مظلوم اوئیغور مسلمان اور امریکا کے مذموم عزائم

مظلوم اوئیغور مسلمان اور امریکا کے مذموم عزائم

سنکیانگ کے اوئیغور مسلمانوں پر یقیناً ایک عرصے سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن حال ہی میں مغربی میڈیا نے اچانک ان مظالم کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔
مغرب کے اصل عزائم کیا ہیں، ان پر ہم بعد میں روشنی ڈالیں گے، اس سے پہلے ہم چاہیں گے کہ قارئین کا اوئیغور مسلمانوں سے تعارف کرادیں اور مغربی میڈیا جو الزامات لگا رہا ہے اُس کی تفصیل بھی عرض کردیں۔
اوئیغور ترکی النسل ہیں جو مشرقی اور وسطی ایشیا میں آباد ہیں۔ بعض مؤرخین اوئیغور کی تاریخ چھ ہزار چارسو (6400) سال پرانی بتاتے ہیں۔ جب اِس خطہ زمین پر اسلام کا سورج طلوع ہوا تو دنیا کے باقی حصوں کی طرح سنکیانگ بھی منور ہوا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اَسّی (۸۰) فیصد اوئیغور مسلمان ہیں۔ اوئیغور زیادہ تر سنکیانگ میں رہتے ہیں۔ جہاں ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دو، سوا دو کروڑ کے قریب ہے۔ اب آیئے ان الزامات کی طرف جو مغربی میڈیا اوئیغور مسلمانوں کے حوالے سے چین پر لگا رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چینی حکومت نے دس لاکھ اوئیغور مسلمانوں کیمپوں میں نازی جرمنی نے یہودیوں کو رکھا ہوا تھا۔ گویا دنیا کو بتانا مقصود ہے کہ جو سلوک نازی جرمنی نے یہودیوں سے کیا تھا، ایسا ہی چینی اوئیغور مسلمانوں سے کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مسلسل یہ خبر چل رہی ہے کہ یتیم خانوں میں اوئیغور بچوں کو لادین بنانے کا کام منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ چینی حکومت اب تک پانچ ہزار مساجد کو یا تو شہید کرچکی ہے یا انہیں بند کردیا گیا ہے۔ اوئیغور مسلمانوں اپنے نام کے ساتھ محمد کا لفظ نہیں لگاسکتے۔ لوگوں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور داڑھی رکھنے پر اور عورتوں کو پردہ کرنے پر گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں پر حلال کا لیبل لگانا انتہا پسندی سمجھی جاتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان الزامات کا دس فیصد بھی اگر درست ہے تو یہ قابل مذمت ہے اور پاکستان کو چین کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اپنے شہریوں سے ایسا رویہ خود چین کے لیے ضرر رساں ہے اور اہل پاکستان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، البتہ ہم پُر زور طریقے سے یہ اعلان بھی کریں گے کہ امریکا، مغرب یا کسی بھی غیرمسلم ملک کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام کا یہ کردار ہونا چاہیے کہ وہ حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ چین جو ہمارا دوست ہے اور انتہائی نازک مواقع پر پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھا ہے، اس بات پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرے اور کم از کم اوئیغور مسلمانوں کو اس بات کی اجازت تو دے کہ وہ اپنی عبادات اور مذہبی شعائر کو آزادانہ طور پر رو بہ عمل لاسکیں۔ پاکستانی عوام اور حکومت دونوں کو ناصحانہ انداز اختیار کرنا چاہیے اور مسلسل یہ کوشش کرنی چاہیے کہ چین میں ہمارے مسلمان بھائی خوش و خرم زندگی گزار سکیں، البتہ ہمیں امریکا اور مغرب کے ہتھکنڈوں سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔
امریکا کے اصل عزائم کیا ہیں اور اندر کی بات کیا ہے، وہ تو کسی طرح ڈھکی چھپی نہیں، اس لیے کہ امریکا کو اگر اوئیغور مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی ہوتی اور واقعتاً ان کے دکھوں کا احساس ہوتا تو وہ یہ سب کچھ ایک عرصہ پہلے کرتا۔ آج جب امریکا کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ معاشی اور اقتصادی لحاظ سے جِن بن جانے والا چین عسکری اور دفاعی لحاظ سے بھی ایک قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے تو وہ اپنی خصلت کے مطابق اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ خاص طور پاکستان کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات انگیخت کر رہا ہے۔ وہ گزشتہ صدی کی اُسی تاریخ کو دہرنا چاہتا ہے جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرنے کی حماقت کا ارتکاب کیا تو امریکا کو یکدم مسلمانوں اور اسلام سے عشق لاحق ہو گیا تھا۔ وہ دنیا بھر میں جہاد جہاد کی پکار لگانے لگا۔ جہادی مسلمانوں کا اکٹھا کیا۔ ان کی اسلحہ، بارود اور نقد رقم سے مدد کی۔ سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے جہادی مسلمانوں کو استعمال کیا۔ سوویت یونین پاش پاش ہوگیا اور امریکا سپریم پاور آف دی ورلڈ بننے میں کامیاب ہوگیا۔ دنیا Unopolar ہوگئی۔ امریکا دنیا کا شہنشاہ بن گیا تو اس نے اپنا روپ بدل لیا۔ کون نہیں جانتا کہ پھر اسی امریکا نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھائے۔
اب امریکا کی اس عالمی شہنشاہیت کو چین سے خطرہ نظر آرہا ہے۔ امریکا جان گیا ہے کہ سی پیک جیسے چین کے منصوبے نہ صرف چین کی اقتصادی قوت کو مزید بڑھادیں گے، بلکہ اس سے چین کی عسکری قوت میں بھی اضافہ ہوگا اور دنیا کے بہت سے ممالک چین کے زیر اثر آجائیں گے جس سے امریکا کے معاشی اور جنگی مفادات کو زبردست زک پہنچے گی، لہذا ایک بار پھر امریکا اپنے وسائل اور مسلمانوں کا خون استعمال میں لاکر اپنی عالمی شہنشاہیت کو بحال رکھنا چاہتا ہے۔ اوئیغور مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرنے سے پہلے امریکا اپنے گریبان میں منہ ڈالے یا آئینہ دیکھے تا کہ اس کو معلوم ہو کہ وہ کس طرح فلسطینی مسلمانوں کے گھر اُجاڑنے، اُن کی زندگیاں اجیرن کرنے اور ان کا خون بہانے میں اسرائیلی درندوں کا پون صدی سے ساتھ دے رہا ہے، اُس کی پیٹھ تھپک رہا ہے اور انسانیت سوز حرکات کے ارتکاب میں اسرائیل کی ناجائز مدد کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم اسرائیلی مظالم کی معمولی سے مذمت کرے تو امریکا اس تنظیم پر دو حرف بھیج کر اس سے الگ ہوجاتا ہے۔ بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے، جس سے امریکا اور مغرب چشم پوشی کررہے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں کس طرح امریکا نے بے گناہ اور معصوم شہریوں کا خون بہایا۔
قصہ مختصر ہم اگر چہ سنکیانگ کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔ اس پر اظہار افسوس بھی کرتے ہیں لہذا حکومت پاکستان پر دباؤ بھی ڈالیں گے کہ سفارتی طور پر بھرپور کوشش کرے کہ چین ان مسلمانوں سے اچھا سلوک کرے لیکن ہم ہرگز ہرگز اس حوالے سے امریکا کی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی مغرب کے اکسانے پر بندوق اٹھائیں گے۔ یہ امریکا کے مذموم مقاصد میں اس کی مدد کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہماری مغرب خاص طور پر امریکا کے حوالے سے یہ سوچ پختہ ہوچکی ہے کہ اسلام کی تاریخ میں امریکا سے بڑا مسلمانوں کا کوئی دشمن ثابت نہیں ہوا، البتہ اس یاد دہانی کی شدت سے ضرورت ہے کہ آج کا مسلمان چاہے اس کا تعلق پاکستان سے ہے یا مشرق وسطی سے یا افریقہ سے، وہ سوچے، غور و فکر کرے کہ آج ہم دنیا بھر میں ذلیل و خوار کیوں ہیں، کیوں دنیا بھر میں مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں؟!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں