فیشن کی دنیا میں بیوٹی پارلر اور مادہ پرست عورتیں

فیشن کی دنیا میں بیوٹی پارلر اور مادہ پرست عورتیں

بیوٹی پارلر کا چلن بہت عام ہورہا ہے اور اکثر عورتیں اس کی عادی ہو رہی ہیں۔ یہ ایک انگریزی لفظ (Beauty Parlour) ہے جس کے معنی اردو میں ”افزائش حسن کا ادارہ“ ہے۔ آج کل عورتوں میں بہت ساری خواہشیں جنم لے رہی ہیں، وہیں مادہ پرست عورتیں و مرد اس خواہش کے غلام بنتے جارہے ہیں، بدن پر مختلف قسم کے نقش و نگار بنانا، بال تراشنا، سینے کے ابھار کو بڑھانا اور کوئی خاص شکل دینا، چہرہ کی مالش، بالوں اور بھنوؤں کو مزین کرنا، بالوں کے فطری رنگوں کو اُڑانا، ہونٹوں کی ساخت میں تبدیلی، مصنوعی تل بنانا، لمبے لمبے ناخنوں پر ڈیزائن بنانا، ناخن پالش سے خوبصورتی پیدا کرنا، ہاتھوں، پیروں اور بدن کی مالش کرانا، جلد کی رنگت تبدیل کرنا، بدن کے ظاہری اور چھپے حصوں پر مہندی کے ڈیزائن بنوانا و غیرہ و غیرہ۔
اسلام میں کچھ چیزوں کی اجازت ہے اور کچھ چیزوں کی ممانعت، دین و شریعت کے پابند مسلمان مرد و عورت کو ہر کام کے کرنے سے پہلے اس کا شرعی حکم معلوم کرنا ضروری ہے۔ قرآن کہتا ہے ”فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون“ ترجمہ: پوچھو اہل علم سے اگر تمہیں معلوم نہیں۔
اسلام میں ہر جائز فطری خواہش کی تکمیل کی اجازت ہے اور آرائش و زیبائش انسانی فطرت میں داخل ہے اور عورتوں کے اندر اس کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسلام نے آرائش و زیبائش کی اجازت ضرور دی ہے لیکن اس کی حد مقرر کردی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت کو زیب و زینت کے ترک (چھوڑنے) پر نکیر فرمائی تھی اور ابوداؤد شریف کی ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک عورت کو مہندی لگانے کی ترغیب دی تھی۔
عورتوں کو رنگیں اور ریشمی کپڑے، سونے چاندی و غیرہ کے زیورات پہننے کی اجازت اسی کے پیش نظر دی گئی ہے کہ یہ ان کے حسن کو دو بالا کرتی ہیں۔ اسلام نے عورتوں بننے سنورنے اور آرائش و زیبائش کی اجازت اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے دی ہے۔ آج کل عورتیں اسی اجازت کا غلط استعمال بلکہ ناجائز استعمال کرتی ہیں کہ بجائے شوہر کے دوسروں کے لیے بنتی سنورتی ہیں۔
شوہر کے سامنے گھر میں ایسے کپڑے اور ایسی حالت بنا کر رکھتی ہیں کہ جیسے کوئی خادمہ و نوکرانی ہے اور باہر گھومنے کے لیے جائے تو حسن کی پری ہے۔ حالانکہ گھر میں رانی و ملکہ کا لباس ہوتا تھا اور باہر کے درندوں اور بھیڑیوں صفت انسانوں سے بچنے کے لیے سادگی اختیار کرنا تھا۔ جو عورتیں اپنے شوہروں کو خوش کرنے کے لیے اچھا لباس اور آرائش و زیبائش کرتی ہیں ان کے لئے ثواب بھی ہے اور جو عورتیں اس کے برعکس کرتی ہیں ان کے لئے گناہ ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو گودنا گودیں یا گودوائیں اور ان پر بھی جو چہرے کے بال صاف کریں اور حسن کے لئے دانت کشادہ کرائیں اور اللہ کی تخلیق کو تبدیل کریں۔ (بخاری شریف: ج: ۲، ص: ۸۷۸)
اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالی نے بال جوڑنے والی اور دوسرے بال لگوانے والی اور گودنے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (بخاری، ج: ۲، ص: 879) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”حسن“ اللہ کی امانت اور اس کی تخلیق کا مظہر ہے۔ جس میں خودساختہ تبدیلی اللہ کے نظام میں دخل ہے۔ گویا یہ عورت مصنوعی و بناوٹی حسن کو پیدا کرکے اور بالوں اور گالوں کو اور جگہ جگہ تھوڑی تھوڑی تبدیلی کرکے اللہ سے شکوہ کرنا چاہتی ہے کہ اللہ تعالی نے (نعوذ باللہ) ایسا بنانا تھا ویسا بنانا تھا۔ آپ نے جو کمی رکھی تھی ہم اس کو صحیح کرکے پیش کررہے ہیں۔ آخر ان مادہ پرست عورتوں کو اور مردوں کو کس نے اختیار دیا کہ وہ اللہ کو مشورہ دے اور اس کے نظام میں دخل دے۔
قرآن تو کہتا ہے کہ ”لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“ ترجمہ: اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو سب سے بہترین شکل میں پیدا کیا ہے۔ اگر انفرادیت چاہتے ہو اور ممتاز بننا چاہتے ہو تو صورت کے بجائے سیرت بنایئے۔ فانی جسم کے بجائے روح کا سنگھار کیجئے۔ بقول کسے:
جسم تو سنور چلے روح کا سنگھار کیجئے
ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعنت ہے اس عورت پر جو مردوں کا لباس پہنے اور لعنت ہے اس مرد پر جو عورتوں کا لباس پہنے۔ آج کل لڑکے و لڑکیاں فیشن کے نام پر ایسے لباس پہن رہے ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟
اور افسوس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب کسی نمازی، حاجی، دیندار، مبلغ و عالم کے گھر سے ایسے لڑکے و لڑکیاں نکلتی ہیں جب ان کو توجہ دلائی جائے تو وہ بہانہ بناتے ہیں کہ آج کل کے بچے و بچیاں مانتی نہیں ہیں۔ وہ بڑے ہوگئے اب کیا ان کو ماروں؟ آپ مخلوق کا منہ بند کرسکتے ہوں اور ان کو خاموش بٹھا سکتے ہوں لیکن کیا خالق کے پاس آپ کا یہ بہانہ چل جائے گا۔ بلکہ اسلام تو یہ کہتا ہے ماں باپ اصل ذمہ دار ہے۔ کپڑوں کے لیے رقم کون دیتا ہے؟ بازار جانے کی اجازت کون دیتا ہے؟ اس میں قصور ذمہ داروں کا ہے اور آخرت میں اس کی پوچھ ہوگی بلکہ یہ سنگین جرم کبھی معاف بھی نہیں ہوسکتا۔ کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ (الحدیث) ترجمہ: تم میں کا ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کی پوچھ ہوگی۔
آج کل گھرانوں میں چھوٹی بچیوں کے بال کاٹے جاتے ہیں (بے بی کٹ) یہ بھی اسلام میں حرام ہے۔ اور بچوں کو ناچنے والوں کے لباس پہنائے جاتے ہیں۔ (غرارے و غیرہ) اور شرٹ پینٹ تک پہنائے جاتے ہیں۔ اور یہ بہانہ ہے کہ ابھی بچی ہے کھیلنے کے دن ہیں و غیرہ و غیرہ۔
یہ لڑکوں کی مشابہت والا لباس بھی شریعت میں حرام ہے اور اس پر آج گرفت نہیں کی گئی تو بڑے ہونے کے بعد اس عادت کو چھڑانا ایسا ہی ہے جیسا کہ بچہ کا دودھ چھڑانا اور یہ عادت اس کی کالج و غیرہ میں خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک اور گناہ گھرانوں میں غیرمحسوس طریقے سے فیشن کے نام پر داخل ہورہا ہے کہ مسلم عورتیں اور لڑکیاں ناخن پالش کی عادی ہوتی جارہی ہیں۔ تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ناخن پالش لگانے والی عورت و لڑکی کا غسل نہیں ہوتا یعنی وہ پاک نہیں ہوگی جب تک کہ پالش کو کھرچ کر نہ نکال ڈالے۔ کتنی عورتیں ہیں کہ ہمیشہ ناپاک زندگی گذار رہی ہیں نہ ان کا وضو ہوتا ہے اور نہ ان کا غسل اور نہ ان کی نماز، لہذا اس مسئلہ پر فوری توجہ دے کر ناخن پالش کی لعنت و نحوست سے بچنا چاہیے۔
بیوٹی پارلر میں بعض غیرشرعی اور حرام کام انجانے میں انجام دیئے جارہے ہیں۔ اس پر ایک سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔

چہرہ کی مالش و بال کا صاف کرنا
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب احکام النساء میں یہ لکھا ہے کہ جو عورت کسی بھی دواء اور تیل و غیرہ سے اپنے چہرے کو اس لیے ملے تا کہ رنگ صاف ہو اس لعنت ہے۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو جلد کی مالش کرتی ہیں اور کراتی ہیں۔ (جامع صغیر، ج: ۲، ص: 329) اب غور کیجئے کہ بیوٹی پارلر میں گال، ناک، آنکھ، حلق، تھوڈی اور گردن کے اوپری حصہ پر تیل یا کریم لوشن سے مالش کی جاتی ہے اور رنگ کو نکھارنے اور جلد میں چمک پیدا کرنے کی جو کوشش کی جاتی ہے یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے ناجائز و حرام ہے۔ البتہ اپنے ہاتھ سے کریم و غیرہ چہرہ پر لگانا جائز ہے لیکن مالش کرانا جائز نہیں ہے۔
چہرہ کی جلد کو درست کرنے اور جھریاں صاف کرنے کے لئے جو عمل کیا جاتا ہے اس کو Skin Tightening کہا جاتا ہے۔ یہ عمل بھی شرعا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تغیر خلق اللہ میں داخل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے امور کرنے اور کروانے پر لعنت فرمائی ہے۔ (بخاری، ج: ۲، ص: ۸۷۸) عام طور پر یہ عمل معمر (بڑے عمر) کی خواتین یا مرد عمر چھپانے کے لئے کرتے ہیں۔
چہرہ کشادہ کرنے کے لئے پیشانی کے اوپر کے بال صاف کرانا، دونوں بھنوؤ کے درمیان فصل کرانا تا کہ الگ اور اچھے نظر آئیں۔ اس کو انگریزی میں (Groming of Eyebrow) کہتے ہیں یہ عمل بھی شریعت میں جائز نہیں ہے۔

ہونٹوں کی ساخت
اگر ہونٹوں کی ساخت تبدیل کرائی جائے تو یہ عمل بھی ناجائز ہے۔ اکثر جراحی کے ذریعہ یا دیگر ذرائع سے اس میں حسن پیدا کرنے اور خوبصورت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں بھی تغیر خلق لازم آتا ہے جو ناجائز ہے۔ جسم کے کسی حصہ پر مصنوعی تل بنوانے میں اوزار کا استعمال جس کو آگ میں گرم کرکے داغے جانے اور کسی نوکدار چیز سے زخم بنا کر اسی پر سرمہ یا سفوف بھر کر کوئی نشان، تل بنوائی جائے تو یہ شکل بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ ”وشم“ میں داخل ہے جس پر حدیث میں لعنت آئی ہے۔ (بخاری)

مہندی جسم کے دوسرے حصوں پر لگوانا (Using Henna on Body)
ماضی میں مہندی کا استعمال عورتیں ہاتھوں اور پیروں میں کرتی تھیں لیکن آج کل پیٹ، پیٹھ، زیرناف اور گھٹنوں کے اوپر لگائی جاتی ہیں اور مہندی کے ڈیزائن بنا کر ان حصوں کی نمائش کی جاتی ہے۔ تقریبوں میں ایسا لباس پہنا جاتا ہے جس میں یہ نقش و نگار کی جگہ کھلی ہوتی ہے۔ بیوٹی پارلر میں یہ کام اکثر مرد انجام دیتے ہیں۔ لیکن اگر عورتیں بھی یہ کام کریں تو ان حصوں کا عورتوں کے سامنے کھولنا اور نمائش کرنا جائز نہیں ہے۔ شرعاً پردہ میں رکھنے کی تاکید ہے۔ لہذا ایسی جگہوں پر مہندی لگانا درست نہیں ہے۔

بیوٹی پارلر کو ذریعہ معاش بنانا
اسلام نے معاش (روزی روٹی) کے مسئلہ میں بھی حرام و حلال کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے مسائل کی شکل میں عطا کیا ہے۔
بعض وقت کچھ لوگ چڑ کر جھنجھلاہٹ میں کہتے ہیں کہ ہر جگہ حرام و حلال کا مسئلہ مولوی حضرات کھڑا کردیتے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں اس کی سختی نہیں ہے۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ ایمان لانے کے بعد سب سے اہل مسئلہ حرام و حلال ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں حرام سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے اور حدیث پاک میں یہاں تک آتا ہے۔ ایک حرام کا لقمہ چالیس (40) سال کی عبادت ضائع کردیتا ہے۔
بیوٹی پارلر میں جتنے امور انجام دیئے جاتے ہیں تقریبا تمام کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے اور جتنے کام حرام و ناجائز ہورہے ہیں اور بعض کاموں پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت بھی ہے، ایسی تمام صورتوں کے پیش نظر تمام علماء کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ بیوٹی پارلر میں زیب و زینت کرانا شرعی حدود میں نہیں ہے۔ لہذا کسی مسلمان کے لئے بیوٹی پارلر کھولنا اور اس کو ذریعہ معاش بنانا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے ذریعہ غلط اور ناجائز کاموں کو انجام دینے میں مدد کرنا ہوگا جو شرعا ممنوع ہے۔
قرآن اصول بتلاتا ہے ”و لاتعاونوا علی الاثم والعدوان“ اور برائی کے کاموں میں تعاون و مدد مت کرو۔ لہذا قرآن کی روشنی میں بھی اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں حرام کاموں سے حرام ذریعہ معاش سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(بشکریہ: ماہنامہ دارالعلوم، اپریل 2006ء)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں