ڈرون حملے سے افغان شہریوں کا قتل عام

ڈرون حملے سے افغان شہریوں کا قتل عام

افغانستان کے صوبے ننگرہار میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں کھیتوں سے چلغوزے چننے کے بعد آرام کرنے والے 30 مزدور جاں بحق، 40 زخمی ہوگئے۔ افغان وزارت دفاع نے ڈرون حملے کی تصدیق اور واقعے سے متعلق تفصیلات دینے سے انکار کردیا۔ دوسری جانت افغان صوبے زابل کے شہر قلات میں طالبان کی جانب سے افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے ٹریننگ بیس کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 20 افراد ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہوگئے۔
امریکی فضائی حملے میں بے ضرر محنت کشوں کی بڑی تعداد میں اموات کی خبر، دنیا بھر میں صدمے کے ساتھ پڑھی اور سنی گئی۔ اس میں دورائے نہیں کہ رواں ماہ کے آغاز پر امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات آخری مرحلے میں ناکام ہوجانے کے بعد افغانستان ایک مرتبہ پھر بے یقینی اور خوف و دہشت کے ماحول میں داخل ہوگیا ہے۔ طالبان نے عسکری مزاحمت میں تیزی لاتے ہوئے گزشتہ تین ہفتوں میں متعدد امریکی اور افغان کٹھی پتلی انتظامیہ کے ٹھکانوں، تنصیبات اور دفاتر کو نشانہ بنایا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طالبان کی تابڑ توڑ کارروائیوں نے امریکا کو شدید ہیجان، غصہ اور اشتعال میں مبتلا کردیا ہے۔ چناں چہ وہ براہ راست فریق مخالف کو نقصان پہنچانے میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد عوام الناس کو آسان ہدف سمجھ کر اپنی خوئے خون آشامی کی تسکین کررہا ہے۔ معصوم افغان شہریوں پر امریکی طیاروں کے ذریعے بمباری اور بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع کا واقعہ پہلی مرتبہ پیش نہیں آیا۔ گزشتہ اٹھارہ برس کے دوران ایسے بیسیوں واقعات رونما ہوچکے، لیکن مجال ہے کہ بات رسمی معافی سے آگے بڑھی ہو۔ عالمی جنگی قوانین کے رو سے متحارب قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ عام لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ بزعم خویش اقوام عالم کی سربراہی کے ناتے امریکا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جنگی اصول کی پاس داری کرے اور بے گناہوں کے خون میں ہاتھ رنگنے سے گریز کرے۔
امریکی قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی وحشیانہ اور سنگدلانہ کارروائیاں افغان عوام کے اندر امریکی تسلط کے خلاف انتقام، نفرت اور اشتعال پیدا کرتی ہیں اور انہیں کسی بھی حد تک جانے کا راستہ دکھاتی ہیں۔ اٹھارہ برس پر مبنی طویل جنگ نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا ٹیکنالوجی، مادی طاقت اور جدید اسلحے کے زور پر افغان عوام کے جذبات و احساسات کو کچلنے اور انہیں اپنا محکوم بنانے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اس کے بالمقابل افغانستان کے طول وعرض میں طالبان کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ افغان عوام کے درمیان ان کی پذیرائی اور اعتماد کی دلیل ہے۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکا کی جانب سے طاقت کا اندھا دھند استعمال خود اس کے لیے مسائل کو جنم دینے کا باعث بنننے جارہا ہے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ طاقت کے زعم میں آکر ہی امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا اور اس کی آزادی اور خودمختاری کو پامال کرکے رکھ دیا، لیکن کچھ ہی عرصے میں غیور و جسور افغانوں نے امریکا کو جتلادیا کہ اس کے پاس آنے کا راستہ تو ہے، جانے کا نہیں۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق گزشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو موقع دے کر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی۔ امریکی انانیت اور من مانی کے باعث درمیان میں کئی مواقع ایسے آئے جس میں بات چیت کا دروازہ بند ہوتا نظر آیا، تا ہم تمام فریق اعتماد سازی اور افہام و تفہیم کی ضرورت پر متفق رہے۔ مرحلہ وار بات چیت کا حتمی نتیجہ سامنے آنے والا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کو مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مصالحتی عمل کی بساط لپیٹ کر افغان مسئلے کو نیا رخ دے دیا۔
جنگ کتنے طویل ہوجائے، اس کا اختتام بات چیت کی میز پر ہوا کرتا ہے۔ حالیہ دونوں میں طالبان مذاکرات کاروں نے امریکا کو مذاکرات کی پیشکش کرکے واضح کردیا ہے کہ وہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں سنجیدہ اور یکسو ہیں اور گیند امریکا کے کوٹ میں ہے۔ امریکا جنگ کو طول دینا چاہتا ہے تو طالبان جوابی مزاحمت کے لیے تیار ہیں اور اگر مکالمے کے ذریعے مسئلے کے سنجیدہ اور قرار واقعی حل پر یقین رکھتا ہے تو وہ اس کا خیرمقدم کریں گے اور افغان قوم کی خواہشات کے مطابق اس میں حصہ لیں گے۔ طالبان نے سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح پر ثابت کردیا ہے کہ افغان قوم کے مفادات کے خلاف کوئی فیصلہ اور اقدام ان کے لیے قابل قبول نہ ہوگا۔ امریکا طالبان کی پیشکش کا کیا جواب دیتا ہے، شاید اس کے لیے کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑے تا ہم یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ صرف افغان عوام کی ضرورت نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک کا محفوظ مستقبل اس میں مضمر ہے۔ بنابریں ضرورت ہے کہ جن ممالک نے اب سے قبل افغان جنگ کے بنیادی فریقوں کے مابین پل کا کردار ادا کیا تھا، وہ ایک مرتبہ پھر آگے آئیں اور مشترکہ مفادات اور علاقائی امن و استحکام کی خاطر کردار ادا کریں۔ بالخصوص پاکستان کے لیے افغانستان کی تازہ صورت حال چیلنج بنتی جارہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ افغان جنگ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ ہماری معیشت، داخلی استحکام اور ملکی سلامتی داؤ پر لگ گیا اور ہزاروں پاکستانی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ لہذا افغانستان کی صورت حال پر غور و فکر کے لیے پاکستان کو متعلقہ ممالک کو دعوت دینی چاہیے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ محفوظ افغانستان ہی محفوظ پاکستان کا ضامن بن سکتا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں