اخلاص و محبت اور اخلاق و تربیت کا ایک مرکز

اخلاص و محبت اور اخلاق و تربیت کا ایک مرکز

درونہا تیرہ شد باشد کہ از غیب
چراغے برکند خلوت نشینے

نہ حافظ را حضور از ورد قرآں
نہ دانشمند را علم الیقینے

زندگی اور مختلف طبقات کا وسیع مطالعہ و تجربہ
حکمت الہی نے حضرت کی تعلیم و تربیت کا اس طرح انتظام کیا تھا کہ ان کی شعوری زندگی کا معتدبہ اور طویل حصہ مختلف ماحول اور مسلمانوں کی مختلف العقائد مذہبی جماعتوں اور طبقوں میں گزرا تھا، انھوں نے ایک ایسی دینی ماحول میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا جو زمانہ حاضر کے اثرات اور جدید تعلیم کے خیالات سے دور تھا، مگر کبھی کبھی کسی روزن سے باہر کی آزاد خیالی کے جھونکے آجاتے تھے اور ان کی سلیم لیکن حساس و ذہین طبیعت کی سطح پر تموج پیدا کردیتے تھے پھر حکمت الہی (جس کی مصلحتوں کو کوئی نہیں جانتا) آپ کو قادیان لے گئی (۱) جو اس وقت ایک ایسی نئی تحریک اور دعوت کا مرکز تھا جو نئی بنیادوں پر ایک نئی ملت کی تاسیس کر رہی تھی اور جس کو جمہور اہل اسلام اور سواد اعظم سے بنیادی اختلاف تھا اور وہ ذہنی طور پر بے چین اور باغی عناصر کا ملجا و ماویٰ بنا ہوا تھا، وہاں انھوں نے اس تحریک کے بانی (مرزا صاحب) اور اس کے سب سے بڑے ترجمان اور وکیم (حکیم نورالدین صاحب) سے ملاقات کی اور اس نئی دینی ریاست اور پیشوائی کے اندرونی حالات دیکھے پھر ہندوستان کے مختلف دینی و علمی مرکزوں اور مشہور درسگاہوں میں رہ کر علماء کی حریفانہ کشمکش، جذبہ رقابت، تکفیر و تفسیق کے مشغلے، اہل علم کا علمی پندار اور نخوت، اساتذہ کا معقولات میں توغل، مصلحین میں اپنی اصلاح، نفسانی امراض اور اخلاق رذیلہ کے علاج و استیصال سے غفلت کے مناظر اور نمونے دیکھے۔
اس دوران میں مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کی کئی تحریکیں پیدا ہوئیں لیکن آندھی پانی کی طرح آئیں اور آندھی پانی کی طرح نکل گئیں، ان تحریکوں کے قائدین اور کارکنوں میں جذبات کی افسردگی، اخلاق کی پستی، تعلقات کی خرابی اور اپنی اصلاح نہ ہونے کے مفاسد اپنی آنکھوں سے دیکھے اور ان تحریکوں کے شاندار آغاز کے ساتھ ان کا حسرتناک انجام بھی مشاہدہ فرمایا۔

باہر کا انتشار اندر کے انتشار کا نتیجہ
رائے پور کے زمانہ قیام میں تحریک ہندوستان کی سب سے عظیم، سب سے ہمہ گیر اور سب سے طاقتور، نیم دینی، نیم سیاسی تحریک تھی اس تحریک کو نہ صرف قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ اس کے رازہائے سربستہ اور اس کے منصوبوں سے واقفیت کا موقع بھی ملا۔ پھر حضرت نے (شیخ الہند کی وفات کے بعد) اس تحریک کا زوال، اس کے قائدین اور کارکنوں میں انتشار، مخصوص حضرات کو چھوڑ کر تحریک کے رہنماؤں میں اخلاص و تربیت کی کمی، رضاکاروں اور کارکنوں میں نظم و اطاعت کا فقدان، عوام میں اعتماد و انقیاد کی اور منتظمین و ذمہ داروں میں امانت و دیانت کی کمی محسوس فرمائی اور اس کے شکوے سنے اور آپ کی حقیقت رس طبیعت نے نتیجہ نکال لیا اور اس کو ذہن کے امانت خانہ میں محفوظ کرلیا کہ باہر کا انتشار اندر کے انتشار اور خلا کا نتیجہ ہے۔
صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے

قلب کا خلا اور بگاڑ
آپ نے یہ بھی محسوس کرلیا کہ عوام میں انتشار و اضطراب قیادت کی کمزوری کی وجہ سے ہے اور قیادت کی کمزوری، قائدین کی عدم تربیت اور سوزِ دروں کی کمی کی وجہ سے ہے، عوام کا قلب قائد ہیں لیکن خود قائدین کا قلب اپنی جگہ سے ہٹا ہوا اور ایمان و یقین اور عشق و سوز کے بجائے حُبّ دنیا اور حب جاہ سے بھرا ہوا ہے۔
میر سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
اپنے وطن پنجاب میں مشائخ اور اہل خانقاہ کو دیکھا کہ انھوں نے بھی (الا ماشاء اللہ) متاع درد اور دوائے دل تقسیم کرنے کے بجائے اپنی مشیخت کی دکانیں سجا رکھی ہیں اب وہاں بھی اصلاح و تربیت نفس اور اخلاص و للہیت کی دولت ملنے کے بجائے نفس کو غذا اور عقل بہانہ جو کو دنیا طلبی کا حیلہ اور سند ملتی ہے۔
واعظین مقررین کی شیوہ بیانی اور فصاحت و بلاغت بھی سنی اور مصنفین اور اہل قلم کے ہاں معلومات کی فراوانی اور انشاء پردازی کا زور بھی دیکھا لیکن یہاں بھی اخلاص کی کمی، عمل کی کوتاہی اور درد و سوز کے فقدان کی وجہ سے ان کے ذریعہ سے عوام کی بہت کم اصلاح اور انقلاب حال ہوتا دیکھا، چودھویں صدی کے وسط کا یہ زمانہ ہندوستان میں دینی خطابت کے انتہائی عروج و ترقی کا دور ہے، لیکن زندگی کا کاروانِ سست جس خواب گراں میں مدہوش یا جس غلط رخ پر رواں دواں تھا اس میں کوئی تغیر نہیں، کچھ عرصہ کی بات ہے کہ حضرت جگر مراد آبادی مرحوم نے حضرت کو اپنی ایک غزل سنائی، جب وہ غزل کے اس شعر تک پہونچے تو حضرت نے بڑی تحسین فرمائی، یہ ہندوستان کے واعظانہ حلقہ کی صحیح تصویر ہے۔
واعظ کا ہر اک ارشاد بجا، تقریر بہت دلچسپ مگر
آنکھوں میں سرور عشق نہیں، چہرے پہ یقین کا نور نہیں

اخلاص کی کمی اور اخلاق کا فساد
مسلمانوں کے حالات کے اس وسیع مطالعہ اور اپنی زندگی کے اس طویل تجربہ نے آپ کو اس نتیجہ پر پہنچا دیا اور آپ کا یہ یقین اور عقیدہ بن گیا کہ مسلمانوں کی پوری زندگی اور اس کے مختلف شعبوں کے فساد کا اصل سبب اخلاص کی کمی اور اخلاق کا بگاڑ ہے، اور وقت کا سب سے بڑا ضروری کام اخلاص و اخلاق کا پیدا کرنا ہے اور اس کا سب سے مؤثر ذریعہ محبت ہے اور اس کا ذریعہ ذکر و صحبت ہے۔
اس اخلاص اور محبت سے ہر دینی کام اور ہر اصلاحی کوشش میں جان پڑتی ہے اور وہ زندہ اور طاقتور بنتا ہے، اسی سے عبادات میں روحانیت، علم میں نورانیت، تعلیم و تدریس میں برکت و قوت، وعظ و ارشاد میں تاثیر، تبلیغ و دعوت میں قبولیت و قوت، تصنیف و تالیف میں اثر و مقبولیت، سیاسی و تنظیمی کوششوں میں کامیابی و نتیجہ خیزی، تعلقات میں استواری، جماعتوں میں اتحاد، افراد میں ایثار و محبت پیدا ہوتی ہے، غرض پوری زندگی کی چول اپنی جگہ آجاتی ہے اور ہر طرح کا ضعف و انتشار ختم ہوجاتا ہے۔ الا ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ و اذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب۔ (۲)
اسی طرح اخلاق کی درستی کے بغیر کوئی انفرادی زندگی متوازن اور کامیاب اور کوئی اجتماعی کوشش بارآور اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی، آپ کے نزدیک ذکر و شغل، صحبت مشائخ اور مجاہدات و ریاضت کا بڑا مقصد اور ثمرہ اخلاق کی اصلاح، صفات رذیلہ کا ازالہ اور صحیح معنی میں تزکیہ نفس ہے، محض ذکر اذکار کافی نہیں، اخلاق کی اصلاح ضروری ہے۔ ایک روز ایک صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے جو ایک موقع پر مغلوب الغضب ہوگئے تھے فرمایا:
”اصلاح کے لئے فقط ذکر کافی نہیں، اخلاق کی درستگی کرنا چاہئے اور مشائخ سے اخلاق ذمیمہ کا علاج کرانا چاہئے، اسی واسطے زندہ مشائخ سے بیعت ہوتے ہیں کہ وہ اخلاق کی اصلاح کرتے ہیں، مثلاً غضب ہے، یہ بہت برا مرض ہے، حدیثوں میں اس کی بہت مذمت فرمائی گئی ہے لیکن جب تک شیخ سے علاج نہیں ہوتا یہ مرض نہیں جاتا“ (۳)

حواشی:
(۱) یہ سفر اپنے چچازاد بھائی کے علاج کے سلسلہ میں اور ان کی خواہش پر تھا۔
(۲) حدیث صحیح (ترجمہ) یاد رکھو، انسان کے جسم میں ایک مضغہ گوشت ہے، اگر وہ صحیح ہوجائے تو سارے جسم کا نظام صحیح ہوجاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے، وہ انسان کا دل ہے۔
(۳) ملفوظات (قلمی) مرتبہ مولانا علی احمد صاحب مرحوم مجلس ۲۴/رمضان ۱۳۷۶ھ (۲۴ اپریل ۱۹۵۷ء) بمقام لائل پور خالصہ کالج۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں