اسلام کی باکمال خواتین

اسلام کی باکمال خواتین

حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا
نام و نسب:
قریش کے خاندان مخزوم سے تعلق رکھتی ہیں، باپ کا نام حارث بن ہشام بن المغیرہ اور ماں نام فاطمہ بنت الولید تھا، فاطمہ حضرت خالد بن الولید کی ہمشیرہ تھیں۔
نکاح: عکرمہ بن ابوجہل سے (جو ان کے چچازاد بھائی تھے) نکاح ہوا۔
عام حالات: غزوۂ احد میں کفار کے ساتھ شریک تھیں؛ لیکن جب ۸ھ میں فتح مکہ کے موقع سوائے قبول اسلام کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا، ان کا خسر (ابوجہل) مکہ میں اسلام کا سب سے بڑا دشمن اور کفار کا سرغنہ تھا، شوہر عکرمہ کی رگ و پہ میں اسی کا خون دوڑتا تھا (ماموں) خالد بھی مدت سے اسلام سے بر سر پیکار رہ چکے تھے، لیکن بایں ہمہ ام حکیم رضی اللہ عنہ نے اپنی فطر ت و سلامت روی کی بنا پر فتح مکہ میں اسلام قبول کرنے میں بہت عجلت کی، ان کے شوہر جان بچا کر یمن بھاگ گئے تھے، ام حکیم رضی اللہ عنہا نے ان کے لئے امن کی درخواست کی تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن عفو نہایت کشادہ تھا، غرض یمن جا کر ان کو واپس لائیں اور عکرمہ نے صدق دل سے اسلام قبول کیا، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہو کر اپنے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کیا، نہایت جوش سے غزوات میں شرکت کی اور بڑی پامردی اور جان بازی سے لڑے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں رومیوں سے جنگ چھڑی، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ، ام حکیم کو لے کر شام گئے اور ’’اجنادین‘‘ کے معرکہ میں دادِ شجاعت پا کر شہادت حاصل کی، حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے عدت کے بعد خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا، ۴۰۰ سو دینار مہر باندھا اور رسم عروسی ادا کرنے کی تیاریاں ہوئیں، چونکہ نکاح مقام ’’مرج الصفر‘‘ میں ہوا تھا جو دمشق کے قریب ہے اور ہر وقت رومیوں کے حملہ کا اندیشہ تھا، حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے خالد سے کہا کہ ابھی توقف کرو؛ لیکن خالد بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اسی معرکہ میں اپنی شہادت کا یقین ہے، غرض ایک پُل کے پاس جو اب ’’قنطرۂ ام حکیم‘‘ کہلاتا ہے، رسم عروسی ادا ہوئی، دعوتِ ولیمہ سے لوگ فارغ نہیں ہوئے تھے کہ رومی آپہنچے اور لڑائی شروع ہوگئی، خالد رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں گئے، جام شہادت نوش کیا، حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا اگرچہ عروسہ تھیں، لیکن اٹھیں، کپڑوں کو باندھا اور خیمہ کی چوب اکھاڑ کر کفار پر حملہ کیا تو لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے اس چوب سے سات کافروں کو مارا۔ (الاصابہ: ۸؍۲۲۵)

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا
نام و نسب: تماضر ان کا نام تھا، خنساء لقب، قبیلہ بنی قیس کے خاندان سلیم سے تھیں، سلسلہ نسب اس طرح ہے: خنساء بنت عمر بن الشرید بن رباح بن یقظہ۔
نکاح: پہلا نکاح قبیلہ سلیم کے ایک شخص رواحہ بن عبدالعزیٰ سے ہوا، اس کے انتقال کے بعد مرواس بن ابوعامر کے عقد نکاح میں آئیں۔ (طبقات الشعراء لابن قتیبہ: ۱۹۷)
قبول اسلام: پیرانہ سالی کا زمانہ تھا، مکہ کے افق سے ماہتاب رسالت طلوع ہوا، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کو خبر ہوئی تو اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ مدینہ منورہ آئیں، اور مشرف بہ اسلام ہوگئیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک ان کے اشعار سنتے اور تعجب کرتے رہتے، یہ ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے۔
عام حالات: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب قادسیہ (عراق) میں جنگ ہوئی تو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنے چار بیٹیوں کو لے کر میدان میں آئیں اور ان کو مخاطب کر کے یہ نصیحت کی، پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے، ورنہ تم اپنے ملک کو بھاری نہ تھے اور نہ تمہارے یہاں قحط پڑا تھا، باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا، خدا کی قسم! تم ایک ماں باپ کی اولاد ہو، میں نے تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے قتال کرنے میں بڑا ثواب ہے، خدا تعالی کا ارشاد گرامی ہے ’’یاایھا الذین امنو اصبروا و صابروا و رابطوا‘‘ اس بنا پر صبح اٹھ کر لڑنے کی تیاری کرو اور آخرت وقت تک لڑو‘‘ چنانچہ بیٹوں نے ایک ساتھ باہیں اٹھائیں اور نہایت جوش میں رجز پڑھتے ہوئے بڑھے اور شہید ہوئے، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کو خبر ہوئی تو خدا کا شکر ادا کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان لڑکوں کو ۲۰۰ درہم سالانہ وظیفہ عطا کرتے تھے ان کی شہادت کے بعد یہ رقم حضرت خنساء کو ملتی رہی۔ (اسد الغابۃ: ۵؍۴۴۲)
وفات: اس واقعہ کے دس برس کے بعد حضرت خنساء نے وفات پائی، سال وفات: ۲۴ ہجری ہے۔
اولاد: چار لڑکے تھے جو قادسیہ میں شہید ہوئے ان کا نام یہ ہیں: عبداللہ، ابوشجرہ (پہلے شوہر سے) زید، معاویہ (دوسرے شوہر سے)۔
فضل و کمال: اقسام سخن میں سے مرثیہ خوانی میں حضرت خنساء اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔
اسد الغابۃ میں لکھتے ہیں: اجمع أھل العلم بالشعراء لم تکن امرأۃ قبلھا و لا بعد أشعر منھا (یعنی ناقدان سخن کا اس پر اتفاق ہے کہ خنساء کے برابر کوئی عورت شاعر نہیں پیدا ہوئی۔
لیلائے اخیلیہ کو شعراء نے تمام شاعر عورتوں کا سرتاج تسلیم کیا ہے، تا ہم اس میں بھی حضرت خنساء رضی اللہ عنہا مستثنیٰ رکھی گئی ہیں، بازار عکاظ میں جو شعرائے عرب کا سب سے بڑا مرکز تھا، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ ان کے خیمہ کے دروازے پر ایک علم نصیب ہوتا تھا، جس پر یہ الفاظ لکھے تھے ’’أرثی العرب‘‘ یعنی عرب میں سب سے بڑی مرثیہ خواں، نابغہ جو اپنے زمانہ سب سے بڑا شاعر تھا اس کو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے اپنا کلام سنایا تو بولا کہ اگر ابوبصیر (اعشیٰ) کا کلام نہ سن لیتا تو تجھ کو تمام عالم میں سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتا‘‘۔
حضرت خنساء رضی اللہ عنہا ابتداء ایک دو شعر کہتی تھیں، لیکن صخر کے مرنے سے ان کو جو صدمہ پہنچا اس نے ان کی طبیعت میں ایک ہیجان پیدا کردیا تھا، چنانچہ کثرت سے مرثیے لکھے ہیں، یہ شعر خاص طور پر مشہور ہے۔
ان صخر التائم الہدایہ بہ
کأنہ علم فی رأسہ نار
صخر کی بڑے بڑے لوگ اقتداء کرتے ہیں گویا وہ ایک پہاڑ ہے جس کی چوٹی پر آگ روشن ہے۔
حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا دیوان بہت ضخیم ہے ۱۸۸۸ء میں بیروت میں شرح کے ساتھ چھایا گیا ہے، اس میں حضرت خنساء کے ساٹھ ۶۰ عورتوں کے اور بھی مرثیئے شامل ہیں، ۱۸۸۹ء میں اس کا فرنچ زبان میں ترجمہ ہوا اور دوبارہ طبع کیا گیا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں