شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

صدقات میں ’وقف‘ کو خاص مقام حاصل ہے

صدقات میں ’وقف‘ کو خاص مقام حاصل ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بائیس فروری دوہزار انیس کے بیان میں مالی صدقہ دینے پر زور دیتے ہوئے وقف کی جانب حاضرین کو ترغیب دی۔ انہوں نے کہا وقف کا شمار سب سے اہم صدقات میں ہوتاہے جس کا ثواب ہمیشہ ساری و جاری رہتاہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے وقف کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں وقف کی جانب لوگوں کا دھیان کمزور ہوچکاہے ۔ حالانکہ اس کا ثواب ہمیشہ جاری رہتاہے اور یہ صدقات میں بہت اہم مقام کے حامل ہے۔
انہوں نے کہا: وقف کی صورت میں اصل مال محفوظ رہتاہے لیکن اس کی پیداوار سے فائدہ اٹھایاجاتاہے۔ وقف ورثہ کو نہیں مل سکتا اور قابل فروخت بھی نہیں ہے۔ دوکان، مکان، زرعی زمینیں اور باغات جیسی چیزوں کو وقف فی سبیل اللہ کرکے ہمیشہ ثواب کمائیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: کچھ لوگ اپنی ہی جانوں پر بخل و کنجوسی سے کام لیتے ہیں؛ کڑوروں کے مالک ہیں، لیکن کوئی صدقہ نہیں کرتے ہیں اور وقف جیسی عبادات سے دور رہتے ہیں، بلکہ خود پر خرچ بھی نہیں کرتے ہیں۔ ایسی دولت کا کیا فائدہ؟! مرنے کے بعد خالی ہاتھ جانے سے بہتر یہی ہے کہ اپنی دولت سے کوئی نہ کوئی مناسب فائدہ اٹھائیں۔
خطیب اہل سنت نے حاضرین کو ترغیب دی خیراتی اداروں کی حمایت کریں جو سخت حالات میں مجبور لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔

زکات سب سے بڑی مالی عبادت ہے
بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زکات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی جہاں بھی نماز کا تذکرہ فرمایا ہے، اکثرو بیشتر وہیں زکات کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے اگر نماز سب سے بڑی جانی و جسمانی عبادت ہے، تو زکات سب سے بڑی مالی عبادت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: زکات کے علاوہ قرآن پاک اور حدیث شریف میں خیرات و صدقات پر بھی بڑی تاکید آئی ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ زکات کے ساتھ ساتھ غیرواجب صدقات کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ جب کوئی بھوکا ہوتاہے، یا مسافر و بیمار سامنے آتے ہیں یا دینی خدمات کا کوئی کام مالی مسائل کی وجہ سے رکاوٹوں کا شکار ہے، انہیں ضرور مالی تعاون پیش کریں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم مسلمان ہیں؛ اہل کتاب کی طرح یہ نہ کہیں کہ اللہ محتاج ہے اور ہم دولت کے مالک! اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا کافروں کی نشانی ہے جبکہ اس کے برعکس اللہ سے محبت کی نشانی ہے۔ حقیقی محبوب کی خاطر اپنے محبوب مال اور پیسے سے خرچ کریں۔
انہوں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے کہا: کچھ لوگ سمجھتے ہیں جن پر زکات واجب نہیں، وہ دیگر صدقات کے بھی پابند نہیں ہیں۔ یہ غلط بات ہے؛ ہر شخص اپنی حد تک کچھ نہ کچھ صدقہ دینے کی کوشش کرے۔ پیش امام، استاد، مزدور اور دیگر طبقات میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جہنم کی آگ سے بچو حتی کہ آدھی کھجور صدقہ دینے سے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: زکات اور صدقات کی برکت سے مال میں بڑھوتری آتی ہے جبکہ رشوت ستانی اور سودخوری جیسے گناہوں سے مال گھٹتاہے اور یتیم کے مال سے تو بالکل پوری دولت آگ کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ لہذا ہر شخص اپنی حد تک ناداروں اور غریبوں کی مدد کرے۔ اس کی برکت سے مال میں برکت بھی آجاتی ہے اور بخل کی بیماری سے بھی نجات مل جاتی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں