مولانا مفتی قاسمی:

سیدنا ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ کے لیے لائق، مدبر اور سچے جانشین تھے

سیدنا ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ کے لیے لائق، مدبر اور سچے جانشین تھے


مولانا مفتی محمدقاسم قاسمی نے زاہدان کے آٹھ مارچ دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں نبی کریم ﷺ کے لائق، مدبر، قوی اور سچے جانشین یاد کیا۔
سنی آن لائن کی رپورٹ کے مطابق، صدر دارالافتا دارالعلوم زاہدان نے قرآنی آیت: «وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ» کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: اس آیت مبارکہ کے واضح اور ممتاز مصادیق میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جنہوں سچائی کی راہ اپناکر جان و دل سے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کرکے انہیں نصرت کی۔ قرآن پاک کی گواہی ہے کہ سیدنا ابوبکر متقی، پرہیزگار اور پاک لوگوں سے ایک تھے۔
انہوں نے مزید کہا: تاریخ نویسوں کا ماننا ہے کہ امتوں، قوموں اور مذاہب کی تاریخ میں ایک اہم موڑ جہاں ان کی تقدیر بدل سکتی ہے، اس وقت ہے جب اس امت، قوم یا دین کا بانی اس دنیا سے کوچ کر چلاجائے۔ ایسے حساس حالات میں تحریف، نالائق جانشین کی آمد اور گھات لگائے بیٹھے دشمنوں کا شدید خطرہ موجود ہوتاہے۔
مولانا قاسمی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: یہودیت، عیسائیت، مجوسیت، نفاق اور آتش پرستوں کو اس دور کے اسلامی معاشرے کے اہم خطرات میں شمار کیاجاسکتاہے۔ اگر ابوبکر صدیق جیسے مدبر اور قوی رہ نما نہ ہوتے، اسلام بھی عیسائیت کی طرح تحریف کا شکار ہوتا اور زکات و نماز جیسی عبادات یکے بعد دیگرے ختم ہوجاتیں اور اسلام سے صرف اس کا نام باقی رہ جاتا۔
دارالعلوم زاہدان کے سینئر استاذ الحدیث نے کہا: علامہ ندویؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’المرتضی‘ میں سیدنا ابوبکرؓ کی ان صفات کا تذکرہ فرمایا ہے جن کی وجہ سے آپؓ خلافت کے بہترین مستحق ٹھہرے؛ ابوبکر صدیقؓ سیاسی، اجتماعی اور عبادات کے امور میں آپﷺ کے متعمد تھے۔ اسلام کے خلاف اٹھنے والے طوفانوں کے خلاف کوہِ استقامت بننے کے لیے مشہور تھے۔ اسلام کو حقیقی معنوں میں سمجھ چکے تھے۔ غیرت و حمیت سے مالامال تھے۔ نبی کریم ﷺ کی ارمانوں اور آرزوو ¿ں کو جامہ عمل پہنانا آپ ؓ کی اولین ترجیح تھی۔ آپؓ زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی میں رسول اللہﷺ کی مانند تھے۔
مذکورہ چھ نکات پر سیرت صدیقیؓ سے مختلف حوالے پیش کرنے کے بعد مولانا مفتی محمدقاسم نے کہا: صدر اسلام میں ہمارے بزرگوں کے باہمی تعلقات بہت ہی خوشگوار تھے اور سب اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے کمربستہ تھے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے جہاں تک ہوسکے ان بزرگوں کی پیروی کریں اور اپنے بچوں کو ان کے سیر و حالات سے واقف کرائیں۔ ان کی نسبت بدگمانی سے بچیں اور نیک گمان رکھیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں