اللہ پاک نے انسانوں کو جو عظیم الشان نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں بہت اعلی درجے کی نہایت قیمتی دولت و نعمت ماں باپ کے شفقت بھرے سائے سے مالا مال ہونا ہے، جو لوگ اس نعمت کی قدر کرنے والے ہوتے ہیں، اللہ دنیا میں بھی ان کو قدردانی کا صلہ مرحمت فرماتے ہیں، اور آخرت میں تو یقینا فیضان کی بارش ان کی زندگی میں ہوگی، جنت کے بالاخانے ان کے لیے مقدر ہوں گے، اور وہ نعمتیں عطا کی جائیں گے کہ جن کی رفعت و بلندی کے بارے میں دنیا میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ہماری عقل اور فکر کی رسائی بھی وہاں تک نہیں ہوسکتی۔ یہ وہ نعمت ہے کہ جس کا حق نہیں ادا کیا جاسکتا، دنیا میں ایسی بہت سے نعمتیں ہیں، ساتھیوں کی طرف سے بہت سی ایسی کرم فرمائیاں ہیں کہ جن کا بدلہ انسان چکا سکتا ہے، جن کا انسان عوض دے سکتا ہے؛ صلہ ادا کرسکتا ہے، لیکن والدین کی شکل میں، ان کے شفقت بھرے سائے کی شکل میں اللہ نے جو نعمت انسان کو عطا فرمائی ہے، اس کا کوئی صلہ، بدلہ انسان کی طرف سے ہو ہی نہیں سکتا۔
بے بدل نعمت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں: ”لا یجزی ولد والدہ الا ان یجدہ مملوکا فیشتریہ فیعتقہ“۔ (رواہ مسلم، کتاب العتق/فضل عتق الوالد رقم: ۱۵۱۰) کوئی بیٹا اپنے ماں باپ کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا، اولاد اپنے والدین کے احسانات کا حق نہیں ادا کرسکتی، سوائے اس کے کہ وہ اپنے ماں باپ میں سے کسی کو یا دونوں کو غلام پائے، پھر وہ ان کو خرید کر آزاد کردے، غلامی کی زندگی سے نکال کر آزادی کی زندگی میں جینے کا موقع ان کو عطا کردے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی درجے میں وہ ان کی شفقتوں کا، ان کے احسانات کا حق ادا کرنے والا اللہ کی نگاہ میں شمار کیا جائے گا۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین میں سے کسی کا مالک بنے، اس لیے کہ باپ ہونا خود مالک ہونے کا تقاضہ کرتا ہے نا کہ مملوک ہونے کا؛ کیوں کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”انت و مالُکَ لأبیک“، (رواہ ابن ماجۃ) تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے۔ اس وضاحت سے یہ ثابت ہوا کہ حدیث پاک مبالغہ کی بناء پر تعلیق بالمحال کی قبیل سے ہے، یعنی کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق نہیں ادا کرسکتا، الا یہ کہ وہ اس کا مالک بنے اور پھر اسے آزاد کردے اور یہ محال ہے۔
حق ادا نہ ہوگا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ کعبۃ اللہ کے سامنے حرم مکی میں مطاف میں تشریف فرماتھے، ایک یمنی آدمی کو ابن عمرؓ نے دیکھا وہ اپنی بوڑھی ماں کو پیٹھ پر سوار کرا کر کعبے کا طواف کرا رہا ہے، اور بہت خوشی کے ساتھ اس عمل کو جو بڑا مشقت بھرا ہے انجام دے رہا ہے، اور ساتھ میں جھومتے ہوئے یہ شعر پڑھتا چلا جارہا ہے:
انی لھا بَعِیُرھا المُذَللُ ٭ ان اُذعِرَت بِرِکابھا لم أذعَر
اس شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنی ماں کے لیے سدھایا ہوا سواری کا اونٹ ہوں، وہ اونٹ جس کو اگر راستے میں ڈرایا بھی جائے، دھمکایا بھی جائے تو وہ کسی کے ڈرانے اور دھمکانے سے ڈرتا نہیں ہے، یعنی اپنی منزل پر جانے سے رکتا نہیں ہے۔
کتنا اطاعت گذار اور فرمانبردار وی بیٹا ہوگا، جو ایسا مشقت بھرا کام خوش دلی کے ساتھ سعادت سمجھتے ہوئے انجام دے رہا ہے، اور اس شعر کے ذریعہ اس نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح اونٹ پر سوار ہونے والا اونٹ کی لگام کو تھامے ہوئے ہوتا ہے، اور جس طرف سوار اشارہ کرتا ہے اسی طرف اونٹ چلنے لگتا ہے، میں بھی اپنی ماں کے لیے سواری کا اونٹ ہی ہوں، اور جیسا اشارہ مجھے ماں کی طرف سے ملے گا اسی اشارے کی طرف میں چلوں گا، ابن عمرؓ اس کی اس سعادت مندی، اطاعت گذاری اور دلی جذبات دیکھ رہے ہیں، کچھ دیر کے بعد وہ ابن عمرؓ کے پاس آتا ہے، اور کہتا ہے: ”اترانی جزیتُہ“ میرے ایک سوال کا جواب دیجیے، آپ بہت دیر سے مجھے دیکھ رہے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے اس عمل کے ذریعہ اپنی ماں کے حق کو ادا کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا؟ آپؓ جواب دیتے ہیں: ”لا، و لابزفرۃ واحدۃ“، (رواہ البخاری فی الادب المفرد) فرمایا کہ نوجوان! واقعی تیرا کام تو یقینا بہت ہی قابل تعریف اور قابل ستائش ہے، لیکن تیرا یہ سوچنا کہ میں اس عمل کے ذریعے ماں کے حق کو ادا کردوں گا، یہ ممکن نہیں۔ ذرا یاد کر ماں نے تیری تربیت میں، تیری پرورش میں، تجھے پروان چڑھانے میں کیا کیا مشقتیں برداشت کی ہیں، کیسی کیسی تکلیفیں سہی ہیں، نو مہینے تک اپنی جان کا، ایک عضو بنا کر تجھے رکھا ہے، خون جگر سے تجھے سیراب کیا ہے، اور اس پورے مرحلے میں کس طرح کے اتار چڑھاؤ اس کی طبیعت کے اندر آتے رہے ہیں، کبھی کہیں تکلیف ہے، کبھی کہیں درد ہے، کبھی طبعیت خراب ہے، کبھی کھانے کو جی نہیں چاہ رہا ہے، اس مرحلے میں ایک آہ بھی اگر تیری ماں کی منہ سے نکلی ہے، تو تیرا یہ مشقت بھرا عمل اس ایک آہ کا بھی بدل نہیں ہوسکتا، چہ جائیکہ پورا حق ادا کرنے والا ہو۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شفقت والدین ایسی قیمتی دولت ہے جس کا بدل انسان کے پاس کچھ نہیں، بس سعادت مندی کی بات یہ ہے کہ جب تک یہ نعمت میسر رہے ان کی خدمت و اطاعت اور فرمان برداری کو اپنی زندگی کا لازمی فریضہ تصور کیا جائے، دنیا و آخرت دونوں جہاں میں کامیابی ملے گی۔ پھر راوی فرماتے ہیں کہ ابن عمرؓ اپنی جگہ سے اٹھے اور نوجوان کو جواب دینے کے بعد کعبۃ اللہ کا طواف کیا، اور مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہو کر ارشاد فرمایا: ”ان کل رکعتین تُکَفران ما امامھما“ (طواف سے فارغ ہونے کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھی جانے والی دو رکعتیں انسان کے سابقہ گناہوں کے لیے معافی کا باعث بن جاتی ہیں)
بے غرض محبت
اسی طرح کا ایک اور واقعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل کیا گیا ہے، ایک صاحب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا یا رسول اللہ: ”اننی أمَّا، أُطیعَھَا“ میری ایک ماں ہیں، میں ان کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتا ہوں، اور ہر ممکن ان کی اطاعت و فرماں برداری کی کوشش کرتا ہوں اور جو کچھ میں کماتا ہوں، ان کی خدمت میں لے جا کر پیش کر دیتا ہوں اور ایک لمحے کے لیے بھی اپنی توجہ کو ان سے ہٹاتا نہیں ہوں، یعنی کام تو سارے کرتا ہوں، لیکن کبھی بھی اپنی ماں کے حق کی ادائیگی سے غافل نہیں ہوتا، یہ مطلب نہیں کہ مسلسل ان کو تکتا رہتا ہوں، بل کہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہوں۔ ضرورت پڑتی ہے تو اپنی بوڑھی ماں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر منزلیں بھی طے کرادیتا ہوں، اپنی یہ کارگزاری بیان کرنے کے بعد وہ صحابی سوال کرتے ہیں اللہ کے رسول! آپ نے میری اطاعت و فرماں برداری کے واقعات سن لیے، میرے جذبات سماعت فرما لیے، اب میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا میں نے ماں کا حق ادا کردیا؟ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا تمہارا عمل قابل تعریف ہے؛ لیکن ماں کے ایک سانس اور ایک آہ کا بھی تمہارا یہ مشقت بھرا عمل بدل نہیں ہوسکتا، انہوں نے سوال کیا کہ: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ میں یقینا اپنی سعادت سمجھتے ہوئے ماں کی خدمت کرتا ہوں لیکن دل میں یہ جذبہ بھی ہوتا کہ اس خدمت کے ذریعے میں ان کا حق بھی ادا کرنے میں کامیاب ہوں گا، لیکن آپ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حق تو ایک آہ کا بھی ادا نہیں ہوگا، ایسا کیوں؟ تو جو جواب پیغمبر علیہ السلام نے دیا وہ حقیقت واقعہ ہے، انسان اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھے، انسانی معاشرے کا جائزہ لے تو پیغمبر علیہ السلام کی بات پورے طور پر منطبق ہوتے ہوئے دکھائی دے گی، آپ نے فرمایا تیرے اور ماں کے جذبہ محبت میں بڑا فرق ہے، ماں تیری خدمت کیا کرتی تھی، تیری پرورش کرتی تھی، تجھے راحت دینے کے لیے اپنی راحت کو تج دیا کرتی تھی، اپنے آرام کو قربان کردیا کرتی تھی، یہ سارے کام تیری زندگی کی محبت میں کیا کرتی تھی کہ میرا بچہ اچھی طرح پل جائے، بڑھ جائے، جوان ہوجائے، اچھا انسان بن جائے، اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے، دنیا و آخرت بنانے والا بن جائے، اپنی جان سے پیارا تجھے تیری ماں رکھتی تھی، تجھ پر اگر کوئی تکلیف آتی تھی تو اس کے جذبات ہوتے تھے کہ اس تکلیف کو میں اپنے اوپر لے لوں، اور بچے کو اس تکلیف سے آزاد کردوں۔ یہ تو تھا ماں کا جذبہ اور فرمایا کہ ماں کی خدمت و دلداری اور فرماں برداری تو بھی کرتا ہے، لیکن تو ماں کی زندگی کی چاہت دل کے اندر رکھنے والا نہیں، بلکہ چاہت یہ رکھتا ہے کہ ماں اس دنیا سے چلی جائے تو تجھے اس بار اور بوجھ سے چھٹکارا مل جائے۔ (الادب المفرد للامام البخاری)
کچھ سعید اور خوش نصیب بچے ہوتے ہیں جو ماں باپ کی خدمت کو بار اور بوجھ نہیں سمجھتے، اور سعادت سمجھ کر اس کام کو انجام دیتے ہیں؛ لیکن دنیا میں اکثریت ایسی نالائق اولاد کی ہے جو زندگی کے آخری عمر میں پہنچ جانے والے والدین کی خدمت نہیں کرتے، مجبوراً اگر کرتے بھی ہیں تو دل میں یہ خیال آتا رہتا ہے کہ کب یہ آخری سانس لیں گے اور ہماری مصروفیت و مشغولیت کا یہ وقت ختم ہوگا۔ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ فرق ہے ماں کی اپنی اولاد کے ساتھ محبت میں اور اولاد کی اپنی ماں کے ساتھ محبت میں، اظہار محبت دونوں طرف سے ہوتا ہے؛ لیکن ماں باپ کی محبت اولاد کے تئیں بالکل بے غرض ہوتی ہے، کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا ہے، قلبی، دلی اور حقیقی محبت ہوتی ہے، لیکن عام طور پر اولاد والدین کے ساتھ بے غرض محبت کا مظاہرہ نہیں کر پاتی، اس محبت میں کہیں اگر ان کا مفاد آڑے آتا ہے تو وہ اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔
ماں کی دعائیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروان کے زمانے میں مدینہ کے گورنر بنے، ذوالحلیفہ مدینہ منورہ سے باہر نکلتے وقت ایک جگہ کا نام ہے، جو میقات بھی ہے، جو لوگ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہیں، ذوالحلیفہ ہی میں رک کر احرام کی نیت کی جاتی ہے، اور پھر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا جاتا ہے، وہیں پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی رہائش تھی اور وہیں پر ان کی والدہ دوسرے مقام میں رہا کرتی تھیں، حضرت ابوہریرہ کا معمول خلیفہ اور گورنر بننے کے بعد یہ تھا کہ جب اپنے گھر سے نکلتے، تو سب سے پہلے اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوتے، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہتے، پھر سلام کے بعد اپنی والدہ کو مخاطب کرکے یہ دعائیہ جملہ ارشاد فرماتے ”رحمکِ اللہُ کما ربیتِنی صغیراً“۔ اماں جان! اللہ آپ پر رحمت کی بارش فرمائے جیسے بچپن میں آپ نے میری پرورش کی۔
کتنا دل خوش ہوتا ہوگا ماں کا،کہ اتنے اونچے مقام پر بیٹا فائز ہے، اور جب بھی گھر سے نکلتا ہے اپنے کسی کام کے لیے تو سب سے پہلی ذمہ داری یہ تصور کرتا ہے کہ ماں کی خدمت میں جا کر ان کی دعائیں لی جائیں، ماں جواب میں کہا کرتی تھی کہ (علیکم السلام یا بُنیَّ و رحمۃُ اللہ و برکاتہ) بیٹے؛ تم پر بھی اللہ کی جانب سے سلامتی ہو، رحمتوں کی برسات ہو، اور برکات سے تم مالامال رہو، پھر دعا دیا کرتی تھیں: ”رحمکَ اللہ کما برّرتنی کبیراً“۔ (رواہ البخاری فی الادب المفرد) میرے بیٹے: اللہ تم پر رحمت کی بارش نازل فرمائے، بڑے ہونے کے باوجود تم نے میرے ساتھ اطاعت و فرماں برداری کا معاملہ کیا، عام طور پر بڑے ہونے کے بعد اطاعت گذار اور فرماں بردار اولاد کا میسر ہونا دشوار ہوجاتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اطاعت گذار اور فرماں بردار اولاد ملی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ یہی دعا اپنے صاحب زادے کو دے رہی ہیں، یہی وہ دعائیں ہیں جو انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی کے اعلی مقام پر پہنچاتی ہیں، ماں باپ کی دعا اپنی اولاد کے حق میں کبھی اللہ کی بارگاہ سے رد نہیں کی جاتی، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں ارشاد فرمایا! جیسے نبی کی دعا اپنے امتی کے حق میں قبول ہوتی ہے، اسی طرح ماں باپ کی دعا اپنی اولاد کے حق میں مقبول ہوتی ہے، جس جذبے اور لگن کے ساتھ ایک باپ اور ماں اپنے بچوں کے لیے دعا کرسکتے ہیں کوئی دوست، کوئی عزیز، کوئی رشتہ دار اس درد و جذبے کے ساتھ دعا کر ہی نہیں سکتے۔
والدین کو خوش کرو
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کا وعدہ کرنے کے لیے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کے والدین کے بارے میں پوچھا؛ تو ان صحابی نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! ان کو تو میں روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں، وہ یہ گوارا نہیں کر رہے تھے کہ میں ان کو چھوڑ کر اپنے وطن سے ہجرت کر جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ارجع الیھما و اضحکھما کما ابکیتھما“۔ (رواہ ابوداؤد/ کتاب الجھاد رقم: ۲۱۶۶) فرمایا واپس لوٹ جاؤ، چلے جاؤ اپنے والدین کے پاس، ان کو ہنساؤ جس طرح تم ان کو رلا کر آئے ہو۔ ٹھیک ہے ہجرت کرنا ضروری ہے؛ لیکن والدین کو ناراض کرکے، ان کو روتا چھوڑ کرکے ہجرت کرنے کی اجازت نہیں۔
اسی طرح حج کے لیے جانے والے صحابہ رضی اللہ عنہم پیغمبر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے، جہاد کے لیے جانے والے صحابہ، نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے، میرے آقا ان سے پوچھتے کہ تمہارے والدین، یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہے یا نہیں، اگر یہ معلوم ہوتا کہ ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہے اور کوئی ان کی خدمت کرنے والا اور حق ادا کرنے والا نہیں ہے تو آپ جہاد میں جانے سے بھی منع فرمادیتے اور حج میں جانے سے بھی منع فرمادیتے ہیں، اور ارشاد فرماتے: ففیھِما فَجاھِد“ (رواہ البخاری فی الجھاد و السیر رقم: ۲۸۴۲) جاؤ! والدین کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے، اور اسی عمل کے ذریعہ اللہ تمہیں حج مقبول کا ثواب بھی عطا فرمائیں گے، آدمی یہ سمجھتا ہے کہ نماز پڑھنا ہی عبادت ہے، دین کے تقاضے پر ہر حال میں نکلنا ہی عبادت ہے، چاہے کچھ بھی ہوتا رہے، حج کا سفر سب سے پاکیزہ اور مقدس سفر سمجھا جاتا ہے، جس کو اس کا موقع نصیب ہو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، لیکن حالات بعض دفعہ ایسے ہوتے ہیں کہ اس مقدس سفر سے بھی زیادہ اہمیت رکھنے والا کوئی اور عمل ہوتا ہے، اور وہ عمل اپنے والدین کی دیکھ ریکھ اور ان کی خدمت ہے۔
اللہ ہم سب کو ان ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین۔
آپ کی رائے