مولانا عبدالحمید:

توبہ و استغفار انفرادی و اجتماعی مسائل کا حل

توبہ و استغفار انفرادی و اجتماعی مسائل کا حل

خطیب اہل سنت زاہدان نے چھبیس جولائی دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں توبہ و استغفار کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ’شریعت پر عمل‘، ’تعلق مع اللہ‘ اور ’دعا‘ پر تاکید کی۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سورت آل عمران کی آیات 133-136 کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ہم سب گنہگار بندے ہیں اور بہترین گنہگار وہی ہے جو توبہ کرتاہے۔ کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ گناہ سے پاک ہے۔ ہمیں اللہ کی ہر نعمت پر شکر ادا کرنا چاہیے جو ہمارے بس میں نہیں ہے، ایسے میں اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: جب کوئی گناہ سرزد ہوتاہے، وہیں اسی وقت توبہ کرنی چاہیے تاکہ گناہ کے فورا بعد اسی جگہ ہماری توبہ بھی ریکارڈ ہوجائے۔ استغفار کی برکت سے گناہ کے غبار دل سے نکل جاتے ہیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: نبی کریم ﷺ معصوم تھے، مگر پھر بھی روزانہ ستر سے ایک سو مرتبہ تک استغفار فرماتے تھے اور بعض اوقات بلند آواز سے استغفار فرماتے تاکہ صحابہؓ بھی سن لیں اور سمجھ لیں کہ استغفار اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہر گناہ کا علاج استغفار ہے۔ جب کسی مشکل میں پھنس گئے، خود کو بری مت سمجھیں، بلکہ فورا اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی کوتاہیوں پر استغفار کریں۔ زندگی کے تمام بحرانوں اور مشکلات کا علاج استغفار اور توبہ سے ممکن ہے۔
مولانا عبدالحمید نے معاشرے میں توبہ و استغفار کی کمی اور آہِ سحرگاہی کے فقدان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جنت تک پہنچنے کے لیے سختیوں اور مشکلات کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی ہمارے اعمال کو دیکھتاہے، اگر وہ ٹھیک ہوں تو جنت ملنے کی امید ہے ورنہ جہنم جانے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا: کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ خواتین کو ان کے حق میراث سے محروم کرے، یہ کہنا کہ کسی نے خواتین کو میراث نہیں دیا ہے شیطان کی بات ہے۔ خواتین کا حق مارنا جہنم کی آگ سے روبرو ہونے کے مترادف ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: گناہوں کو صرف اللہ تعالی ہی معاف کرسکتاہے، یہ کسی عالم دین اور روحانی رہ نما کا حق نہیں ہے جیسا کہ عیسائی سمجھتے ہیں اور اپنے علما سے گناہ معاف کرواتے ہیں۔ لہذا ہر قسم کے ذاتی و اجتماعی مشکلات سے نجات پانے کے لیے اللہ تعالی کی طرف لوٹیں اور استغفار کیا کریں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں صوبائی گورنر انجینئر موہبتی کی موجودی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں خیرخواہ اور بے تکلف شخص قرار دیتے ہوئے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان میں مختلف مسالک و قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ سب ایران ہی کے شہری ہیں اور ملک چلانے میں انہیں برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔
انہوں نے بلوچستان کے عوام کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہا: اس صوبے کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ تمام قومیتوں اور مسالک کو صوبہ چلانے اور عہدہ دینے میں شرکت کا موقع دینا چاہیے۔ یہ پورے صوبہ اور ملک کے مفاد میں ہے۔ صوبہ کے علاوہ، پورے ملک میں اس صوبے کے قابل افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں