حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرت اور شخصیت

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرت اور شخصیت

آپ کا اسم گرامی ’’فاطمہ‘‘ ہے اور لقب ’’الزہراء‘‘ اور ’’بتول‘‘ ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالی کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا ہے۔ مشہور قول کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت ملنے سے پانچ سال قبل (تقریباً ۶۰۵ء) میں پیدا ہوئیں۔ (بنات اربعہ ص: ۲۵۷)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا شمار ان مقدس خواتین میں ہوتا ہے جو اللہ تعالی کے نزدیک دنیا ہی میں برگزیدہ تھیں۔ (سیرالصحابہ ۶؍۹۹)
حدیث شریف میں ہے ’’تمہیں (اتباع کرنے کے لئے) تمام دنیا کی عورتوں میں حضرت مریم بنت عمران علیہ السلام، حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا زوجہ فرعون کافی ہیں۔ (ترمذی ۲؍۲۷۷)‘‘
آپ کو یہ مقام بھی حاصل ہے کہ جنت میں آپ تمام دنیا کی عورتوں کی سردار ہوں گی۔ (بنات اربعہ ص: ۳۱۸) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چومتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ (سیر الصحابہ ۶؍۱۰۰)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولاد میں سب سے زیادہ پیار و محبت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھیں۔ (سیر الصحابہ ۶؍۹۸)
ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی (درّہ ) کو نکاح کا پیغام بھیجا جس کی اطلاع لڑکی والوں کی طرف سے بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا ’’آل ہشام، علی بن ابی طالب سے اپنی بیٹی کا عقد کرنا چاہتی ہے اور مجھ سے اجازت مانگتی ہے لیکن میں اجازت نہیں دوں گا اور کبھی نہ دوں گا۔ البتہ ابن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کرسکتے ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا ایک حصہ ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی۔ اور یہ بھی فرمایا ’’جو چیز فاطمہ کو پریشانی اور دکھ دیتی ہے وہ مجھے بھی پریشانی اور دکھ دیتی ہے۔ ‘‘ (سیر الصحابہ) ۶؍۹۸)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گفتگو کرنے کا انداز، لہجہ، اٹھنا بیٹھنا، چال ڈھال اور چلنے کی رفتار بالکل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھیں۔ (بنات اربعہ ص: ۲۵۸)
جب آپ رضی اللہ عنہا تقریباً تیرہ چودہ برس کی ہوئیں تو والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ (محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم انسائیکلوپیڈیا، ص: ۴۰۲)
آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہجرت مدینہ کے بعد سنہ ۲ ہجری (۶۲۳ء) میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے طے ہوا اور چند ماہ بعد رخصتی ہوئی۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر ۲۱؍سال اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر ۱۸ سال تھی۔ (بنات اربعہ، ص: ۲۶۶)
جہیز میں آپ کو ایک بڑی چادر، ایک چمڑ ے کا تکیہ جو کھجور کی چھال یا اذخر (خوشبودار گھاس) سے بھرا ہوا تھا، ایک آٹا پیسنے والی چکی اور پانی کے لئے ایک مشکیزہ اور دو گھڑے ملے۔ (بنات اربعہ، ص: ۲۶۵)
آپ کی گھریلو زندگی کا حال یہ تھا کہ گھر کا سارا کام کاج خود سرانجام دیتی تھیں، چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے، مشکیزے میں پانی بھر بھر کر لانے سے جسم اطہر پر نشان پڑگئے، گھر میں جھاڑو دیتے دیتے کپڑے میلے ہوجاتے اور چولھے کے پاس کام کی وجہ سے بیٹھے بیٹھے دھوئیں سے کپڑے سیاہ ہوجاتے۔ (سیر الصحابہ ۶؍۹۹)
ایک مرتبہ کام کے بوجھ کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کہنے پر آپ اپنے والد ماجد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خادم لینے آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح فاطمی (رضی اللہ عنہا) کا تحفہ عطا فرما کر عرض کیا! کہ یہ خادم سے بہتر ہے۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں۔ آپ میرے لئے جو تجویز فرمائیں گے وہ میرے حق میں سب سے بہتر ہے، یہ کہہ کر خالی ہاتھ واپس تشریف لے گئیں۔ (بنات اربعہ، ص: ۲۷۰)
آپ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں دو صاحبزادے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما تھے اور دو صاحبزادیاں حضرت زینب زوجہ عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہما اور حضرت ام کلثوم زوجہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما تھیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی سلسلہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی سے چلا ہے۔ (سیر الصحابہ۶؍۹۷)
آپ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں بہت شرم و حیا تھی، اسی وجہ سے آپ نے حضرت اسماء بن عمیس زوجہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کہ کھلے جنازے میں عورتوں کی بے پردگی ہوتی ہے جس کو میں ناپسند کرتی ہوں، میرا جنازہ انتہائی پردہ میں لے جایا جائے۔ لہذا عورتوں کے لئے جنازے پر ڈولی کی طرح پردہ لگانے کا جو طریقہ آج کل رائج ہے اس کی ابتداء آپ رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔ (سیر الصحابہ ۶؍۹۷)
جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر انتیس برس ہوئی تو آپ کے والد ماجد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاول سنہ ۱۱ ہجری (۶۳۲ء) میں رحلت فرما گئے۔ انتقال کے وقت آپ پر ایک مصیبت ٹوٹ پڑی، لیکن آپ رضی اللہ عنہا نے بڑے صبر و استقلال سے کام لیا اور پھر جب تک آپ زندہ رہیں کبھی چہرہ مبارک پر مسکراہٹ نہ آئی۔ والد ماجد کے وصال کے چھ ماہ بعد آپ بیمار ہوگئیں اور بروز منگل ۳رمضان المبارک کے آخر سنہ ۱۱ ہجری میں انتیس سال کی عمر میں دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ (بنات اربعہ، ص: ۲۹۲، سیر الصحابہ ۶؍۹۴، المرتضی ۹۲۔محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم انسائیکلوپیڈیا، ۳۹۰) آپ کو حضرت اسماء زوجہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا و غیرہ نے غسل دیا۔ (بنات اربعہ، ص: ۳۰۰)
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کہنے پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی (بنات اربعہ، ص: ۳۰۲) اور جنت البقیع میں سپرد خاک کردیا گیا۔ (بنات اربعہ، ص: ۳۰۴، سیر الصحابہ ۶؍۹۷، ۹۶)
یوں کی ہے اہل بیت مطہر نے بسر زندگی
یہ ماجرائے دختر خیر الانام تھا

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نصیحت آموز اور مبارک زندگی ہر مرد و عورت کے لئے مشعل راہ ہے، بالخصوص ان خواتین کے لئے جو آزادی نسواں کے فریبی جال کا شکار ہیں اور جو گھریلو کام کا ج میں عار محسوس کرتی ہیں۔ دیکھئے شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس و مطہر بیٹی کی گھریلو زندگی کا عالم، اگر معاشرے کی ہر عورت آپ کی حیات مبارکہ کو اپنا نصب العین بنالے تو یقیناً معاشرہ ہر برائی سے پاک ہوجائے اور ہر گھر امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں