افغانستان: طالبان کے حملے میں 2 امریکی فوجی ہلاک

افغانستان: طالبان کے حملے میں 2 امریکی فوجی ہلاک

افغانستان کے جنوبی علاقے میں طالبان کے سڑک کنارے بم حملے سے 2 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیٹو کے ریزولوٹ سپورٹ مشن برائے افغانستان کے مطابق صوبہ قندھار میں ہونے والے حملے میں 2 فوجی شدید زخمی بھی ہوئے جبکہ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔
مشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے افراد کے نام ابھی سامنے نہیں لائے گئے ۔
صوبائی پولیس ترجمان جمال ناصر بارکزئی کا کہنا تھا کہ ‘امریکی فوجی قندھار ایئرپورٹ کے نزدیک پیٹرولنگ پر مامور تھے’۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکے سے گاڑی تباہ ہوئی اور اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہوگئے۔
واضح رہے کہ 2014 کے اختتام پر فوجی آپریشنز سرکاری طور پر ختم ہونے کے بعد سے لے کر اب تک 2019 امریکی فوجیوں کے لیے مہلک ترین سال رہا ہے۔
ہلاکتوں کی مذکورہ تعداد افغانستان کے اکثر حصوں میں برقرار سیکیورٹی کی خراب صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہاں یہ یاد رہے کہ اکتوبر 2001 میں امریکا کی قیادت میں شروع کی گئی جنگ سے لے کر اب تک افغانستان میں 2400 کے قریب امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
خیال رہے کہ جنگ بندی پر رضامندی کی صورت میں طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے امن معاہدہ طے پانے کی امید ظاہر کی گئی تھی۔
اس معاہدے میں امریکا طالبان کی جانب سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اس تنازع میں دونوں طرف کے افغانوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات انتہائی اہم ستون ہے جس کے لیے ایک سال سے امریکا اور طالبان کے درمیان ادھیڑ بن جاری ہے۔
امریکا اور طالبان کے مابین معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد 2 ہفتوں میں بین الافغان مذاکرات ہونے کی توقع ہے جو اس بات کا تعین کریں گے کہ جنگ کے بعد افغانستان کا مننظر نامہ کیسا ہوگا اور طالبان اس میں کیا کردار ادا کریں گے۔
ان مذاکرات میں متعدد پہلوؤں پر بات کی جائے گی جن میں خواتین کے حقوق، آزادی اظہار رائے اور ہزاروں طالبان قیدی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دولت اور طاقت کا غلط استعمال کرنے والی مسلح ملیشیا کا مستقبل شامل ہے۔

افغان امن عمل منسوخ ہونے کے بعد کیا ہوا؟
یاد رہے کہ رواں برس 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔
امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔
بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔
ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔
لہٰذا اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا، افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔
ان مذاکرات کا دوبارہ آغاز گزشتہ سال دسمبر کے آغاز میں پھر سے ہوا تھا تاہم کابل کے شمال میں واقع بگرام ایئر بیس پر ایک اور حملے کے نتیجے میں مذاکرات دوبارہ روک دیے گئے تھے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں