شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

پابندیوں کا بہترین مقابلہ اللہ کی رضامندی اور قوم کے سہارے سے ممکن ہے

پابندیوں کا بہترین مقابلہ اللہ کی رضامندی اور قوم کے سہارے سے ممکن ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بارہ اپریل دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں امریکا کی ایران پر نئی پابندیوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان پابندیوں کو بے کار بنانے کے لیے ’اللہ کی رضامندی، قوم کی حمایت حاصل کرنے اور پالیسیوں میں گہری تبدیلیاں‘ لانے پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: امریکیوں نے ہمارے ملک پر پابندیوں اور دباو ڈالنے کا سلسلہ تیز کردیاہے۔ گزشتہ دنوں سپاہ پاسداران فورسز کو جو ملک کے اہم اداروں میں شمار ہوتاہے، دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا: میرے خیال میں ہمیں ان پابندیوں پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے، اس کے بجائے اگر ہم اللہ تعالی اور عوام پر توجہ دیں تو ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے تعلقات خالق سے ٹھیک کرنا چاہیے اور پھر عوام کی آواز سنیں اور ان کے مطالبات پر کان دھریں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اس دن سے ڈریں جب ہم اللہ تعالی اور عوام کو کھودیں۔ اگر اللہ اور عوام کی نگاہیں ہم سے ہٹ جائیں، پھر کوئی بھی طاقت ہمیں نہیں بچاسکتی۔ لیکن جب اللہ تعالی کی نصرت اور قوم کی حمایت حاصل ہوجائے، کوئی بھی پابندی نقصان نہیں پہنچاسکتی۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: مشکلات اور پابندیوں سے مقابلے کے لیے اس تدبیر سے بڑھ کر بہتر کوئی تدبیر نہیں ہوسکتی کہ ہم اپنے تعلقات اللہ تعالی اور قوم سے ٹھیک کریں۔ اللہ تعالی کے احکام اور عوام کے مطالبات، اگرچہ وہ ہماری خواہشات کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، پھر بھی انہیں مان لیں۔
ممتاز عالم دین نے ملک کی جاری پالیسیوں میں گہری تبدیلیوں اور اصلاحات کو مشکلات کا بہترین علاج قرار دیا۔

سب اپنے اعمال کی اصلاح کریں
اہل سنت ایران کے نامور عالم دین نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: آج کل مختلف علاقوں میں سیلاب اور شدید بارشوں نے عوام اور حکام کو پریشان کررکھاہے۔ کچھ لوگ انہیں قدرتی آفات کہہ کر توبہ کرنے سے گریز کرتے ہیں ، حالانکہ قدرتی امور بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ لہذا ہم سب کو توبہ کرنے اور اپنے اعمال ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم میں کوئی معصوم نہیں ہے، علمائے کرام، حکام اور عوام سمیت سب کو اللہ کی طرف واپس جانا چاہیے۔ جو علما اور حکام اہم عہدوں پر فائز ہیں، ان کی ذمہ داری مزید بھاری ہے اور انہیں اپنے اعمال پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: جب انسان پر کوئی آفت و مصیبت واقع ہوجاتی ہے، اگر انسان اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوجائے، مصیبت ’رحمت‘ میں بدل جاتی ہے۔ ظاہری آفت نے ہماری دنیا کو نقصان پہنچائی، لیکن اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بن گئی۔
مولانا عبدالحمید نے گلستان، خوزستان اور لرستان صوبوں میں سیلاب کے متاثرین سے ہرممکن مدد پر زور دیا۔ نیز ان کے حکم پر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے نمازیوں سے اجتماعی چندہ لیاگیا۔

قوموں کی حیات و نجات اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں توبہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے سورت الانفال کی آیات نمبر چوبیس اور پچیس سے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔
انہوں نے کہا: قرآن پاک کے مطابق ہر قوم کی حیات، نجات اور عزت و قوت اللہ تعالی کی فرمانبرداری اور نبی کریم ﷺ کی پیروی میں ہے۔ جو قومیں اللہ تعالی اور اس کے رسول برحقﷺ کی اطاعت نہیں کرتیں، انہیں شکست و ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ لوگ نفس و شیطان کے بندے بن کر محبت دنیا کا شکار ہوجائیں گے۔
صحابہ کرامؓ سے مثال کا تذکرہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: غزوہ بدر میں صحابہ ؓتعداد اور جنگی سازوسامان کے اعتبار سے دشمن فوج سے بہت پیچھے تھے، لیکن تیس سو تیرہ والی فوج کا ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل فوج پر ایک برتری حاصل تھی؛ صحابہؓ پوری طرح اللہ تعالی اور نبی کریم ﷺ کے فرمانبردار تھے۔ اسی لیے انہوں نے دشمن کو فاش شکست دے کر ذلیل و رسوا کردیا۔
انہوں نے مزید کہا: جب بھی اللہ کا حکم آتاہے، ہمیں سرِتسلیم خم کرنا چاہیے، اسی میں ہماری حیات و بقا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے چوں و چرا اور فلسفہ ڈھونڈنے کے بغیر اللہ کا ہر حکم مان لیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: جب احد کی جنگ واقع ہوئی، صحابہ کرامؓ اس قدر قوت حاصل کرچکے تھے کہ ان کی پہلی وار نے دشمن کو پسپائی پر مجبور کردیا۔ لیکن کچھ مسلمانوں کی غلطی اور نبی کریم ﷺ سے عدم اطاعت نے مسلمانوں کو عارضی شکست سے دوچار کردیا۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے ہمہ تن اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہے، اللہ تعالی نے انہیں عزت و قوت عطا فرمائی ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے نافرمانی و گناہوں کو شکست و پریشانی کا باعث یاد کرتے ہوئے کہا: گناہ سے شکست و پریشانی آتی ہے۔ اللہ تعالی نے ایک نافرمانی کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا اور پھر ان کی توبہ قبول فرمائی۔ حضرت موسی ؑ نے قتل کے ارادے کے بغیر ایک شخص کو مکا مارا اور وہ مرگیا، حضرت موسی علیہ السلام دس سال تک پریشان و سرگرداں ہوئے۔ یہی حال تھا حضرت یونس علیہ السلام کا جب انہوں نے خلافِ مصلحت اللہ تعالی کے حکم کا انتظار کئے بغیر علاقہ چھوڑ کر چلے گئے، مچھلی کے پیٹ میں پھنس گئے تو اللہ سے معافی مانگ کر انہوں نے نجات پائی۔ اگر معافی نہ مانگتے، قیامت تک وہیں رہ جاتے۔ انبیا علیہم السلام معصوم تھے، ہمیں زیادہ اپنا خیال رکھنا چاہیے۔



آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں