موقف ہے کہ اگر اس کی موت نہ بھی واقع ہو تب بھی اس صبر و استقامت پر اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔
اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کے لیے یہ دو مثالیں تو شاید بہت چھوٹی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی موجودہ دور میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو اسلام کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان کسی طرح اسلام کی تعلیمات ان غیر مسلموں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کریں۔ یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اس کی جہاں تک رسائی ہے وہ اسلام کا پیغام غیرمسلموں تک پہنچائے تا کہ وہ اسلام کے احکامات پر غور و فکر کریں اور اس کی حقانیت کی پہچان کر اس کے دائرہ عافیت میں داخل ہوجائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں