خود انحصاری کی پالیسی اپنائیے!

خود انحصاری کی پالیسی اپنائیے!

خاموشی ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ ایک اہم ترین وصف ہے۔ سکوت عظیم دولت ہے۔ اسے ایک محبوب ترین عمل کہا جا سکتا ہے۔ زندگی گزارنے کا اس سے بہترین کوئی سلیقہ نہیں۔ ایک بلند و بالا اخلاق، بلکہ اخلاقیات کی سردار ہے۔ اسلام کی جامع ترین نصیحتوں میں سے ہے۔ اکثر خاموش رہنا معرفت کی علامت ہے۔ نری حکمت ہی حکمت ہے۔ مجھے اور آپ کو زیادہ تراوقات خاموش رہنا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ خیر و بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث:6136)قلت کلام اور خاموشی میں عافیت ہے۔ کم گوئی سے آدمی بہت نامناسب باتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ انسان کی نجات اسی میں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر ؓ سے ملاقات کی تو فرمایا: اے ابوذر! دو خصلتیں تم کو ایسی نہ بتادوں جو کرنے میں ہلکی اور ترازو میں بہت بھاری ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! اللہ کے رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم پر حسن اخلاق اور طویل خاموشی لازم ہے‘‘۔ (ترغیب)خاموشی دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم۔ انسان کے لئے خاموشی میں جلال و جمال ہے۔ ہر انسان دراصل اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔ کم گوئی اور خاموشی انسان کی خامیوں پر پردہ
ڈالے ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو خاموش رہا، اس نے نجات پائی‘‘۔ (ترمذی، حدیث:2501)صاحب بصیرت لوگ اکثر اوقات خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔ خاموش لوگ گہرے پانی کی طرح گہرے ہوتے ہیں۔ خاموشی خود ایک راز ہے۔ ہر صاحب راز خاموش رہنا پسند کرتا ہے۔ خاموشی کے ذریعے انسان اپنے کو مستحکم بنا سکتا ہے۔ وہ اس سے اپنے کاموں میں لگن اور ہمت پیدا کر سکتا ہے۔ قلبی سکون و اطمینان خاموش رہنے میں ہے۔ خاموش رہنے میں انسان کا حلم بڑھتا ہے، علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک دانا نے کہا: ’’جب تم جاہلوں کی مجلس میں بیٹھو تو خاموش رہو، کیونکہ جاہلوں کے ساتھ خاموش رہنے میں انسان کا حلم بڑھتا ہے اور جب تم علماء کی محفل میں بیٹھو تو بھی خاموش رہو اور علماء کے ساتھ خاموش رہنے میں انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے‘‘۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب زبان کی آفت بے اندازہ ہے اور اس سے بچنا بھی انتہائی مشکل ہے تو پھر اس سے نجات کی سوا کیا تدبیر ہو سکتی ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو زبان کو چپ رکھنے کی کوشش کی جائے اور بقدرِ ضرورت بات کرنے کی عادت کو اپنایا جائے۔ (کیمیائے سعادت)اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سکون، عافیت، حکمت و معرفت، جلال اور جمال ہو کاموں میں استحکام و لگن ہو، تو پھر مجھے اور آپ کو زیادہ تر اوقات خاموشی کے ساتھ گزارنا چاہئے۔ اب آجائیں ایک اور بات کی طرف۔ وہ ہے قناعت۔ ایک مفلس اور خستہ حال انصاری صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنی ضرورت اور حاجت ظاہر کی۔ آپ سے کچھ رقم اور امداد کی درخواست کی۔ آپ نے دیکھا کہ وہ جسمانی طور پر تندرست اور توانا ہیں۔ کام کاج کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ آپ نے انہیں کچھ دینے کے بجائے سوال کیا ۔ کیا آپ کے گھر میں کچھ سامان ہے؟ وہ غریب صحابی آپ کے غیر متوقع سوال سے حیران ہوئے، پھر گویا ہوئے کہ ایک ٹاٹ ہے۔ جس سے وہ بستر کا کام لیتے ہیں۔ اس ٹاٹ کے آدھے حصے کو نیچے بچھا اور آدھے کو اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ ہے، جسے وہ پانی پینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں چیزیں لے آئیں۔ وہ گھر گئے اور دونوں چیزیں لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں خریدنے کے لئے کون تیار ہے؟ ایک صاحب نے عرض کیا کہ وہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لے سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہو تو بتائے۔ آپ نے یہ بات دو تین بار دہرائی۔ ایک دوسرے صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور دو درہم آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ آپ نے دونوں چیزیں ٹاٹ اور پیالہ دے دیے۔ دو درہم جو انہوں نے دیے، وہ آپ نے انصاری صحابی کو دے کر فرمایا کہاکہ اہل خانہ کے لئے ایک درہم کا کھانے پینے کا سامان خرید لو، اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی بازار سے خرید کر میرے پاس لے کر آؤ۔ انہوں نے بازار جاکر سودا سلف اور کلہاڑی خریدی۔ سامان گھر دیااور کلہاڑی لے کر آپ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ڈالا، پھر ان سے فرمایا کہ کلہاڑی لے کر جنگل نکل جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور انہیں بیچو، پندرہ دن مجھے نظر نہ آؤ، زیادہ سے زیادہ وقت محنت اور کمائی ہی میں لگاؤ۔ وہ صحابی چلے گئے۔ کام کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے۔ انہوں نے اس سے گھر والوں کے لئے خور و نوش اور دیگر ضروریات کا سامان خریدا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضری دی۔ آپ کو ساری صورتحال سنائی۔ آپ خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ محنت کرکے کمانا دوسروں سے بھیک مانگنے اور قیامت کے دن تمہارے چہرے پر اس کا داغ اور نشان ہونے سے بہتر ہے۔ ہمیں چاہئے کہ حکومتی قرضوں اور دوسروں کی امداد کا سہارا لینے کے بجائے اپنے پاس موجود قلیل اور تھوڑے سرمایے کو کاروبار میں لگائیں۔ بہت بڑا کاروبار نہ سہی، ٹھیہ ہی لگا لیں۔ یہی آپ کی کمپنی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ چھوٹے موٹے کام اور کاروبار کو کرنے سے نہ شرمائیں۔ امیروں کے بجائے اپنے سے غریب لوگو ں کی طرف دیکھیں، اس سے اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کی عادت پڑے گی۔ مال و دولت کی ہوس و حرص بھی پیدا نہ ہو گی۔ اپنے اندر چھپی سرکش خواہشات کے سامنے بند باندھیں، ورنہ یہ آپ کو بہا لے جائیں گی۔ اگر ہم میں سے کوئی بزنس کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے بے روزگار نوجوانوں کی رہنمائی کرے کہ وہ کون سا ذریعہ معاش اختیار کریں اور کس طرح شروعات کریں۔ اس سے نہ صرف وطن عزیز پاکستان میں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور ملک میں خوشحالی آئے گی بلکہ ہم سیرت نبویؐ پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں