سنی آن لائن: آج کل وطن عزیز ایران اور ہماری معزز قوم کو متعدد داخلی و خارجی بحرانوں کا سامنا ہے۔ امریکا کی معاشی پابندیاں اور حال ہی میں عسکری دھمکیوں نے ان مسائل و پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی اختلافات و منازعات بالاتر ہوکر سب اہل فکر و نظر کو عوام کی پریشانیاں دور کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔
ایران میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید ایک جانے پہچانے رہ نما ہیں جو خیرخواہی و حقیقت پسندی کی بنا پر داخلی و خارجی مسائل پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں اور سنجیدہ حلقوں میں ان کی آرا کو کافی پذیرائی ملتی ہے۔ آئے روز ایران کے گرد حلقہ تنگ ہوتا جارہاہے اور سب ان مسائل کی جڑ اور ان کا حل جاننا چاہتے ہیں؛ اسی حوالے سے اہل سنت ایران کی آفیشل ویب سائٹ (سنی آن لائن) نے مولانا عبدالحمید سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے متعدد مسائل پر ان کی رائے معلوم کی ہے جو نذرِ قارئین ہے۔
ایران مسلم ملکوں میں اقلیتوں کی صرف سفارتی و اخلاقی حمایت کرے
نامور عالم دین مولانا عبدالحمید نے ایران کے موجودہ اندرونی و بیرونی بحرانوں کو ’بے مثال‘ یاد کرتے ہوئے ان مسائل کی ’اصل وجوہات‘ معلوم کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا: جہاں تک ملک کے بیرونی مسائل کا تعلق ہے، معلوم ہوتاہے کہ اگر ہمیں دیگر مسلم ملکوں میں اقلیتوں یا اپنے حقوق سے محروم کسی اکثریت کی حمایت کرنی ہے، پھر بہترین طریقہ سفارتی و اخلاقی حمایت ہے۔
’عسکری پشت پناہی‘ کو غلط قرار دیتے ہوئے اہل سنت ایران کے ممتاز رہ نما نے کہا: کسی بھی بیرونی ملک، سیاسی یا مذہبی تحریک و جماعت کی عسکری حمایت کسی بھی ریاست کے مفاد میں نہیں ہے اور اس سے قومی مفادات کو نقصان پہنچتاہے۔ عسکری طاقت کے استعمال اب تک کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں رہاہے، بلکہ اس سے بیرونی بحرانوں نے جنم لیاہے اور سیاسی، معاشی اور سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: دیگر ممالک کو بھی چاہیے سیاسی و سفارتی مسائل کے بغیر دیگر افراد، تنظیموں اور تحریکوں کو اپنے ملکوں میں عسکری سرگرمیوں کی اجازت نہ دیں؛ یہ ان کے مفاد میں نہیں ہوگا اور ان کے امیج کو نقصان پہنچائے گا۔
ایران سمیت مشرق وسطی کے بحران زدہ ممالک کو مصالحت و امن کی ضرورت ہے
مشرق وسطی کے مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے امن اور صلح کو خطے کے لیے ازحد ضروری یاد کرتے ہوئے کہا: موجودہ حالات میں جب مغربی طاقتیں اسرائیل کے امن برقرار رکھنے کے لیے کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاکہ مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف محاذآرا دیکھ لیں، ایسے میں ہمیں چوکس رہنا چاہیے۔ ہمیں ایک ایسی پالیسی اپنانی چاہیے کہ بعض مسلم ممالک کو اسرائیل کی جانب مائل ہونے سے روک دے جو ایک قابض صہیونی ناجائز ریاست ہے اور قبلہ اول پر قبضہ کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حقوق کو بھی پامال کرتی چلی آرہے۔ اسرائیل ایسے معاہدے پر دستخط کے لیے تیار نہیں ہے جو فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتاہے۔
خارجی پالیسیوں میں ’یوٹرن‘ پر زور دیتے ہوئے مولانا نے کہا: حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ ملک کو خارجی پالیسیوں میں یوٹرن کی ضرورت ہے تاکہ ہم سمجھدارانہ رویہ اپناسکیں اور ناکام پالیسیوں کی اصلاح کرسکیں۔
سیاسی آزادیوں کی کمی؛ اہم داخلی بحرانوں میں شامل
شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان کے چیئرمین نے ملک کے بعض داخلی مسائل و بحرانوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: جائز سیاسی آزادیوں کے حوالے سے مسائل پائے جاتے ہیں جیساکہ اظہارِ رائے کی آزادی، جماعتوں اور انجمنوں کی آزادی اور تعمیری تنقید کی برداشت جو اندرونی بحرانوں کے سرفہرست میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا: مخالفوں کو برداشت نہ کرنا بہت بڑی کمزوری ہے جو ملک کو چیلنجوں سے دوچار کرچکا ہے۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی، دوہزار نو کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد نظربند ہونے والے رہ نماؤں کی رہائی اور عوام کی آواز پر توجہ دینے سے ان مسائل کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مولانا نے مزید کہا: ان تمام بحرانوں کی اصل وجہ سیاسی استحکام کا فقدان ہے۔ سیاسی آزادی کی فراہمی، تعمیری تنقید پر توجہ، اقلیتوں کے حقوق کی خیال داری اور عوام کے مطالبات سننے اور خارجی چپقلش ختم کرنے سے سیاسی استحکام حاصل ہوسکتاہے۔
معاشی مسائل کی بنیادی وجہ سیاسی ہے/ عسکری ادارے سیاسی و معاشی مقابلوں سے دور رہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے معاشی بحرانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: سیاسی بحرانوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک معاشی بحرانوں سے دوچار ہوچکاہے۔ ہمسایہ ممالک سے معیشت کے میدان میں اس وقت آگے جاسکتے ہیں جب ملک میں سیاسی استحکام ہو اور دیگر ملکوں سے ہمارے تعلقات دوستانہ ہوں۔
انہوں نے کہا: اگر سیاسی مسائل حل ہوجائیں، اقتصادی مسائل بھی آسانی سے کم ہوجائیں گے۔ لہذا عسکری اداروں کو چاہیے سیاست و معیشت کے میدانوں سے دور رہیں اور یہاں رسہ کشی کے بجائے اپنی اصل ذمہ داریوں پر لگ جائیں۔ اس سے ان کی مقبولیت بڑھ جائے گی۔
اہلیت کو نظرانداز کرنا داخلی بحرانوں کی دوسری وجہ
مولانا عبدالحمید نے ملک کے مختلف شعبوں میں اہلیت کو نظرانداز کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ملازمین اور اعلی حکام کے انتخاب میں اہلیت کو نظرانداز کیا جارہاہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ماہر اور دیانتدار افراد ملک کے اعلی عہدوں سے دور رکھے جاچکے ہیں۔ ان کے بجائے بعض کمزور افراد کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ملک میں آئے روزحکام کے مالی خوردبرد اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی خبریں گردش کرتی ہیں؛ ان واقعات سے معلوم ہوتاہے سیلیکشن میں اہلیت کو نظرانداز کیا گیاہے اور اسی وجہ سے ایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنی گفتگو میں قابل لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ پر زور دیتے ہوئے کہا: قابل لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ میں اگر کوئی قانونی رکاوٹ ہے، اسے دور کیاجائے اور کسی کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ اپنی ذاتی رائے مسلط کرکے قابل افراد کو ان کے جائز مقام سے محروم رکھیں۔
عوام اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں سے مایوس ہیں
ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے ایران کی دو معروف سیاسی تحریکوں کو عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام یاد کرتے ہوئے کہا: عوام اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں سے مایوس ہیں جو ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا: ہمیں کوئی امید نہیں کہ اصلاح پسند یوٹرن لے کر عوام کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان تحریکوں کے لیے عوام کی رضامندی حاصل کرنا بہت مشکل ہوچکاہے۔ اس حوالے سے مشورت اور غوروفکر کی ضرورت ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: مجلس شورائے اسلامی (قومی اسمبلی) بھی عوام کے مسائل حل کرانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گارڈین کونسل قابل لوگوں کو اسمبلی کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت دیتی ہی نہیں۔ اگر حکومت میں کمزور حکام ہیں، اس کی ایک وجہ بھی گارڈین کونسل کا غلط رویہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کی سوچ محدود نہیں ہونی چاہیے، انہیں مسلکی و جماعتی نگاہوں کے بجائے دینی، قومی اور عالمی سوچ اپنانا چاہیے تاکہ دوسروں کے لیے مثالی کردار ادا کرسکیں۔ افسوس ہے کہ ہم ایک ماڈرن مثال جو وقت کے حالات کے مطابق ہو، دنیا والوں کو پیش نہیں کرسکے۔
سنی برادری ابھی تک امتیازی پالیسیوں سے نالاں ہے
اہل سنت ایران کے قائد نے سنی برادری کے مسائل پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: سنی برادری کے حالات اس اسلامی ملک میں اچھے نہیں ہیں۔ انہیں مختلف قسم کے دباؤ اور امتیازی رویوں اور پالیسیوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا: سنی برادری کے قابل افراد کو اعلی عہدوں سے دور رکھا جاتاہے۔ ملک چلانے میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مرکز میں ان کا وجود قومی اسمبلی کے چند منتخب ارکان تک محدود ہے جو عوام کی رائے سے وہاں پہنچ چکے ہیں۔ صوبائی اور ضلعی سطح پر اہل سنت کو اپنے ہی علاقوں میں امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے اس کا جائز حق نہیں ملا ہے۔ اس حوالے سے سنی برادری سخت غصے میں ہے۔
مذہبی آزادی کی پامالی
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: تہران میں اہل سنت کی کوئی مسجد نہیں ہے۔ بم، کرمان اور ایسے دیگر علاقوں میں جہاں سنی اقلیت میں ہیں، عبادات اور تعلیم کے حوالے سے انہیں پابندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ خوزستان میں لوگ اپنے عقائد کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔ اتنا مذہبی دباؤ کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ حتی کہ روسی حکومت بھی اپنی سابقہ پالیسیوں سے دستبردار ہوکر مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
انہوں نے کہا: تحقیقات سے معلوم ہوتاہے دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں مسلمانوں کی اپنی مساجد ہیں جہاں وہ آزادی کے ساتھ جمعہ و عیدین پڑھتے ہیں۔ سعودی دارالحکومت ریاض میں شیعہ برادری کی اپنی مسجد ہے جہاں وہ جمعہ کی نماز قائم کرتے ہیں۔
حرفِ آخر
مولانا عبدالحمید نے اپنے انٹرویو کے آخر میں کہا: اگر ملک میں سابقہ پالیسیوں پر اصرار کیا گیا، حالات میں بہتری نہیں آئے گی، بلکہ ممکن ہے مستقبل ان عناصر کے حق میں ہوجائے جو بنیادی تبدیلی چاہتے ہیں۔ لہذا جو پابندیاں اور دباؤ اسلام میں نہیں ہیں، انہیں ہٹایاجائے۔ حالات میں مثبت تبدیلی کے لیے بعض پالیسیوں اور سٹریٹجیز میں اصلاح کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ورنہ ممکن ہے مستقبل میں مزید گھمبیر مسائل اور بحران سر اٹھالیں۔
آپ کی رائے