نیوزی لینڈ میں دہشت گردی۔۔۔ جانے کس کس کو مٹانے کی تیاری ہے

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی۔۔۔ جانے کس کس کو مٹانے کی تیاری ہے

ہر قدم خوف ہے دہشت ہے ریا کاری ہے
روشنی میں بھی اندھیروں کا سفر جاری ہے
طاقت کفر نے کہرام مچا رکھا ہے
جانے کس کس کو مٹانے کی تیاری ہے
مل کے سب قہر بپا کرتے ہیں انسانوں پر
ہے جنون ذہن میں اور آنکھ میں چنگاری ہے
محمد علوی کے یہ اشعار بحرالکاہل کے جزیرہ نما ملک نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد مسجد النور اور لین روڈ میں ہونے والے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملوں کے باعث یاد آئے، جس میں یہ سطور لکھتے وقت ۵۰ سے زاید افراد شہید اور اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۳ء میں مسلمان نیوزی لینڈ کی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں۔ تقریباً ۴۶۰۰۰ مسلمان وہاں رہتے ہیں۔
اس ہولناک واقعے کے بعد مغربی میڈیا میں کوشش جاری ہے کہ اس حملے کی ویڈیو کو وائرل ہونے سے روکا جائے۔ فیس بک اور دوسری ویب سائٹس سے حملوں کی ویڈیو کو ہٹایا جا رہا ہے، مغرب میں کسی سفید فام کے دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار کو دہشت گرد کہنے سے احتراز برتا جاتا ہے، مسلح حملہ آور یا ذہنی معذور کے الفاظ کے ذریعے سانحے کی سنگینی کو کم کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جاتی ہیں، اسے ہائی لائٹ کرنے سے بھی حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے، اس کے برعکس جب کوئی حملہ آور مسلمان ہو تو دہشت گردی کا واویلا مچا دیا جاتا ہے، نہ صرف اسے ضرورت سے زیادہ بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے بلکہ اسے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے جوڑا جاتا ہے۔ دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ دہشت گردی کسی مغربی آدمی کی طرف سے ہو تو زیادہ سے زیادہ اسے قتل عام کہ کر جان چھڑائی جاتی ہے، حقائق کو مسخ کرنا آخر کہاں کا انصاف ہے؟
سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعے کی خاص زاویے سے کوریج پر سوال اٹھایا ہے کہ عالمی میڈیا حملہ آور مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے مسلح حملہ آور کے الفاظ بھی کم بول رہا ہے، بلکہ مسلح حملہ جیسے الفاظ کا استعمال کرکے کیا منافقت نہیں کر رہا؟ حملہ کی ویڈیوز جو گردش کررہی ہیں، نیوزی لینڈ میں فیس بک کی ترجمان نے سی این این کو بتایا ہے کہ انہیں فیس بک سے ہٹادیا گیا ہے۔ نیوزی لینڈ پولیس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر درخواست کی ہے کہ حملہ کی ویڈیوز اور فوٹیج کو شیئر نہ کیا جائے ۔
یہ حملہ ہو یا اس جیسے دوسرے حملے۔۔۔ واضح کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو اسلام کی طرف منسوب کرنا قطعی طور پر غلط ہے۔حملہ آور کا تعلق آسٹریلیا سے بتایا جارہا ہے اور اس کا نام برینٹن ٹانٹ بتایا گیا ہے، یہ جم کا ٹرنیر رہا ہے اور خود کو صلیبی سپاہی بھی کہتا ہے، اس نے سر پر لگے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیو دکھایا، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ مسجد میں مردوں، عورتوں اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کررہا ہے۔ لائیو ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ حملہ آور دہشت گرد ہتھیار گاڑی سے نکالتا ہے، جن پر مختلف عبارتیں لکھی ہوئی ہیں، اس نے نمازیوں پر فائرنگ کرتے ہوئے یقینی بنایا کہ کوئی مسجد سے باہر نہ نکلنے پائے اس دوران بھاگنے والے نمازیوں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ باہر یا آنگن تک آیا، ان پر گولیاں چلا کر دوبارہ مسجد میں آکر بھاگنے والے زخمیوں پر فائر کرتا ہے، وہ تین مرتبہ مسجد میں آیا اور آخری چکر میں اس نے ایک شخص کے قریب جا کر ان پر گولیاں چلا کر ان کی موت کو یقینی بنایا، مردوں کی نماز پڑھنے کی جگہ کو نشانہ بنانے کے بعد عورتوں کی نماز کی جگہ کو نشانہ بنایا۔
النور مسجد پر حملے کے تھوڑی دیر بعد لن وڈ کی مسجد پر حملہ ہوا، عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے کالے رنگ کا موٹر سائیکل ہیلمٹ پہن رکھا تھا۔ ۱۰۰ کے لگ بھگ نمازیوں پر گولیاں برسائیاں، اس دوران چیختے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا۔ ایک خاتون سمیت چار حملہ آور گرفتار کرلیے گئے ہیں، جس میں سے ایک پر فرد جرم عاید کردی گئی ہے۔ حملہ آوروں کے زیراستعمال گاڑی قبضہ میں لے لی گئی، جس سے دو بم منسلک تھے، انہیں ناکارہ بنادیا گیا۔
دہشت گرد نے اس واقعے کی لائیو اسٹریمنگ کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نے سیاہ یونیفارم اور ہرے رنگ کے دستانے پہن رکھے تھے، گاڑی میں برطانوی فوج کے مارچ پاسٹ کی روایتی دھن دی برٹس گرنییڈئیرزبج رہی تھی، جو سترہویں صدی کی ہے اور اب یہ خبر آئی ہے کہ مغربی قوم پرستوں کا ترانہ چل رہا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر تین رائفلز تھیں، ایک آٹومیٹک گن لے کے اس نے اپنی جاپانی گاڑی کے ایس ایچ ۹۰ ماڈل ۲۰۰۵ کی ڈگی کھولی اور جدیدترین ایس ایم جی اور شاٹ گن میں سے اس نے شاٹ گن اٹھائی۔ اس کے تمام ہتھیاروں پر سفید رنگ سے مختلف علامتیں اور نعرے لکھے ہوئے تھے۔ ایک گن پر ائی سی ایس آئی کے الفاظ اور ۱۴ نمبر نمایاں تھا، صلیبی جنگوں والی علامتیں، صلیبی معرکوں کے نام، عیسائی جنگجوؤں کے نام، خاص طور پر ان جنگوں کے نام جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔
وہ فائرنگ کرتا اور رائفلز لوڈ کرتا رہا۔ پھر جا کر ڈگی سے نئی گن بھی نکالی، فائرنگ کرنے کے بعد اس نے دونوں ہالوں کا جائزہ لیا اور تمام افراد کی بظاہر موت کا یقین ہونے کے بعد مرکزی دروازے سے باہر آیا اور باہر جاتے دو افراد پر فائرنگ کی، جن میں سے ایک خاتون زخمی ہو کر گر پڑیں تو انہیں بھی فائرنگ سے موت کی نیند سلادیا۔ یہ کارروائی ۶ منٹ میں مکمل کرنے کے بعد وہ اطمینان سے گاڑی کی ڈگی بند کرکے گاڑ میں بیٹھ گیا، جس میں وہی موسیقی بج رہی تھی جبکہ لائیو اسٹریمنگ جاری تھی۔ اس حملے میں پاکستانی بھی شہید ہوئے اور کچھ لاپتا ہیں۔
نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں بلکہ آسٹریلیا، جرمنی، فرانس میں بھی مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق صرف ۲۰۱۰ء میں جرمنی میں ۲۷ مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں یہ تعداد تین گنا بڑھ گئی۔ ۹۵۰ واقعات مسلمانوں کے خلاف رپورٹ ہوئے اور ۷۳ مساجد نشانہ بنیں۔ ۲۰۱۶ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا کئی مساجد کو آگ لگائی گئی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ان حملوں کو دہشت گردی قرار دینے یا دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ان حملوں کو اسلامی شدت پسندی سے جوڑا گیا۔ برطانیہ میں ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۷ء تک ۱۶۷ مساجد کو نشانہ بنایا گیا، یہی عالم امریکا کا بھی رہا۔ کیلی فورنیا، واشنگٹن، اوہائیو، ٹیکساس، فلوریڈا، ورجنیا، مشی گن، نیوجرسی اور میساچوٹس وہ ریاستیں ہیں، جہاں مساجد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ۲۹ جولائی ۲۰۱۷ء کو ایک حملہ آور نے مسجد کے نمازیوں کو گاڑی کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی، اسی طرح فرانس کے دیگر حصوں میں مساجد پر حملے ہوئے، مگر ان کا سدباب کرنے کی بجائے بیسیوں مساجد کو بند کردیا گیا۔ کینیڈا کے شہر کیوبک میں فرانسیسی نژاد الیگزنڈر اسٹنٹ نے مسجد پر حملے کر کے ۶ افراد کو شہید اور ۸ کو زخمی کیا۔ بلغاریہ میں بھی مسلمانوں کی تاریخی مسجد کو شہید کردیا گیا۔
مسلمانوں کی مساجد کے حملوں کے اعداد و شمار محفوظ رکھنے کی یورپی ممالک میں کوشش نہیں کی گئی، ان حملوں میں مغربی میڈیا کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ہی ملوث گردانا جائے جیسا کہ کیوبک مسجد کے حملے کا ذمہ دار ایک مراکشی شخص کو فوکس نیوز نے ٹھہرایا۔ متعصب آسٹریلوی سینیٹر فراسرایئک نے اس حملے کا سبب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کو قرار دیا۔ حملہ آور کو مغرب میں بطور ہیرو جانا جارہا ہے، وہ خود کو امریکی سیاست دان کینڈس اونز سے متاثر قرار دیتا ہے جو ٹرمپ کے اسلام اور مسلمانوں کے موقف کی زبردست حامی ہیں۔ بہرحال اس بار مغربی رہنماؤں نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیا تو میڈیا کو بھی یہ لفظ استعمال کرنے پڑ رہا ہے، لیکن اسے کم اہمیت دینے کا عمل جاری ہے، یہ وہی دہرا معیار ہے جو دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹ ہے۔
پروفیسر عبدالواحد سجاد
روزنامہ اسلام۔ ۱۷ مارچ ۲۰۱۹ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں