مولانا ابوالحسن ندوی کی تعلیمات اور فکری یلغار

مولانا ابوالحسن ندوی کی تعلیمات اور فکری یلغار

اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز وسیع المشرب ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع الظرف بھی ہیں آج کل وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو روشن خیال بنانے کے مشن پر ہیں۔
سابق آمر پرویز مشرف دور میں بھی کونسل کو ’’روشن‘‘ بنانے کی سعی کی گئی تھی مگر وہ سعی لاحاصل رہی تھی اب ہمارے قبلہ بھی اس دوڑ میں ہیں اور انہیں حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور حکومتی ٹیم میں کافی طور پر ذہنی ہم آہنگی بھی ہے۔ دیکھیں وہ اپنے مشن میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں بہر حال جب سے وہ آئے ہیں کونسل میں کوئی ناکوئی علمی، ادبی اور سماجی سرگرمی کرتے رہتے ہیں، ایسے ہی ایک تقریب کا اہتمام کونسل اور سیدابوالحسن علی ندوی اکیڈمی اسلام آباد کے زیراہتمام مشترکہ طور پر کیا گیا۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی فکر اور عصری معنویت کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی دعوت ہمارے بھائی جعفر بھٹی نے دی تھی وہ برطانیہ میں ہوتے ہیں مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تعلیمات اور ان کی فکر سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے انہوں نے اسلام آباد میں ۱۸ دسمبر ۲۰۱۶ء کو سید ابوالحسن علی ندوی اکیڈمی قائم کی، وہ اس اکیڈمی کے زیراہتمام دو تحریری مقابلے بھی کرواچکے ہیں جس میں عصر حاضر کے مسائل و موضوعات پر نوجوانوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا مشن ہے کہ وہ نئی نسل کو مسلمانوں کی علمی و تحقیقی اور تمدنی کارناموں سے متعارف کروائیں گے خصوصا تعلیم یافتہ افراد کو اس وقت سب سے بڑے ذہنی و فکری اور تہذیبی و تمدنی ارتداد کا سامنا ہے اس سے بچانے کے لیے جستجو کرتے ہوئے انہیں اسلام پر اعتماد بحال اور مستحکم کریں گے۔
اظہار آزادی رائے کے اس دور میں جتنا ذہنی و فکری انتشار جس تیزی سے پھیل رہا ہے شاید ہی نوجوانوں کے ذہن کسی دور میں اتنے پراگندہ ہوئے ہوں ہر کوئی اپنا چورن بیچ رہا ہے، کوئی سوال کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کررہا ہے تو کوئی جواب کے بہانے اسلام کے بخیے ادھیڑ رہا ہے جبکہ عالمی طاقتوں کے پروردہ ’’بونوں‘‘ کی یلغار اپنی جگہ کام دکھا رہی ہے منبر و محراب کے وارثین کی تیاری بھی اس حوالے سے مکمل نہیں ہے جس کی وجہ سے نوجوان بھٹک رہے ہیں اور بات تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ راتوں رات ’’علامہ‘‘ بننے والے اپنے فلسفے اور ایجنڈے کے مطابق نسل نو کے ذہنوں میں اسلام، اسلامی تعلیمات اور علماء کے متعلق تشکیک پیدا کررہے ہیں۔ عوام کی تو بات ہی الگ ہے، عوام کو بھی خیر و شر کے معیارات کے لحاظ سے سوچنا چاہیے اور اس اعتبار سے اپنا بھی احتساب کرنا چاہیے۔ قائدین کو بھی پرکھنا چاہیے، ورنہ معاشرے کا اخلاقی انحطاط سیاست ، معیشت اور ثقافت کو بد سے بدتر کرتا چلا جائے گا اور اس کا زیادہ نقصان عام لوگوں کو ہی ہوگا اور ہورہا ہے۔ فکری الحاد کے اس زمانے میں واقعتا مولانا ابوالحسن ندوی جیسے بزرگوں کی روشن تعلیمات کو عام کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ہال میں منعقدہ اس سیمینار سے رفاہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر انیس الرحمن، ممتاز دانشور احمد جاوید، ڈائریکٹر الشریعہ اکیڈمی مولانا زاہد الراشدی، ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈاکٹر حافظ محمد سجاد و دیگر نے خطبات کیے اور مولانا ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ کی روشن تعلیمات اور عصر حاضر کے مسائل پر تفصیلی گفتگو کی۔ ساری گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ مولانا ابوالحسن ایک درہ یکتا تھے، گوہر نایاب، جس نے سمرقند و بخارا، دمشق و بغداد، اسکندریہ و قاہرہ، شیراز و اصفہان کی مٹی سے جنم نہیں لیا تھا بلکہ ہندوستان کی مٹی سے جنم لیا جس کے سپوتوں نے عرب کی مقدس سرزمین میں جنم لینے والے دانشوروں کی بھی فکری قیادت کی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اس کی ایک تابندہ مثال تھے۔ رب ذوالجلال نے انہیں قلب متقلب، مع الحق اور لسان متحلی بالصدق ودیعت فرمایا تھا، اس لئے وہ ہمیشہ سچے بول لکھتے رہے اور بولتے رہے۔ ان کی کسی بھی تحریر یا تقریر میں مداہنت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ انہوں نے دو سو سے زائد کتائیں تحریر کیں، ان کی ہر ایک کتاب ایک خزانہ عامرہ اور بیش قیمت تحفہ کے دنیا کی کوئی قیمتی سے قیمتی شئے اس کی متبادل نہیں ہوسکتی۔
سید ابوالحسن علی ندوی اپنے اسلاف کی علمی و ادبی روایت کے سچے امین وارث تھے۔ انہوں نے اسلامی علوم و فنون میں دنیا کو ایسی ایسی کتابیں دیں کہ دنیا آج بھی مولانا کی شخصیت پر غبطہ کرتی ہے۔ دینی علوم و معارف کا وہ کون سا پہلو ہے جو مولانا کی نظر سے مخفی رہا ہو۔ تصوف، تاریخ، تہذیب، ثقافت، ادب، عصری اسلامی موضوعات کونسا ایسا موضوع ہے جس پر مولانا نے نہیں لکھا اور اس کا حق نہیں ادا کیا۔ مولانا ندوی عربی زبان و ادب کے صاحب طرز ادیب تھے اور ان کی عظمت کا نقش عرب کے بڑے بڑے فصحاء و بلغاء کے ذہنوں پر قائم ہے۔ سید قطب ہوں یا انورالجندی، علی طنطاوی ہوں یا یوسف القرضاوی، شکیب ارسلان ہوں یا ناصرالدین البانی، شکری فیصل ہوں یا شیخ عبدالعزیز رفاعی، سبھی علی میاں کی فصاحت و بلاغت لسانی کے اسیر ہیں۔ مولانا ندوی اردو کے بھی ایک صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ وہ کون سی صنف ہے جس میں مولانا نے اشہب قلم دوڑائے۔ کون سا ایسا موضوع ہے جسے ان کا قلم چھوکر نہ گزرا۔ انہوں نے سفرنامے لکھے تو ایسے کہ ابن بطوطہ اور ابن جبیر کی یاد تازہ ہوجائے اور خاکے لکھے تو ایسے کہ کیا کوئی اردو کا سقراط اور بقراط لکھے گا اور خودنوشت لکھی تو ایسی کہ پڑھنے والے کے دل میں ویسی ہی زندگی جینے کی تمنا جاگ اٹھی۔
مولانا ندوی نام نہاد ماہرین اقبالیات سے کہیں زیادہ بڑے اقبال شناس تھے۔ اقبالیات کے ضمن میں ان کا جو کارنامہ ہے وہ لازوال ہے۔ اقبال کے افکار کی تفہیم صحیح معنوں میں وہی کرسکتا ہے جس کے ذہن کی جڑوں میں اسلامی فکری روایت بھی شامل ہو۔ جو اسلام کے متحرک، انقلابی عناصر کو سمجھتا ہو۔ جس نے اسلام کا کلی طور پر مطالعہ کیا ہو۔ علامہ اقبال کی فکری شخصیت کو مولانا نے ہی صحیح تناظر میں سمجھا اور عرب دنیا کے سامنے ان کے افکار اس طرح پیش کئے کہ عالم عرب بھی علامہ اقبال کا والہ و شیدا ہوگیا، پھر عبدالوہاب عزام اور صاوی علی شعلان نے اقبال شناسی کے دائرے کو اتنی وسعت بخشی کہ عرب کی فضا اقبال کے نغموں سے گونجنے لگی۔
علامہ اقبال کی طرح مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی بھی مغربی طوفان کیلئے ایک چٹان کی مانند تھے۔ مولانا کی شخصیت میں مشرقی تہذیب، ثقافت اور علوم کی جڑیں بہت مضبوط تھیں اور انہیں مشرقی تہذیب و ثقافت کی رفعت اور عظمت پر اتنا یقین تھا کہ مغرب کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ مغربیت اور مادیت پرستی کے خلاف مولانا نے قلمی جہاد ہی نہیں بلکہ عملی جہاد بھی شروع کردیا تھا۔ مولانا جانتے تھے کہ مغربی تہذیب کی یلغار، مشرق کے فکری ایوانوں کو تہس نہس کردے گی، اس لئے انہوں نے مکمل مزاحمت اور مقاومت کے ساتھ مغربی تہذیب کے خلاف لکھا اور عالم عرب کو بھی اس تہذیب کے دلدل سے نکالا۔ ضرورت اس امر کی ہے آج بھی اسی جذبے کے ساتھ مغرب کی تہذیبی اور فکری یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھا جائے اور مولانا ابوالحسن ندوی کی تعلیمات کو مشعل راہ بنایا جائے۔
سیمینار کے اختتام پر ہال سے باہر نکلے تو مولانا ندوی کی کتابیں پچاس فی صد رعایت سے مل رہی تھیں مولانا تنویر احمد علوی سے کتاب کے تحفے کی فرمائش کی تو ہمیں کتاب کے انتخاب میں مشکل پیش آرہی تھی۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے مشورہ پر مولانا ندوی کی مشہور کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ حاصل کی۔ نوجوان عالم دین مولانا اسرار مدنی، صفہ سویٹ ہوم کے منتظم مولانا جمیل الرحمن فاروقی، سوشل ایکٹوسٹ وقاص خان سے مختصر سی ملاقات ہوئی اور سیمینار کا یہ پیغام لے کر ہم روانہ ہوئے کہ معاشرے میں اب بھی خیر ہے، مگر نیکی کے چراغ کی لوٹمٹما رہی ہے۔ اور یہ سب اس لیے ہے کہ انسان اپنے اندر کے خیر کو ابھارنے اور شر کو دبانے کی ضرورت سے غافل ہے۔ یہ ضرورت رسمی عبادات سے بھی پوری نہیں ہوسکتی، اس کے لیے جہدِ پیہم اور عملِ مسلسل ہونا چاہیے۔
تحریر: عمر فاروق
اشاعت: روزنامہ اسلام۔ ۱۸ جنوری ۲۰۱۹ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں