رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے اور بڑی تیزی سے ہمارے درمیان سے رخصت ہونے کو ہے۔
یہ مہینہ ایک مسلمان کو ایمانی اور عملی طور پر عروج اور بلندی عطا کرتا ہے۔ ان میں وہ یقین اور ایمان پیدا کرتا ہے جو مسلمانوں کا عظیم سرمایہ ہے اور جو اسلام میں مطلوب اور مقصود ہے۔ عملی طور پر بھی ان میں وہ اسپرٹ پیدا کی جاتی ہے کہ اگر رمضان کے بعد بھی اسی رفتار سے سفر جاری رکھا جائے تو آخرت کی منزل آسان ہوجائے گی اور ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں وہ راحت نصیب ہوگی جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ رمضان المبارک میں جو عمل کیا جاتا ہے اس کی رفتار بعد میں سست پڑ جاتی ہے۔
مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں، چٹائیاں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں، قمقمے اتار دیے جاتے ہیں اور اب پرانے نمازیوں کی وہی ایک دو صف باقی رہ جاتی ہیں حالاں کہ رمضان اس لیے دیا گیا تھا تا کہ اس میں مسلمانوں کی ایمانی و عملی لو تیز ہوسکے اور مسلمان رمضان کے بعد چلتا پھرتا قرآن نظر آئیں، ان کی زندگی قرآنی تعلیمات کے سانچے میں اس طرح ڈھل جائے کہ ان کو دیکھ کر لوگ شریعت اسلامی کو سمجھ سکیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقویٰ کے ساتھ متصف ہونا بیان کیا ہے یعنی انسان کا دل، سوچ، سمجھ، انداز اور اخلاق و کردار سب کچھ اس طرح بدل جائیں کہ رمضان کے بعد ایک نئی اور صالح زندگی کا حامل بن جائے اور زندگی میں ایک طرح کا انقلاب برپا ہوجائے کہ اگر وہ رمضان سے قبل سودی معاملات کا کاروبار کرتا تھا تو اب وہ توبہ کرلے اور اس کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ خدانخواستہ اگر وہ شراب نوشی میں ملوث تھا تو اب اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔ دھوکہ دہی، کذب بیانی، ظلم و زیادتی، حسد، غیبت اور دوسرے منکرات سے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے آپ کو پاک و صاف کرلے اور دوبارہ ایسی معصیت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے فرائض و نوافل کا ایسا خو گر بن جائے کہ ان کے بغیر رات میں نیند آئے اور نہ دن میں چین و سکون کا احساس ہو۔
اگر یہ کیفیات دل میں پیدا ہوگئیں اور زندگی میں ایسا تغییر رونما ہوگیا تو سمجھنا چاہیے کہ رمضان کا مقصد حاصل ہوا اور اس نے اللہ تعالی کی رضا کو پا لیا ورنہ بظاہر رمضان کا مہینہ ہم نے پایا اور کچھ اس سے حاصل کیے بغیر وہ ہم سے رخصت ہوگیا جو اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مایوسی کا ذریعہ اور محرومی کا سبب ہے۔ رمضان المبارک میں ایک روزہ دار کو اللہ تعالی کے وجود کا احساس پختہ ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سخت دھوپ اور گرمی میں جبکہ پیاس سے زبان خشک ہوجاتی ہے اس وقت بھی تنہائی میں پانی پینے کی غلطی نہیں کرتا۔ عمل کے اعتبار سے جیسا بھی ہو مگر روزہ کی حالت میں صبح سے شام تک بھوک اور پیاس کو بڑی بشاشت کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔
اگر میں نے تنہائی میں بھی کچھ کھا پی لیا تو اگرچہ انسان کی نظر سے بچا جاسکتا ہے مگر میں اپنے رب کی نظر سے نہیں بچ سکتا۔ یہی وہ احساس ہے جو اسے کھانے پینے سے روکتا ہے اور بھوک و پیاس برداشت کرنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک کا یہ پیغام ہے کہ جس طرح اس مہینے میں اللہ تعالی کے وجود کا احساس تھا اور چلتے پھرتے اُس کا ڈر دل میں بسا ہوا تھا اسی طرح رمضان کے بعد بھی اللہ تعالی کے وجود کا احساس اور اس کی گرفت کا ڈر دل میں موجود ہو کہ روزہ در حقیقت اسی کیفیت کو پختہ کرنے کا ایک نصاب ہے۔ اگر یہ کیفیت دل میں پیدا ہوجائے تو حرام و حلال کی تمیز دل میں پیدا ہوگی، کسی پر ظلم کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ شراب نوشی، زنا کاری، دھوکہ دہی، کذب بیانی و غیرہ سے زندگی پاک و صاف ہوگی۔ سودی لین دین سے وہ آدمی توبہ کرلے گا اور کسی ایسے کام کی طرف اس کا ذہن نہیں جائے گا جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے۔ ہر وقت اس کے دل و دماغ میں اللہ تعالی کے دیکھنے کا احساس ہوگا جس سے وہ تمام منکرات سے محفوظ رہے گا جیسا کہ صحابہئ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں احساس جاگزین تھا، اس کے سبب ان کا مقام اتنا بلند ہوا کہ پوری امت ان کی بلندیوں پر رشک کرتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام محنتوں کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ ہر انسان کو یہ احساس ہوجائے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے، وہ عرش کا مالک ہے اس کا کوئی ثانی اور نظیر نہیں، اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، اس کی بندگی میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ رمضان المبارک کا بھی یہ مقصد قرآن نے سورہ البقرہ، آیت ۱۸۳ میں بیان کیا ہے، روزہ دار نے اگر اس مقصد کو پالیا تو گویا شریعت کے اصل مقصد کو اس نے پالیا اور اب وہ گمراہی سے محفوظ ہوگیا۔ ایک شخص روزے کے حالت میں ان تمام چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے جن کو شریعت نے وقتی طور پر ممنوع قرار دیا ہے۔
یہ در اصل اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ جس طرح رمضان میں ان چیزوں سے رکے رہے اور شریعت کی پابندی کی، ویسے ہی رمضان کے بعد ان تمام چیزوں سے رکے رہنا ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے جن کو شریعت نے مستقل طور پر حرام قرار دیا ہے۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ ممنوعات سے مکمل گریز کریں اور شریعت کا پاس و لحاظ رکھیں۔ وہ چیزیں جن پر صرف صبح سے شام تک پابندی تھی جب ان پر اس قدر سختی سے عمل کیا گیا اور پورا مہینہ اس پر مشق ہوتا رہا تو جن پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بندش عائد کی گئی ہے ان پر کس قدر ہمیں سختی سے عمل کرنا چاہیے۔
ایک مسلمان کو حرام اور ممنوع عمل کرتے ہوئے فوراً اس بات کی طرف ذہن کو لے جانا چاہیے کہ رمضان میں جس طرح ممنوعات سے رکے رہے اسی طرح غیررمضان میں بھی مجھے تمام ناجائز کاموں سے رکنا چاہیے ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ رمضان میں ہی رکنا میرے لیے ضروری تھا اور بعد میں نہیں۔ جب بھی مقصد اپنے رب کو راضی کرنا تھا ور اب بھی وہی مقصد ہے، پھر حرام اور ممنوع چیزیں غیررمضان میں کیسے جائز ہوسکتی ہیں؟
اسی طرح رمضان المبارک کا ایک خاص تحفہ اور سوغات قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و تدبر کرنا ہے۔ قرآن مجید اسی مہینے میں لوح محفوظ سے سماء دنیا پر نازل کیا گیا اسی لیے اس مہینے کو اللہ تعالی نے بڑا شرف اور بڑی عزت عطا فرمائی اور اس کو تمام مہینوں پر فضیلت دی گئی۔ اس طرح قرآن کریم کو اس مہینے سے خاص مناسبت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان کی ایک خاص عبادت تراویح کو قرار دیا گیا جس میں پورا قرآن سنایا اور پڑھا جاتا ہے۔ صحابہئ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی معمول تھا اور قرن اول سے آج تک یہ معمول منتقل ہوتے ہوئے آرہا ہے۔ مسلمان بڑے ذوق و شوق سے قرآن پورا مہینہ سنتے ہیں اور اس کے لیے بڑا جتن کرتے ہیں۔
اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ رمضان کے بعد بھی قرآن کریم کی تلاوت کو اپنا معمول بنالیں اور اس سے تعلق باقی رکھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت صرف رمضان کے لیے خاص نہیں بلکہ رمضان میں کثرت سے تلاوت دراصل اپنی طبعیت کو عادی بنانے کے لیے ہے تا کہ غیررمضان میں بھی یہ عادت باقی رہے اور ہر صبح و شام قرآنی آیات کا ورد زبان پر جاری رہے یا کم سے کم فجر کی نماز کے بعد ایک خاص مقدار میں تلاوت قرآن کو اپنا معمول بنالیا جائے پھر اس کے بعد اپنے کام کا آغاز کیا جائے۔ ان شاء اللہ اس سے کام میں برکت پیدا ہوگی اور پورا دن مصائب و مشکلات سے محفوظ رہیں گے۔
اسی طرح قرآن کریم کے معانی و مفہوم پر غور و تدبر کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے کیوں کہ یہی دراصل قرآن کے نزول کا مقصد ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب اصولِ حیات اور تمام قوانین کا منبع اور سرچشمہ ہے اور جب تک اس کے ترجمہ اور معانی و مفہوم پر ہم غور نہ کریں اس وقت تک اس کے اصولِ حیات ہونے اور اس کے شان رفعت کا علم نہیں ہوسکتا اس لیے موجودہ تراجم و تفاسیر کی مدد سے اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ اپنے رب کے مقصود کو ہم پائیں اور اس پر عمل کرنے کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کریں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان رمضان کے بعد پورے سال قرآن کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے بلکہ بہت سے لوگ قرآن پڑھنا بھی نہیں جانتے اور نہ اس کی کوشش کرتے ہیں، یہ قرآن سے بے اعتنائی اور مجرمانہ غفلت کی بات ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہمدردی و غمخواری کا بھی ہے۔ عام طور پر مسلمان اس میں محتاجوں، مسکینوں اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو اپنے افطار و سحر میں شامل رکھتے ہیں، ان کی دعوت کرتے ہیں اور حتی الامکان ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ہمدردی کا یہ جذبہ رمضان کے بعد بھی باقی رہنا چاہیے۔ ایک مسلمان پاس پڑوس کے محتاجوں اور بے کسوں کی خبرگیری رکھے اور اس کی کوشش رہے کہ کوئی شخص پڑوس میں بھوکا نہ سونے پائے۔ اگر کوئی محتاج ہے تو اپنی بساط کے مطابق اس کی مدد کرے، اپنے کھانے میں سے کچھ حصہ اس کے پاس بھیج دے تا کہ وہ بھی اپنی یا اولاد کی بھوک مٹاسکے یہ بہت بڑا صدقہ اور خیر و بھلائی کا کام ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار ہے اور اس کے پاس دوا و علاج کے پیسے نہیں تو پڑوس اور دور کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کی دوا و علاج کا انتظام کریں یا کم از کم علاج و معالجہ میں ہاتھ بٹائیں اور بقدر وسعت اس میں حصہ لیں۔ آج کتنے لوگ ہیں جو افطار پارٹی میں بڑی شان و شوکت سے حصہ لیتے ہیں لیکن ان کے گھر کے پڑوس میں کوئی غریب بیمار ہے، اپاہج ہے جس کے پاس علاج جاری رکھنے کی طاقت نہیں وہ ایک ایک پیسے کا محتاج ہے مگر اس شخص کو اس کی خبر بھی نہیں۔ اگر اس کے پاس کبھی اس کے اطلاع بھی آئی تو اس نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور نہ اس کے زخم پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں چند لوگوں کو افطار کرادینے سے ہمدردی کا حق ادا ہوجائے گا اور دعوت افطار سے ان کے سارے گناہ دھل جائیں گے؟ اصل تو ان محتاجوں کے احتیاج کو دور کرنا ہے جو دوسروں تک نہیں پہنچ سکتے اور آپ کو ان کا علم ہے، ان بیکسوں کی بیکسی کو دور کرنا ہے جن کی نظریں آپ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ خاموشی کے ساتھ ان افراد کی مدد کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمخواری کا اظہار کریں۔ بہت سے لوگ ناگہانی مصائب کے شکار ہوجاتے ہیں ان کو دیکھ کر دل میں غمخواری کے جذبات کا پیدا ہونا رمضان کا اہم پیغام ہے۔ غرض رمضان گزر جانے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت، غرباء پر ترس اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی کوشش رہے اور یہ مزاج کبھی ختم نہ ہو۔
یہ چند وہ اہم چیزیں ہیں جن کا رمضان کے بعد بھی اہتمام کرنا چاہیے، درحقیقت یہی رمضان المبارک کی قدردانی اور اس کا پیغام ہے۔
آپ کی رائے