انصار مدینہ میں سے غزوہ بدر میں (نیز کسی بھی جنگ میں) سب سے پہلے شہید ہونے والے صحابی کے سلسلے میں دو قول ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ وہ صحابی ”حضرت عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ“ ہیں، دوسرا قول یہ ہے کہ ”حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ“ ہیں، علامہ ابن الاثیر جزری رحمہ اللہ حضرت عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ کے حالات میں فرماتے ہیں: ”ھو أول قتیل من الانصار فی الاسلام فی حرب“۔ نیز حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”قیل: انہ اول من قُتلَ من الانصار ببدر“۔ (اسدالغابہ ۲۷۸/۴ ترجمہ: ۴۰۷۲۔ ۶۵۱/۱ ترجمہ: ۹۹۳) اس لہے بالترتیب دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات بیان کہے جاتے ہیں:
عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ
عمیر بن الحمام بن الجموح بن زید بن حرام بن کعب بن سلمہ الانصاری السلمی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور عبیدہ بن الحارث مطلبی کے درمیان مؤاخات قاہم فرماہی تھی، غزوہ بدر کے موقع پر آپ کے ہاتھ میں چند کھجوریں تھیں جن کو آپ کھا رہے تھے، اسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوہے سنا: ”والذی نفسی بیدہ لایقاتلھم الیوم رجل فیقتل صابرا محتسبا مقبلا غیر مدبر الا ادخلہ اللہ الجنۃ“۔ (یعنی اللہ کی قسم! آج جو بھی شخص کفار و مشرکین سے مقابلہ کرے گا اور وہ صبر کرتے ہوہے، ثواب کی امید رکھتے ہوہے نیز آگے بڑتے ہوہے شہید ہوجاہے، تو اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل فرماہے گا) یہ سن کر آپ نے کہا: ”واہ واہ، میرے اور دخول جنت کے درمیان صرف اتنی بات ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کردیں“۔ یہ کہ کر آپ نے وہ کھجوریں پھینک دیں، اور تلوار لے کر قتال کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ شہید ہوگہے۔ خالد بن الاعلم نے آپ کو شہید کیا۔ (الاصابہ ۵۹۳/۴ ترجمہ: ۶۰۴۵، اسدالغابہ ۲۷۸/۴ ترجمہ: ۴۰۷۲)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قوموا الی جنۃ عرضھا السموات والارض“۔ (ایسی جنت کی طرف کھڑے ہوجاؤ جس کی چوڑاہی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے) یہ سن کر حضرت عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ایسی جنت جس کی چوڑاہی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نعم“ (ہاں) حضرت عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”بَخ بَخ“۔ (واہ واہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ما یحملک علی قولک بخ بخ“ (تم کو بخ بخ کہنے پر کس چیز نے آماداہ کیا؟) عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم؛ صرف اس امید پر تا کہ میں بھی اہل جنت میں شامل ہوجاؤں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”فانک من اھلھا“۔ (تم اہل جنت میں شامل ہو)
بعد از اں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش سے چند کھجوریں نکال کر کھانا شروع کیا، پھر فرمایا: اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہا تو یہ تو بہت طویل زندگی ہوگی، چناں چہ ان کھجوروں کو پھینک دیا، اور قتال شروع کردیا یہاں تک کہ شہید ہوگہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد/باب ثبوت الجنۃ للشہید رقم: ۱۹۰۱)
رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ
حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ
حارثہ بن سراقہ بن الحارث بن عدی بن مالک بن عدی بن عامر بن غنم بن عدی بن النجار الانصار الخزرجی النجاری، ماں کا نام ”رُبَیِّع بنت النضر“ مشہور صحابیہ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی، انہی حضرت رُبیع رضی اللہ عنہا کا واقعہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی لڑکی کا دانت توڑ دیا، لڑکی کے اولیاء نے قصاص کا مطالبہ کیا، جب کہ حضرت ربیع رضی اللہ عنہا کے اولیاء نے معافی کا مطالبہ کیا، لیکن لڑکی کے اولیاء نے معاف کرنے سے انکار کردیا، چناں چہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوہے اور صورت حال ذکر کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرمایا، حضرت ربیع رضی اللہ عنہا کے بھاہی حضرت انس بن النضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ربیع کا دانت توڑا جاہے گا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کا دانت نہیں توڑا جاہے گا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یا انس! کتابُ اللہِ القصاصُ“۔ اے انس! اللہ کا حکم قصاص ہے؛ لیکن فوراً ہی لڑکی کے اولیاء دیت پر راضی ہوگہے اور انہوں نے معاف کردیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان من عباد اللہ من لو أقسم علی اللہ لأبرَّہ“۔ بلاشبہ اللہ تعالی کے بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھالیتے ہیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا کردیتا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلح/ باب الصلح فی الدیۃ حدیث: ۶۰۸۲، ۲۷۰۳)
حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کو حِبّان بن العرقہ نے قتل کیا، آپ بدر کے دن حوض سے پانی پی رہے تھے کہ اچانک ایک تیر آکر لگا جس کی تاب نہ لاکر آپ نے جام شہادت نوش فرمایا، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حارثہ بدر میں شہید ہوہے، تو ان کی والدہ ’حضرت ربیع بنت النضر رضی اللہ عنہا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوہیں، اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ جانتے ہیں کہ حارثہ کی میرے دل میں کس قدر محبت تھی، اب اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو میں صبر کرتی ہوں، بصورت دیگر جو میں کروں گی اللہ تعالی دیکھ رہا ہے، (یعنی بہت زیادہ روؤں گی) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یا ام حارثۃ! انھا جنان فی الجنۃ، و ان ابنک اصاب الفردوس الاعلی“۔ اے حارثہ کی ماں! جنت کے بہت سارے درجے ہیں، اور یقینا تمہارے بیٹے نے فردوس اعلی کو پایا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد/ باب من اتاہ سہم غرب فقتلہ حدیث: ۲۸۰۹، فتح الباری ۷۴/۷، اسد الغابہ ۶۵۱-۶۵۰/۱ ترجمہ: ۹۹۳)
رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ
غزوہ اُحد میں سب سے پہلے شہید ہونے والے صحابی
غزوہ احد میں سب سے پہلے شہید ہونے والے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد ”عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ“ ہیں، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ھو أول قتیل قُتِل من المسلمین یومہذ“۔ (الاستیعاب ۵۷۲/۱ ترجمہ: ۱۶۲۴، صحیح البخاری، کتاب الجناہز/ باب ھل یخرج المیت من القبر و اللحد لعلۃ حدیث: ۱۳۵۱)
نام و نسب اور بعض احوال
عبداللہ بن عمرو بن حرام بن ثعلبہ بن حرام بن کعب بن غنم بن کعب بن سلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن ساردۃ بن تزید بن جُشم بن الخزرج الانصاری الخزرجی السلمی، کنیت ابو جابر۔ ماں کا نام: رباب بنت قیس بن القریم بن امیہ بن سنان بن کعب بن غنم، الخ۔ حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ نبوت کے تیرہویں سال بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے، اور بیعت کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرہیل علیہ السلام کے اشارے سے بارہ نقیب منتخب فرماہے تو آپ رضی اللہ عنہ کو بھی نقیب مقرر فرمایا، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حج کے لیے گہے، حج سے فراغت پر منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کا وعدہ تھا، اور ہمارے ساتھ عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ بھی تھے، ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار اور اشراف میں سے ایک شریف آدمی ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ آہندہ جہنم کا ایندھن بنیں، اس لہے آپ اسلام لے آہیں، اور ہم نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا فلاں جگہ وعدہ ہے، چناں چہ آپ نے اسلام قبول کرلیا، اس کے بعد بیعت عقبہ میں شریک ہوہے اور نقیب منتخب کہے گہے۔ (اسد الغابہ ۳۴۳/۳ ترجمہ: ۳۰۸۶، عیون الاثر ۲۸۱/۱، الروض الانف ۲۶۵-۲۶۴/۲)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ غزوہ بدر واحد میں شریک ہوہے، غزوہ احد میں آپ شہید ہوہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احد کی جانب نکلنے سے پہلے رات کے وقت میرے والد نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ: ”اے بیٹھے! آج میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ میں شروع میں ہی شہید ہوجاؤں گا، اور اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمہارے علاوہ میرے نزدیک کوہی دوسرا شخص اتنا محبوب نہیں، اور میرے ذمہ قرض ہے وہ ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا“۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آہندہ روز آپ سب سے پہلے شہید ہوہے۔ اسامہ الاعور بن عبید نے قتل کیا۔ بعض نے کہا ہے کہ سفیان بن عبد شمس بن ابی الاعور السلمی نے قتل کیا، اور آپ کو ناک کان کاٹ کر مُثلہ کیا گیا، شکست سے پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی، اور اپنے بہنوہی حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیے گہے۔ (بخاری شریف حدیث: ۱۳۵۱، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ۵۷۲/۱، ترجمہ: ۱۶۲۴)
فضاہل: محمد بن المنکدر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ: میرے والد کو احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا، اور ان کو مثلہ کردیا گیا تھا، پس میں ان کے چہرہ کو کھولنے لگا، تو بعض لوگوں نے مجھے منع کیا، اتنے میں لوگوں نے کسی چیخنے والی عورت کی آواز سنی، معلوم ہوا کہ ان کی بہن یا پھوپھی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”فلا تبکی ما زالت الملاہکۃ تُظلُّہ بأجنحتھا“۔ روؤ مت؛ فرشتے برابر ان کے اوپر اپنے پروں سے سایہ کہے ہوہے ہیں۔
ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے چھ مہینے کے بعد والد محترم کی قبر کو کھود کر دیکھا، تو بالکل اسی طرح پایا، صرف داڑھی کے چند بالوں پر مٹی کا اثر ہوا تھا۔ (الاستیعاب ۵۷۲/۱، اسد الغابہ ۳۴۳/۳، ترجمہ: ۳۰۸۶)
طلحہ بن خراش انصاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں بجھا بجھا اور مغموم دیکھ رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد شہید ہوگہے اور انہوں نے قرض اور عیال چھوڑے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ألا أخبرک ما کلّم اللہ أحدا قطُّ الا من وراء حجاب و انہ کَلّم أباک کفاحا الخ“۔ کیا میں تمہیں یہ بات نہ بتلاؤں کہ اللہ تعالی نے کبھی کسی سے بغیر پردے کے بات نہیں کی، جب کہ تمہارے والد سے اللہ نے آمنے سامنے بات کی ہے۔
چناں چہ اللہ تعالی نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بندے! مانگو کیا مانگتے ہو میں عطا کروں گا، تو تمہارے والد نے کہا کہ: اے اللہ! میں سوال کرتا ہوں کہ ااپ مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیجہے؛ تا کہ میں پھر آپ کے راستے میں اپنی جان دوں، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: میرا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا میں دوبارہ نہیں بھیجا جاسکتا، عرض کیا کہ: میرے پیچھے رہ جانے والوں کو یہ بات پہنچا دیجہے، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرماہی: «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ» (آل عمران: ۱۶۹) اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گہے اللہ کی راہ میں مُردے، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے۔ (اسد الغابہ ۳۴۳/۳، تفسیر ابن کثیر: ۱۴۳/۲)
رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ
آپ کی رائے