عراقی پارلیمان میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا استعفا اتفاق رائے سے منظور

عراقی پارلیمان میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا استعفا اتفاق رائے سے منظور

عراق کی پارلیمان نے وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے استعفے کی منظوری دے دی ہے جبکہ ملک میں پُرتشدد احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور دارالحکومت بغداد میں ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا ہے۔
پارلیمان نے اتوار کو اپنے اجلاس میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے استعفے کی کسی رائے شماری کے بغیر ہی منظوری دے دی ہے۔عراق میں مروجہ قوانین میں وزیراعظم کے استعفے کی منظوری کا کوئی طریق کار وضع نہیں کیا گیا ہے۔اس لیے قانون سازوں نے اجلاس میں وفاقی عدالت عظمیٰ کی ایک قانونی رائے کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے۔
ایک رکن سرقوت شمس الدین نے پارلیمان کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ وفاقی عدالت کی تشریح کے مطابق ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ایک اور رکن محمد الدراجی کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو ایک آئینی سقم کا سامنا ہے اور اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ اگر وزیراعظم استعفا دے دیتا ہےتو پھر پارلیمان کے ارکان اس پر کیا کارروائی کریں گے اور اس کی کیسے منظوری دیں گے۔
عادل عبدالمہدی نے اپنی حکومت کے خلاف جاری پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد جمعہ کو مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور کابینہ نے ہفتے کے روز ایک ہنگامی اجلاس میں ان کے استعفے کی منظوری دے دی تھی۔وزیراعظم کے استعفے کے مؤثرالعمل ہونے کے لیے اس کی کابینہ اور پارلیمان دونوں سے منظوری ضروری ہے۔
دریں اثناء عراقی شہریوں نے آج بھی بغداد کی شاہراہ رشید پر اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز نے دریائے دجلہ پر واقع احرار پُل پر رکھی کنکریٹ کی رکاوٹوں کو عبور کرنے سے روکنے کے لیے براہ راست فائرنگ کی ہے جس سے ایک شخص ہلاک اور دس افراد زخمی ہوگئے۔
جنوبی شہر بصرہ میں بھی حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور وہاں احتجاجی ریلیوں میں اساتذہ اور طلبہ بھی شرکت کرہے ہیں۔ وہ سیاہ لباس زیب تن کرکے نجف اور ذی قار میں گذشتہ چند روز کے دوران میں ہلاک ہونے والے مظاہرین کا سوگ بھی منارہے ہیں۔عراق میں ہفتے سے ان مہلوک مظاہرین کا تین روزہ سوگ منایا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ بغداد اور جنوبی شہروں میں یکم اکتوبر کے بعد سے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں چارسو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔مظاہرین ارباب اقتدار وسیاست کی بدعنوانیوں ، بے روزگاری ، مہنگائی اور شہری خدمات کے پست معیار کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور وہ نظام حکومت میں وسیع تر اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں۔عراقی سکیورٹی فورسز انھیں منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ کرتے اور اشک آور گیس کے گولے چلاتے ہیں جس کے نتیجے میں مظاہرین کی اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں