ہمارے اکابر کون تھے؟

ہمارے اکابر کون تھے؟

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے ترک عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہے۔ ہم اہل مواقع پر اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کا وہ شہر آفاق شعر پڑھا جس میں علامہ اقبال نے خلافتِ عثمانیہ کے سقوط پر امت کی تشفی اور حوصلہ افزائی کے لیے ”خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا“ ہونے کی نوید سنائی تھی۔
صدر ایردوان کے یہ الفاظ پوری ترک قوم کے دلی جذبات کے عکاس ہیں۔ ترکی میں ہم جہاں گئے، ترک باشندوں نے ایسی محبت، احترام اور والہانہ تعلق کا اظہار کیا جس سے معلوم ہوا کہ ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جس میں پاکستانیوں کی دل سے عزت کی جاتی ہے۔ انہیں ”کاردش“ یعنی مشکل وقت میں کام آنے والا بھائی کہا جاتا ہے اور ان سے ایسے بے ساختہ برادرانہ جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے جو انتہائی مسرت آمیز بھی ہیں اور تعجب خیز بھی۔ ہم نے اس کی وجوہات کی کھوج لگائی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ چھوٹے بڑے، امیر غریب، سب ہمارے لیے خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہیں، گویا ان کی گھٹی میں یہ بات ڈال دی گئی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ ترکوں کی رگوں میں عثمانی خون ہے۔ ان کی نجابت و شرافت انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اس حسنِ سلوک اور بھائی چارے کے واقعات کو یاد رکھیں جو ہمارے آباء و اجداد نے جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کے تحفظ اور اس کی مدد کے لیے سیاسی، مالی، جانی ہر سطح پر کیا۔ انہوں نے اپنی نصابی تاریخ میں اس امر کو داخل کیا ہے کہ دنیا کے ۵۰ سے زیادہ مسلم ممالک میں سے پاکستان وہ ملک تھا جس نے مشکل وقت میں ہماری مدد کے لیے بندے بھی بھیجے تھے اور چندے بھی۔ برصغیر میں تحریک بھی چلائی تھی اور عالمی سطح پر بھی آواز اٹھائی تھی۔ یہ لوگ اس زمانے خود محکوم تھے، لیکن اسی انگریز کے خلاف جو ان پر حکمران تھا، انہوں نے ترک موالات کی تحریک چلائی اور اسے دھمکی دی کہ اگر وہ یونان کی سرپرستی اور پشت پناہی سے باز نہ آیا تو وہ اس کے مقبوضات میں بغاوت برپا کردیں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ عظیم اول کا نتیجہ کچھ بھی ہو، لیکن برطانیہ کی پشت پناہی ختم ہوتے ہی عثمانی مجاہدین یونانی افواج کو رگیدتے ہوئے نہ صرف اپنے ملک کی حدود سے باہر لے گئیں، بلکہ آدھا قبرص بھی چھڑالیا۔ نیز برصغیر سے سونے چاندی کے زیورات چندے کی شکل میں ہماری ماؤں بہنوں نے بھیجے تھے، اس محبت کو تو ترک کبھی بھلاہی نہیں سکتے۔ خصوصا جبکہ جنگ کے خاتمے پر انہوں نے اس سونے کو پگھلا کر اپنی معیشت کی بنیاد رکھی اور جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات پانے میں کامیابی حاصل کی۔
یہ سب باتیں ترکی کی تاریخ میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں اور سینہ بہ سینہ روایات میں چلتی ہیں، لہذا بچہ بچہ پاکستان کے لیے وہ جذبات رکھتا ہے جسے صحیح معنوں میں اخوت ایمانی اور اسلامی بھائی چارگی کے جذبات کہا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کی مدد کرنے میں پیش پیش علمائے دیوبند تھے، جنہیں اللہ تعالی نے جو ایمانی غیرت کے ساتھ ایمانی حکمت سے بھی نوازا تھا اور وہ آفاقی سوچ اور عالمی فکر رکھتے تھے۔ ہم تو آج تک ان کی قربانیوں کا ثمر کھا رہے ہیں۔ فضائل اعمال کے مصنف شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ اکابر علمائے دیوبند کا زہد، مجاہدہ اور رسومات کے خاتمے کے مشقت آمیز محنت کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی شادی کا قصہ بہت مشہور ہے۔ سوانح قاسمی (ص: ۵۰۷) میں حضرت رحمہ اللہ کی اہلیہ محترمہ کی روایت درج ہے۔ وہ فرمایا کرتی تھیں: ’میرے والد شیخ کرامت حسین رئیس دیوبند نے جب حضرت رحمہ اللہ سے نکاح کرکے مجھے رخصت کیا تو اس زمانے کے لحاظ سے جہیز بہت بڑا اور عظیم الشان دیا، جس میں قیمتی زیورات، کپڑے اور تانبے کے برتنوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ حضرت رحمہ اللہ جب شب اول میں تشریف لائے تو آتے ہی نوافل شروع فرمائے۔ نوافل سے فارغ ہونے کے بعد میرے پاس تشریف لائے۔ انتہائی متانت اور سنجیدگی سے فرمایا: جب تم کو اللہ نے میرے ساتھ وابستہ کردیا ہے تو نبھاؤ کی ضرورت ہے، مگر بہ صورت موجودہ نبھاؤ میں دشواری ہے کہ تم امیر اور میں غریب نادار ہوں۔ صورتیں اب دو ہی ہیں یا میں بھی تو نگربنوں یا تم میری طرح نادار بن جاؤ اور میرا امیر بننا تو دُشوار ہے، اس لیے آسان صورت دوسری ہوسکتی ہے کہ تم میری طرح ہوجاؤ۔‘ کچھ اور بھی اسی طرح فرمایا۔ اخیر میں یہ فرمایا: ’اگر تم کو کسی بات کا حکم دوں جس میں تمہارا ہی نفع ہو تو کیا تم کو مجھ پر اعتماد ہوگا؟‘ کئی بار فرمانے پر بالآخر میں نے عرض کیا: ’مجھے آپ پر پورا اعتماد ہے۔‘ اس پر حضرت نے فرمایا: ’اچھا! سب زیور اتار کر مجھے دے دو اور جس قدر تمہارے ساتھ کپڑے او برتن ہیں، ان کا بھی مجھے اختیار دے دو۔‘ اس پر حضرت رحمہ اللہ کی اہلیہ نے بغیر کسی تذبذب اور دغدغہ کے کہا: ’آپ کو کُلّی اختیار ہے۔‘ پھر علی الصبح تمام زیورات، تمما جوڑے کپڑوں کے اور سارے برتن جو ہزاروں روپے کا سامان تھا، سب کا سب چندہ سلطانی میں دے دیا۔ خلافت اسلامیہ ترکی کے لیے اس وقت ہندوستان میں چندہ ہو رہا تھا۔
آگے حضرت رحمہ اللہ کی اہلیہ فرماتی ہیں: ’جب میں دیوبند واپس ہوئی تو میرے باپ نے میرے ہاتھ پاؤں، ناک کان کو خالی دیکھ کر پوچھا کہ زیور کا کیا ہوا؟‘ انہوں نے جو واقعہ پیش آیا تھا سب والد کے سامنے دہرا دیا۔ شیخ کرامت حسین صاحب رحمہ اللہ زبان سے تو کچھ نہ بولے، لیکن اس خیال سے کہ بچی اعزہ و اقربا کے سامنے کب تک یوں ہی رہے گی۔ پھر از سر نو سارا جہیز تیار کیا۔ حضرت رحمہ اللہ کی اہلیہ فرماتی ہیں: ’میں پھر لد پھند کے دوبارہ سسرال پہنچی۔ رات کو حضرت رحمہ اللہ تشریف لائے۔ پھر ترغیب آخرت سے گفتگو شروع ہوئی۔ کل کی تیاری کے لیے آج کا اختیار پھر لینے کی خواہش ظاہر کی۔ اختیار جو پہلے ہی دیا جاچکا تھا، اس کی واپسی کا سوال ہی کب پیدا ہوا تھا؟ کہہ دیا کہ آپ مختار ہیں اور صبح ہی ہزاروں روپے کا سامان سلطانی چندے میں دے ڈالا۔ حضرت رحمہ اللہ کی اہلیہ محترمہ عموماً کہا کرتی تھیں کہ اس کے بعد میرے قلب سے روپے پیسے اور زیور و غیرہ کی محبت ہی قطعا نکل گئی، بلکہ ان اشیا سے ایک قسم کا تنفر پیدا ہوگیا۔ پھر عمر بھر میں نے زیور بنوایا اور نہ فاخرہ لباس کی مجھ میں کبھی ہوس یا آرزو پیدا ہوئی۔“ (اکابر علمائے دیوبند، از شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ، صفحہ: ۵۷)
اس واقعے سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر دنیاوی رسوم سے کتنے دور تھے، وہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی یا دبھی ان کے رویے دیکھ کر تازہ ہوجاتی ہے۔ آج سے چند سال قبل شامی مہاجرین کی امداد کے لیے ترکی جو عطیات اور زیور بھیجے گئے، اس نے یادوں کو پھر تازہ کردیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے رویے کی اصلاح کی جائے۔ ہم لوگ ساری دنیا سے دوستی اور خیر سگالی کے تعلقات بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، لیکن ساری دنیا میں کہیں بھی ہمارے شہری باعزت سلوک کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس ملک سے قریب آنے اور اسے خود سے مزید قریب لانے کی کوشش نہیں کررہے، جہاں بے ساختہ ہماری عزت بھی کی جاتی ہے اور ہمیں بھائیوں جیسے احترام سے بھی نوازا جاتا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں