اِک ذرا سی بات

اِک ذرا سی بات

زندگی میں کئی چھوٹے بڑے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر تو معمولی، مگر حقیقت میں بہت بڑا سبق سکھا جاتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
بڑے تایا کی بیٹی اسلام آباد میں رہتی ہیں۔ بہت بڑے افسر کی بیوی ہیں۔ خود بھی ماشاء اللہ! بہت نفیس شخصیت کی مالک ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا فون آیا کہ کچھ دن کے لیے کراچی آئیں گی۔ ان کی آمد کی خبر سن کر سب ہی گھر والے بہت خوش تھے۔ اگر چہ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے اور سب سے ملنے ملانے میں ہی ان کے دن پورے ہوجاتے مگر اس کے باوجود بھی ایک دو دن تو ہمارے گھر ضرور ٹھہرتی تھیں۔ کیوں کہ مجھ سے ان کی بہت دوستی تھی۔ دوستی کہ وجہ بھی خاص الخاص۔۔۔ کہ ہم دونوں کی پسند ناپسند بھی ایک اور شعلہ و شبنم کا سا مزاج بھی ایک۔۔۔ اس لیے دونوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔
مجھ سے عمر میں پانچ چھے سال بڑی ہیں اس لیے میں انھیں آپا جان ہی کہتی ہوں۔ جب بھی آتی ہیں میرے لیے ضرور کچھ نہ کچھ لے کر آتی ہیں۔
اس بار میں نے بھی ایک بہت خوب صورت سا سوٹ لے کر رکھا تھا انھیں تحفے میں دینے کے لیے۔ جب وہ آئیں تو ہم نے ان کی ایک پر تکلف سی دعوت کی۔ رات میں جب ہم دونوں بیٹھے خوب مزے سے باتیں کررہے تھے تو میں نے وہ تحفہ نکالا اور بڑی چاہت سے انھیں پیش کیا۔ میرا خیال تھا وہ بہت خوش ہوں گی، میری پسند کو سراہیں گی مگر انھوں نے ایک نظر دیکھا اور کچھ کہے بغیر لے کر ایک طرف رکھ دیا اور اسی طرح مجھ سے باتیں کرتی رہیں۔ میں دل میں بہت حیران تھی کہ انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ شکریہ تک نہیں کہا، کیا انھیں تحفہ پسند نہیں آیا؟ مگر میں نے تو بڑی محنت سے یہ سوٹ ان کے لیے منتخب کیا تھا۔ کتنی محبت اور چاؤ سے خریدا تھا۔۔۔!
صبح وہ چلی گئیں اور میں گھر کے کام سمیٹنے میں لگ گئی اور دوپہر کے قریب جب میں نے کمرے میں جاکر دیکھا تو وہ تحفہ وہیں بیڈ کے ایک کونے میں پڑا تھا، وہ اسے ساتھ لے کر ہی نہ گئی تھیں۔ میں سوچا شاید بھول گئیں۔
میں نے انھیں فون کیا: ’’آپا جان! آپ تحفہ تو یہیں بھول گئیں۔۔۔‘‘ مگر انھوں نے میری بات سنی اَ ن سنی کردی اور دوسری باتیں کرنے لگیں پھر فون بند کردیا۔
اب تو مجھے یقین ہوگیا کہ وہ تحفہ لے جانا بھولی نہیں تھیں، بلکہ انھیں پسند ہی نہیں آیا تھا۔
مگر پھر بھی ایسا تو نہیں کرنا چاہیے تھا انھیں۔ بھلا کیا ہوجاتا اگر ایک سوٹ اپنے معیار سے ذرا کم درجے کا پہن لیتیں، ایک بار ہی پہن لیتیں یا کم از کم نہ بھی پہنتیں تو میرا دل رکھنے کے لیے ہی سہی، تحفہ قبول تو کرلیتیں۔ صرف اتنا ہی کہہ دیتیں۔ ہاں ہاں بہت اچھا ہے۔
مگر یہ کیسی بے رخی تھی۔ میرا دل اندر تک دکھی ہوگیا تھا ان کے اس رویے کی وجہ سے۔۔۔ اور دکھی دل اللہ کی طرف رجوع ہوجائے تو بڑے معرفت کے راز کھلتے ہیں۔ اللہ تعالی سے اپنا حالِ دل بیان کرتے کرتے مجھ پر بھی ایک بڑا راز کھلا۔
یہ تو دنیا ہے، میں نے بہت محنت سے، محبت سے، مال خرچ کیا، وقت خرچ کیا اور ایک تحفہ خریدا کسی کو دینے کے لیے۔ اس نے قبول نہیں کیا۔ کوئی بات نہیں۔ میرا تو کوئی ایسا نقصان نہیں ہوا، بس ذرا سا دل ہی دکھاناں۔۔۔ سوٹ تو میں کسی اور کو بھی تحفتاً دے سکتی ہوں، خود بھی پہن سکتی ہوں۔ ضائع تو نہیں ہوا مگر ایک سوچ نے میرے قدم لڑ کھڑا دیے۔۔۔ دل لرزا دیا۔ یہونہی ایک دن جب میں اپنے مالک الملک کے سامنے کھڑی ہوں گی اور وہ مجھ سے پوچھے گا میری بندی کیا لے کر آئی؟ اور میں بڑی خوشی خوشی اپنی نمازیں، روزے، اپنی عبادتیں، ریاضتیں اور اپنے قلم کی کاوشیں۔۔۔ سب کچھ اس کے سامنے پیش کروں اور وہ کہہ دے: ’’مجھے اس میں سے کچھ قبول نہیں، یہ سب کچھ غیرمعیاری ہے، یہ اخلاص کی کسوٹی پر پورا اترا ہی نہیں۔ اس میں کھوٹ ہے، جا لے جا۔ اے نادان! یہاں خلوص کے پیمانے چلتے ہیں، اخلاص سے کیے گئے تھوڑے عمل کی بھی قدر ہے۔ مگر تیرا عمل بے کار ہے۔ یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔‘‘
بس وہ ایک لمحہ تھا آگہی کا، جس نے میرے جس و جاں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایک زلزلہ تھا جو پورے وجود میں برپا تھا۔ ایک خوف جس نے دل کی دھڑکنیں تک منجمد کردی تھیں۔
دل سراپا التجا تھا، بے اختیار مالک کے سامنے گڑگڑانے لگا:
’’میرے اللہ میرے معبود! میں اپنے تمام اعمال کی مقبولیت کی بھیک مانگتی ہوں تجھ سے، اگر اُس دن تو نے مجھے دھتکار دیا تو میں کہاں جاؤں گی میرے اللہ؟ میرا کیا ٹھکانہ ہوگا۔۔۔؟ جسے تو ٹھکرا دے، پھر اور کہاں جائے پناہ ہے اس کے لیے؟
بہت رات بیت گئی یوں ہی سوچتے سوچتے۔۔۔ آنسوؤں سے تکیے بھگوتے بھگوتے۔
ہمیشہ اپنے اعمال پر بڑا ناز رہا۔ کبھی سوچا ہی نہیں تھا مردود کردیے گئے تو کیا ہوگا؟
وہ کیا بات تھی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک حدیث سناتے ہوئے بار بار بے ہوش ہوجاتے تھے۔ سنانے کا ارادہ کرتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے۔ فرماتے کہ قیامت کے دن ایک عالم، ایک شہید اور ایک سخی کو بلایا جائے گا اور ان سے ان کے اعمال کی بابت پوچھا جائے گا اور عالم کہے گا: ’’اے اللہ! تیرے لیے علم حاصل کیا پھر لوگوں کو سکھایا۔‘‘ دوسرا کہے گا: ’’یا اللہ!تیری خاطر اپنی جان دے دی او رشہید ہوگیا۔‘‘ تیسرا کہے گا: ’’میں نے اپنا مال تیری راہ میں خوب خرچ کیا۔‘‘
تو ارشاد باری ہوگا: ’’جھوٹ کہتے ہو، تم نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ دنیا میں تمہاری خوب واہ واہ ہوجائے، سو ہوچکی۔ اب تمہارے ان اعمال کا بدلہ یہاں کچھ نہیں۔‘‘ اور انھیں اٹھا کے ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
اللہ اکبر۔۔۔ اللھم احفظنا منھم۔۔۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو سناتے تو اکثر خوف و دہشت سے بے ہوش ہوجاتے تھے اور ہم پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ پہلے بھی کئی مرتبہ سن رکھی تھی یہ حدیث، مگر کبھی یہ خیال نہیں ہوا تھا کہ آخر دھتکار دیا جانا کیا ہوتا ہے؟ ۔۔۔مردود کردیا جانا کیا چیز ہے؟ وہ کیا خوف تھا جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کے بیان کرتے وقت لرزہ براندام کردیا کرتا تھا؟
آج یہ نکتہ سمجھ میں آیا تھا۔ ایک معمولی سے واقعے نے آنکھیں کھول دی تھیں۔ نجانے کس بات کا گھمنڈ تھا کہ ضرور اللہ کے یہاں اعمال مقبول ہی ہوں گے۔
کیا پتا کب نیت کے کھوٹ سے، ریا کاری سے، سب کیا دھرا برباد ہوجائے۔ کیا پتا اعمال میں وہ خوب صورتی اور اخلاص ہو ہی نہ جو اللہ کو مطلوب ہے۔ ایک تحفے کے مردود ہوجانے کا اتنا غم اور اگر روز آخرت سارے اعمال ہی لپیٹ کرمنہ پر ماردیے گئے تو کیا ہوگا؟
کیسے کیسے اپنے محنت سے کیے گئے اعمال کو ہم لوگ ضائع کردیتے ہیں، کبھی ریا کاری سے کبھی منافقت سے، کبھی احسان جتلا جتلا کے۔۔۔ کبھی طعنے دے کے۔۔۔ کبھی جھوٹ بول کے، کبھی غیبت کرکے۔۔۔ کبھی دوسروں کا حق مار کے۔۔۔ کبھی ظلم و زیادتی کرکے۔۔۔
’’وہ لوگ جن کی کوششیں دنیا ہی کی زندگی میں برباد ہو کر رہ گئیں اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اچھے کام کررہے ہیں۔‘‘ (الکہف: ۱۰۴)
میرے خدا!۔۔۔ کوئی بے چینی سی بے چینی تھی۔ غم، فکر حد سے سِوا ہوگیا۔۔۔ کہیں میرے اعمال بھی برباد کردیے جائیں، آخرت کے دن خالی ہاتھ کھڑی رہ جاؤں۔ ناکام، نامراد، خسارہ پانے والے لوگ۔
’’اے میرے رحیم اے میرے کریم اللہ! مجھے معاف کردے۔ برے کاموں سے بچالے۔ بری نیت سے بچالے۔ اے اللہ! میرے اعمال کو قبولیت کا شرف بخش دے۔ ریاکاری اور منافقت سے بچالے۔ حسنِ خاتمہ نصیب کر اور اعمال میں ایسی خوب صورتی و اخلاص عطا فرما کہ تجھے پسند آجائیں۔
اللھم انی اعوذبک ان اشرک بک شیئا و انا اعلم و استغفرک لما لا اعلم
’’اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتی ہوں کہ جانے انجانے میں تیرے ساتھ شرک کر بیٹھوں کہ کسی اور کو تیرا شریک بنادوں۔‘‘ آمین یا رب العالمین!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں