آزادی مارچ: مولانا فضل الرحمان کا آئندہ کا لائحہ عمل آل پارٹیز کانفرنس میں طے کرنے کا فیصلہ

آزادی مارچ: مولانا فضل الرحمان کا آئندہ کا لائحہ عمل آل پارٹیز کانفرنس میں طے کرنے کا فیصلہ

جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی کوشش کریں گے، جس میں باہمی مشاورت سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اتوار کی رات کو آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اگلے اقدامات کا فیصلہ بھی تمام اپوزیشن کی باہمی مشاورت سے کریں گے۔‘
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کی مہلت اتوار کے روز ختم ہو گئی ہے۔

’ہماری فوج متنازع ہوتی جا رہی ہے‘
مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر اتنخابی دھاندلی پر بات کی ہے اور فوج کو اس عمل سے دور رہنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہر الیکشن میں مداخلت کی جاتی ہے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔
فوج کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے انھوں نے کہا ’میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ آئندہ کے لیے ہماری فوج، جو ہمارے لیے محترم ہے، وہ ہر حال میں اس بات کو طے کرے گی کہ پاکستان کے عام انتخابات سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔‘
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا ’اس سے ہمارا ادارہ متنازع ہوتا جا رہا ہے، ہماری فوج متنازع ہوتی جا رہی ہے۔ ہم پاکستانی فوج کو متنازع نہیں بنانے دینا چاہتے۔‘
ادھر وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اتوار کی رات ایک پریس کانفرنس میں مولانا کی تقریر پر اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے، امید ہے کہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
آزادی مارچ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کچھ دن سے تھیٹر چل رہا ہے اور کچھ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اسلام آباد آئے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا کا کوئی واضح ایجنڈا نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صرف پانچ گھنٹے میں اس سے پانچ گنا بڑا مجمع جمع کر سکتے ہیں۔

’ہر ادارہ اپنی مداخلت کر رہا ہے‘
مولانا فضل الرحمان نے اتوار کی رات اپنی تقریر میں مزید کہا ’آئین کے اندر تمام محکمہ جات اور تمام اداروں کے کردار کا اپنا دائرہ ہے۔ اور اپنے دائرے سے وابستہ رہیں گے، کوئی بھی فساد ملک میں نہیں آتا۔ اور یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہا ہوں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ کہا تھا کہ از سر نو ایک عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے۔‘
ان کہنا تھا کہ ’ہم آئین سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ ہر ادارہ اپنی مداخلت کر رہا ہے۔ عوام مطمئن نہیں ہیں کہ پاکستان میں پاکستان کے آئین کی حیثیت کیا ہے۔
’سب اداروں کو بیٹھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ آئین محترم ہے، وہ سپریم ہے، اس کی بنیاد پر ہی ملک کا نظام چلے گا اور یہ عہد و پیمان آپس میں کرنا پڑے گا تاکہ پاکستان کے آئین کی عملداری اور اس کے تحت ہم اپنے وطن عزیز کے نظام کو چلا سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جمہوری ادارے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں اور جمہوریت نام کی ایک چیز رہ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ‘ہر شخص الیکشن میں عوام کے بجائے کسی اور طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

’الیکشن کمیشن خود بے بس ہے‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ یہ حکومت نے خود تسلیم کیا تھا کہ بڑی دھاندلی ہوئی ہے اور یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی دیکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک اس کمیٹی کا پورے سال میں ایک اجلاس نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے کوئی قواعد و ضوابط بنائے جا سکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن خود بے بس ہے۔ ’الیکشن کمیشن بیچارہ تو ہم سے بھی زیادہ بے بس ہے۔ الیکشن کمیشن سے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کے کیس کا پانچ سال سے فیصلہ نہیں ہو سکا تو وہ کمیشن دھاندلی کا کیا فیصلہ کرے گا۔‘
انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ آپ کی اپنی جماعت کا اکبر ایس بابر حساب مانگ رہا ہے۔ ’حساب مانگتے ہو اور خود کسی ادارے کے پاس پیش ہونے کو تیار نہیں ہو۔ یہاں تو پوری پارٹی اور پوار ٹبر چور ہے۔‘

’ان حکمرانوں کو جانا ہوگا‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت صرف حکمران پریشان ہیں۔ ان کے مطابق ’ان حکمرانوں کو جانا ہوگا، عوام کو ووٹ کا حق دینا ہوگا۔‘
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنی جدوجہد کو موجودہ حکومت کے خاتمے تک جاری رکھیں گے۔ ’ہم پیچھے نہیں جائیں گے۔ پسپائی نہیں پیش رفت کریں گے، یہاں بیٹھنا آخری بات نہیں ہے۔ پلان بی اور سی بھی ہیں۔ تمھاری جیلیں کم پڑ جائیں گی۔ اب ہم ڈٹے ہوئے ہیں، پیچھے ہٹنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ پوری قوم ہمارے ساتھ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وسائل کم اور جذبات زیادہ ہیں، جس طرح کے لوگ ہم پر مسلط ہیں ان سے جان چھڑانی ہوگی۔

مرکزی شوری کے اجلاس کا احوال
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے اتوار تک مستعفی ہونے کی مہلت ختم ہونے کے بعداب سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟
کیا اب بھی مذاکرات سے معاملات کا سیاسی حل نکالا جا سکے گا؟
جمعیت علماء اسلام ف کی مرکزی شوری کے رکن کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعیت علماء اسلام ف کی مرکزی شوریٰ (سنٹرل کمیٹی) کے اجلاس میں شاہراہ کشمیر سے آگے بڑھنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شوریٰ کے کئی ارکان نے اپوزیشن کے بغیر آگے بڑھنے کی مخالفت کی ہے تاہم مرکزی شوریٰ میں طے کیا گیا کہ صورتحال پر غور کے لیئے چار نومبر بروز سوموار دوبارہ اجلاس ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پارٹی کی مرکزی شوری (سنٹرل کمیٹی) کے اجلاس میں شاہراہ کشمیر سے آگے بڑھنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے لیئے طے کیا گیا ہے کہ اس پر دوبارہ چار نومبر کو مشاورت کی جائے گئی۔
’آگے بڑھنے کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مزید آگے بڑھنے میں تعاون سے انکار تھا۔ اجلاس میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے انکار کے بعد کی صورتحال پر غور ہوا ہے۔‘
کامران مرتضیٰ کے مطابق اب بھی مشاورت جاری ہے جس پر ممکنہ طور پر لائحہ عمل کا اعلان چار نومبر کو مرکزی شوری کے اجلاس کے بعد کیا جاسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ تو موجود ہے کہ پیچھے نہیں ہٹنا مگر اب بات صرف آگے بڑھنے پر ہورہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں یہ بتا سکتا ہوں کہ بات فیصلہ کن موڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اب استعفیٰ بغیر بات نہیں بنیں گے۔ تحریک کوئی بھی رخ اختیار کرسکتی ہے۔‘

’سیاسی حل نکالنے کی جانب کسی کا رجحان نظر نہیں آ رہا‘
بی بی سی کی نامہ نگار ہدیٰ اکرام نے اس دھرنے پر نظر رکھنے والی دو سینیئر صحافیوں سے بھی گفتگو کی ہے۔
سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ فی الوقت سیاسی حل نکالنے کی جانب کسی کا رجحان نظر نہیں آ رہا، اس وقت اعصابی جنگ لڑی جا رہی ہے کہ پہلے پیچھے کون ہٹے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا تو یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پیحھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ وہ کئی ماہ کی تیاری کے بعد آئے ہیں، اور وہ کچھ کھونے نہیں بلکہ پانے کے لیے آئے ہیں، ایسی صورت میں ذمہ داری ریاست اور حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو کیسے سنبھالتی ہے۔
صحافی منیزے جہانگیر نے کہا کہ اس وقت ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے آزادی مارچ کے لیے مولانا فضل الرحمان نے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی پوری طرح اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ ‘شاید یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کے جماعتیں اس طرح مارچ میں شریک نہیں ہو سکیں جیسے ہونا چاہتی تھیں۔’
عاصہ شیرازی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی سیاست کا جوا کھیلا ہے ‘پہلے یہ تاثر تھا کہ شاید وہ اور وزیراعظم عمران خان انفرادی طور پر آمنے سامنے ہیں لیکن اب ایسا نہیں لگ رہا ہے۔‘

کیا مولانا فضل الرحمان پر بغاوت کا مقدمہ بن سکتا ہے؟
اس سے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کرنے سے متعلق بیان پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
حکومت مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیر اعظم کو گرفتار کرنے سے متعلق بیان بغاوت کے مترادف ہے۔
حکومتی مذاکرتی کمیٹی کے ایک رکن وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ ایسا بیان ملک دشمنی ہے۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے جمعے کو آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہاں سے بنی گالا جا کر وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار بھی کر سکتے ہیں۔
سینیئر وکیل اعتزاز احسن نے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کے وزیر اعظم کو گرفتار کرنے والے بیان کو سنگین غداری قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی ایسے مارچ کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے جس میں سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال ہو اور جس میں خواتین شریک نہ ہوں۔
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کا دفاع کرتے ہوئے وضاحت دی ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم ہاؤس جا کر وزیر اعظم کو گھسیٹنے کی بات نہیں کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی دھرنے کا حصہ نہیں بنے گی، تاہم اگر ان کی پارٹی نے طے کیا تو پھر اس فیصلے پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔

’مذاکرات کے راستے ہی بند ہیں‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آج ‘جعلی حکومت’ نے ایک کمیٹی بنائی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ہم تو اسلام آباد میں گھوم رہے ہیں۔ ہر طرف کنٹینرز لگے ہوئے ہیں، نہ بنی گالا جانے کے لیے رستہ ہے، نہ تو وزیر اعظم ہاؤس اور نہ صدارتی محل کی طرف۔ تم نے تو سارے رستے بند کیے ہیں۔
انھوں نے حکومت سے سوال کیا کہ ’کس راستے سے آپ ہمیں مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں‘؟
انھوں نے حکومت پر گالم گلوچ بریگیڈ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں گالیوں کے علاوہ کچھ آتا بھی نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ میں افغان طالبان کا جھنڈا لہرانے کو بھی حکومت کی شرارت قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان سمیت کئی ممالک میں صدارتی پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا ہے۔
انھوں نے حکومت کی خارجہ اور معاشی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔

’ڈی چوک بھی جا سکتے ہیں‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا ’یہ عوام یہ دعویٰ لے کر آئی ہے کہ حکمران غیر آئینی ہے، غیر قانونی ہے، جعلی ہے، خلائی ہے، ناجائز ہے۔‘
انھوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ ’استعفی دے دو اور لوگوں کو اپنا حق دوبارہ استعمال کرنے کی اجازت دے دو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس میں رہبر کمیٹی نے طے کیا ہے کہ ڈی چوک تک جانا بھی ہماری تجویز ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام آپ کی حکومت کے لیے کافی ہے۔ ابھی لوگ آرہے ہیں۔ آج بھی قافلے آرہے ہیں اور کل بھی آئیں گے۔ ’ایک آواز پر پوری قوم اسلام آباد میں آئے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں تمھاری رٹ ختم ہو چکی ہے۔
’صرف کرسی پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھنا ہی حکومت کا نام نہیں ہوتا۔ اب ہم ملک کو چلائیں گے، ترقی دیں گے ملک کو، اس کی معیشت کو سنبھالیں گے۔‘

‘خواتین گھروں میں بیٹھ کر شریک ہیں’
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کبھی کہتے ہیں کہ اس اجتماع میں خواتین نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں آنے سے انھیں کسی نے نہیں روکا ہے، لیکن ماحول ایسا ہے۔ ‘ہمارے معاشرے کی کچھ اقدار ہوتی ہیں۔ ہماری خواتین گھروں میں بیٹھ کر شریک ہیں، روزے رکھ رہی ہیں اوردعائیں مانگ رہی ہیں۔’
اس وقت اسمبلیوں میں خواتین ہماری نمائندگی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں میں اقلیتیں بھی ان کی جماعت کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ غیر مسلم ہمارے نمائندے اور اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ خواتین کی بات کرتے ہو تو قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں کس نے شکست دلوائی تھی۔ ‘ان کو ایک فوجی مرد کے مقابلے میں کس نے ہرایا۔ انھوں نے کہا کہ ولی خان نے اس خاتون کا ساتھ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ کا قلم بڑا بے رحم ہوتا ہے، یہ سب تاریخ رقم کر رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا ہم ترقی پسند ہیں اور حکومت رجعت پسند ہے۔ ہم آج کے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور یہ 1947 کی بات کرتے ہیں۔

شٹرڈاؤن اور لاک ڈاؤن کی تجاویز بھی زیر غور
رہبر کمیٹی کے رہنماؤں کے مطابق اجلاس میں ’اس بات پر غور ہوا ہے کہ ملک گیر شٹر ڈاؤن اور ہائی ویز کو لاک ڈاؤن کیا جائے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مستعفی ہو اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار نے پنجاب کے وزیر اطلاعات کے اپوزیشن اتحاد میں شامل بزرگوں کی تحریک پاکستان میں کردار سے متعلق متنازعہ بیان کی مذمت کی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سنیچر کو ہی وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی کور کمیٹی اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ قبل از وقت انتخابات نہیں ہونگے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کےساتھ رابطے کے دروازے کھلے ہیں، تاہم وزیر اعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوگی۔
وزیر دفاع پرویز خٹک نے، جو حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، کہا کہ امید ہے اپوزیشن معاہدہ کی پاسداری کرے گی، اگر جے یو آئی معاہدے سے ہٹی تو انتظامیہ ایکشن لے گی۔
مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ اور دھرنے کا ذکر کرتے ہوئے پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان اتنا کمزور ملک نہیں ہے کہ چالیس پچاس ہزار لوگ آ کر نظام الٹا دیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ: ’مالکان کی مرضی کے بغیر کنٹینرز پکڑنا غیر قانونی ہے‘
آزادی مارچ کے دوران اسلام آباد کی سڑکوں پر انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے کنٹینرز سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر کوئی بھی کنٹینرغیر قانونی طور پر روکا یا قبضہ میں لیا گیا تو نقصان پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کنٹینرز قبضہ کیس کا نو صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔ عدالت نے نجی کاروباری کمپنی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو یہ حکم دیا کہ سامان سے لدے کنٹینرز کی نقل و حمل میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے مالکان کی مرضی کے بغیر ان کے کنٹینرز قبضہ میں لینا غیر قانونی ہے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت کنٹینرز کے ذریعے سامان کی بلا رکاوٹ ترسیل یقینی بنائے۔
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اشیا کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز پکڑنا آئین کے آرٹیکل 18 کی خلاف ورزی ہے۔
’ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں جو شہریوں کو قانونی کاروبار کرنے کے حق سے محروم کرے۔‘


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں