مولانا عبدالحمید:

لوگوں کے لیے گھر بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے

لوگوں کے لیے گھر بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے گیارہ جنوری دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں عوام کے لیے گھر بنانے کو حکومت اور ریاست کی ذمہ داری یاد کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی تاکید کی۔
سنی آن لائن اردو نے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی کہ انہوں نے کہا: پوری دنیا میں یہ بات طے شدہ ہے کہ حکومتیں اور ریاستیں اپنے عوام کو مکان فراہم کریں۔ ہماری بھی حکومت اور ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے لوگوں کو گھر فراہم کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ماضی میں لوگوں کو قسطوں میں مکان دیا جاتا تھا، موجودہ حالات میں اگر حکومتی اداروں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے، کم ازکم انہیں زمین الاٹ کی جائے تاکہ وہ خود اپنے لیے مکان بنائیں۔ ہر ایرانی کا حق بنتاہے کہ اس کا اپنا کوئی مکان ہو۔
زاہدان کے شہری مسائل کی بات کرتے ہوئے صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: زاہدان ایک بڑا شہر بن چکاہے جس کی آبادی کافی بڑھ گئی ہے۔ یہاں آبادی انتہائی گنجان ہوچکی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر کے آس پاس مزید علاقے بنائے جائیں تاکہ عوام کی رہائش کا مسئلہ حل ہوجائے۔
انہوں نے مزید کہا: متعلقہ ادارے گلیوں اور بستیوں میں جائیں اور جن لوگوں کے پاس مناسب مکان نہیں ہے، انہیں مناسب مکان فراہم کرنے کا بندوبست کریں۔ قومی اراضی کی حفاظت کی جائے، لیکن یہ بات مت بھولیں کہ ان زمینوں کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہے اور ان کے آباواجداد سے انہیں ملی ہیں۔ کم ازکم ان کے بنائے ہوئے مکانوں کو مسمار نہ کیاجائے۔

عدلیہ عوامی مسائل کے حل میں کوشش کرے
خطیب اہل سنت زاہدان نے عدلیہ کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: کسی بھی ادارے کو عدلیہ سے غلط فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عدلیہ اس بات کا نوٹس لے کہ جو لوگ کئی عشروں سے اپنی زمینوں کے لیے کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کیوں انہیں تنگ کیاجارہاہے؟
انہوں نے مزید کیا: عدلیہ کا تعلق کسی مخصوص ادارے یا محکمے کے ساتھ نہیں ہے؛ عدلیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قوم کے ہر فرد کے حقوق فراہم کرنے کی کوشش کرے۔ جو محکمے سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں نوٹس بھیج دیں تاکہ عوام کے مسائل کا فوری حل نکالیں۔
مولانا عبدالحمید نے بلدیاتی حکام کو بھی پیغام دیتے ہوئے کہا: پورے شہر اور صوبے میں لوگ بے روزگاری سے دست و گریبان ہیں؛ ایسے میں کچھ شہری پھیری لگاتے ہیں یا اسٹال لگاتے ہیں، انہیں ہراساں نہ کیاجائے۔
انہوں نے مزید کہا: حکومتی ادارے اگر لوگوں کے لیے روزگار فراہم نہیں کرسکتے ہیں، کم سے کم ان ٹھیلے والوں کو حلال روزی کمانے سے نہ روکاجائے۔ عوام بھی قانون کا خیال رکھیں اور راستوں کو بند نہ کریں۔ جو کاروبار قابل برداشت ہیں انہیں برداشت کیا جائے۔

قتل کی واردات میں اضافہ معاشرے کے لیے خطرناک ہے
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے قتل و اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: قتل و خون کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ جس معاشرے میں شریعت، عقل اور مناسب روایات کو پامال کیا جائے، وہاں قتل کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر ہمارے علاقے پانی کو ترس رہے ہیں اور خشکسالی نے سب کو پریشان کررکھاہے، اس کی ایک بڑی وجہ قتل و خونریزی ہے۔ جب لوگ نماز کے حوالے سے سستی کریں اور ان کے اعمال برے ہوجائیں، اللہ تعالی بھی انہیں سزا دیتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: اگر کوئی شخص قتل ہوجائے ، اس کے اعزہ و اقارب کو چاہیے قانونی راستوں سے قصاص لینے کی کوشش کریں۔ خود قصاص لینے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہ لیں۔ نیز قاتل کے رشتہ داروں کو قتل یا اغوا کرنا بہت بری عادت ہے جو اسلام کے سراسرخلاف ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ اسلام سے پہلے کی جاہلیت کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔

تقویٰ ہی تمام مسائل کا حل ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں تقویٰ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے انسان کی نجات کو تقویٰ ہی سے وابستہ فرمایاہے۔ یہ انسان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اس دنیا میں جہاں غفلت و لاپرواہی عام ہوچکی ہے اور شیطانی و انسانی دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں، ہماری حفاظت کا واحد راستہ تقویٰ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالی نے سورت الطلاق میں واضح فرمایاہے کہ جولوگ اللہ سے ڈرتے ہیں، اللہ تعالی ان کے لیے نجات کی صورت نکال دیتاہے۔لہذا جب تک زندہ ہیں، تقویٰ کے سایے تلے زندگی گزاریں، اور موت بھی ایسی حالت میں ہمیں گلہ لگادے کہ ہمارا شمار متقی لوگوں میں ہوتاہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں