حضرت شیخ الاسلام پر قاتلانہ حملہ

حضرت شیخ الاسلام پر قاتلانہ حملہ

۱۴ رجب الخیر ۱۴۴۰ھ، ۲۲ مارچ ۲۰۱۹ء بروز جمعۃ المبارک نماز جمعہ سے کچھ پہلے کراچی میں عالِم اسلام، عرب و عجم کی عظیم علمی و روحانی شخصیت، ہزاروں علماء و مشایخ حدیث کے استاذ اور روئے زمین پر بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کی محبوب ترین اور آئیڈیل ہستی شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (اطال اللہ بقاۂ) پر سفاکانہ قاتلانہ حملے نے پورے عالم اسلام کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بزدلانہ حملے میں اللہ جل شانہ کے فضل و کرم اور بے پایاں رحمت کے طفیل اگرچہ حضرت شیخ الاسلام بالکل محفوظ اور مامون رہے مگر آپ کے ایک محافظ اور ڈرائیور شدید زخمی ہوئے اور محافظ مقام شہادت پر فائز ہوگئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔
پاکستان میں یہ واقعہ نیا نہیں ہے، اس سے پہلے بھی مقتدر علماء اور بیش قیمت ہستیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر امت کو ان کے فیوض و برکات سے محروم کیا جاچکا ہے۔ ان مظلوم و معصوم شہدائے ملت کی ایک طویل فہرست ہے جو آسمان علم وعمل اور فضل و عرفان کے آفتاب و ماہتاب اور درخشاں ستارے تھے۔ ان شہداء میں حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ ، مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ ، مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ ، مولانا محمد حسن جانؒ ، مولانا مفتی نظام الدین شامزئیؒ ، مولانا عبدالسمیعؒ ، مولانا مفتی عبدالمجید دین پوریؒ ، مولانا سعید احمد جلال پوریؒ ، مولانا مفتی عتیق الرحمنؒ ، مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ ، مولانا معراج الدینؒ ، مولانا ضیاء الرحمن فاروقیؒ ، مولانا محمد اعظم طارقؒ ، علامہ علی شیر حیدریؒ اور ماضی قریب میں رتبہ شہادت پر فائز ہونے والے شہید مظلوم مولانا سمیع الحقؒ شامل ہیں۔ کس قدر دلخراش حقیقت کہ جن علماء کی شہادت سے پوری ملت اسلامیہ ہل کر رہ گئی اور جن کی جدائی کو اہل پاکستان بالخصوص دینی حلقوں نے اپنے ذاتی صدموں سے بڑھ کر محسوس کیا، ان میں سے کسی ایک کے قاتل کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا، ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے قائم اداروں پر سالانہ اربوں روپے قوم سے ٹیکس وصول کرکے صرف کیے جاتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ جدیدترین سہولتوں کے باوجود یہ ادارے پاکستان کی چوٹی کے علماء و مشایخ کے قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام رہے۔ اکثر ابتداء ہی میں ان شہید علماء کے قاتلوں کو گرفتار کر کے سزا دی جاتی تو ہم ان علماء سے محروم نہ ہوتے اور آج شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے تک نوبت نہ پہنچتی۔
حقیقت یہ ہے حضرت شیخ الاسلام جیسی شخصیات خال خال پیدا ہوتی ہیں جو پوری ملت کے لیے باعث فخر اور دنیائے علم و فضل کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام ہزاروں علماء و مشایخ کے استاذ عالم اسلام کی محبوب ترین شخصیت اور قحط الرجال کے اس دور میں سرمایہ ملت ہیں۔ اہلِ علم حضرت شیخ الاسلام کے علمی و روحانی مقام سے ایک حد تک واقف ہیں، عربی اردو اور انگریزی میں لکھی گئی درجنوں دقیق علمی و تحقیقی کتابیں آپ کے علم و فضل کی شاہد ہیں۔ اسلامی معاشیات میں آپ دنیا بھر میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ میں آپ نے سترہ سال خدمات انجام دیں، اس دوران آپ نے کئی اہم فیصلے کیے جن میں سود کو غیراسلامی قرار دے کر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ ۲۰۰۲ء میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو اس عہدے سے ہٹادیا۔ آپ کے قابل ذکر، قابل فخر اور قابل صد ستائش کارناموں میں سود کی بنیادوں پر قائم مضبوط معاشی نظام کے متبادل شریعت کی حدود میں رہ کر ایسا بینکاری نظام وضع کرنا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے، حضرت نے نہ صرف نظریاتی طور پر اسلامی معاشی نظام کا قابل عمل نقشہ پیش کیا بلکہ عملاً اس کی تنفیذ اور سرپرستی فرمائی۔ اس وقت دنیا میں سینکڑوں اسلامی بینک حضرت شیخ الاسلام کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق نہایت کامیابی سے کام کررہے ہیں۔ حضرت کی ان مجددانہ کوششوں نے ان لوگوں کے اعتراض کا مسکت جواب فراہم کردیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ علمائے کرام سودی بینکاری کو حرام تو کہتے ہیں مگر اس کا کوئی حل پیش نہیں کرسکتے۔
حضرت کے قابل فخر علمی کارناموں میں ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ کو ایک اہم اور نمایاں مقام حاصل ہے۔ فتح الملہم صحیح مسلم کی وہ عظیم الشان شرح ہے جس کا آغاز شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا حضرت العلامۃؒ نے یہ شرح کتاب النکاح تک تحریر فرمائی تھی کہ تحریک پاکستان کی مشغولیت کی وجہ سے تصنیف و تالیف کا کام رک گیا۔ اللہ کی تقدیر میں اس عظیم کام کی تکمیل کا سہرا شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی دام ظلہم کے لیے مقدر تھا، چنانچہ آپ نے اپنے والد ماجد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفی محمد شفیع رحمہ اللہ کے حکم کے مطابق ۱۳۹۶ھ میں اس کا آغاز کیا اور تقریباً پونے انیس سال کی خاموش اور صبر آزما محنت کے نتیجے میں فتح الملہم کی تکمیل فرمائی جسے علمی دنیا میں تکملہ فتح المہم کہا جاتا ہے۔ یہ تکملہ علمی مباحث، فوائد و نکات اور نادر تحقیقات و تنقیحات کا ایسا مجموعہ ہے جو طلبہ حدیث کو سینکڑوں کتابوں کی ورق گردانی سے مستغنی کردیتا ہے۔
حضرت شیخ الاسلام کے اسلوب تحریر کے متعلق اس مختصر نامہ میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ موجودہ دور میں آپ جیسا قلم اور انداز تکلم رکھنے والا شاید ہی کوئی عالم دین ہو۔ آپ کے زبان و قلم اور اسلامی کردار کی بدولت ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں خوشگوار دینی انقلاب آیا۔ آپ ان لوگوں میں ہیں جو اپنی پاک فطرت کی وجہ سے دشمنوں کا بھی بھلا چاہتے ہیں۔ کثیر التصنیف ہونے کے باوجود آپ کے قلم سے کبھی کوئی ایسا جملہ یا لفظ ادا نہیں ہوا جو مخاطب یا قاری کی دلآزاری کا باعث ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں سے لاکھوں دلوں کی دنیا بدلی اور بے شمار لوگ راہ راست پر آئے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ پاکستان میں یہ واقعہ نیا نہیں، اس سے پہلے بھی کئی جلیل القدر علمی شخصیات نامعلوم دہشت گردوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرچکی ہیں اور کئی برس گزر جانے کے باوجود ان کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ جو انٹیلی جنس اور حکومتی اداروں کی کھلی ناکامی ہے۔ اب حضرت شیخ الاسلام پر یہ قاتلانہ حملہ حکومت پاکستان اور اس کے تفتیشی اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ تفتیشی اداروں کو اس واقعے کا گہرائی سے جائزہ لے کر نہ صرف حملہ آوروں تک رسائی حاصل کر کے انہیں عبرتناک سزا دینی چاہیے بلکہ ان طاقتوں کا بھی سراغ لگانا چاہیے جن کے آلہ کار بن کر ان قاتلوں نے یہ گھناؤنا وار کرکے پوری ملت کو گہرے رنج و غم اور اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ اس سانحے میں حضرت دام ظلہم کے ایک محافظ شہید اور ڈرائیور زخمی ہوئے ہیں، اللہ تعالی شہداء کے درجات بلند فرمائیں کہ وہ ایک ایسی متاع بے بہا کی حفاظت کرتے ہوئے رتبۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں، جو پورے عالم اسلام، پوری ملت اور تمام مسلمانوں کی مشترکہ دولت اور متاع ہے۔ اسی طرح حضرت دام ظلہم کے ڈرائیور نے جس وفا اور جاں نثاری کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت کے اصرار اور شدید زخمی ہونے کے باجود خود ڈرائیونگ کی اور حضرت کو گاڑی نہیں چلانے دی، مبادا سفاک قاتل پھر حملہ کردیں، اس پر وہ وفادار رفیق تمام مسلمانوں کی طرف سے شکریہ کا مستحق ہے، اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت میں اس کی بہترین جزا عطاء فرمائیں، آمین۔
بہرحال حضرت شیخ الاسلام دام ظلہم پر اس سفاکانہ حملے کے باعث پوری ملت اسلامیہ کے دل رنجیدہ اور متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت کی سلامتی و عافیت پر بارگاہ خداوندی میں شکرگزار اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی صحت و عافیت کے ساتھ حضرت والا کے سایۂ عاطفت کو دراز فرمائیں اور ہر قسم کے ناگہانی حوادث سے حضرت کی حفاظت فرمائیں اور امت مسلمہ کو تا دیر ان کی برکات سے استفادہ نصیب فرمائیں، آمین ثم آمین۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں