صہیونی فوج کے ہاتھوں 2018ء کے دوران 1000 فلسطینی بچے پابند سلاسل

صہیونی فوج کے ہاتھوں 2018ء کے دوران 1000 فلسطینی بچے پابند سلاسل

فلسطین میں اسیران اسٹڈی سینٹر کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں‌ بتایا گیا ہے کہ 2018ء کے دوران قابض فوج نے جہاں بڑی عمرکے فلسطینیوں کو حراست میں لیا وہیں کم عمر بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد گرفتار کی گئی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی فوج نے سال دو ہزار اٹھارہ کے دوران 980 فلسطینی بچوں کو حراست میں لے جیلوں میں ڈالا اور انہیں قید اور بھاری جرمانوں کی سزائیں دی گئیں۔ گرفتار ہونے والے بچوں میں کئی بیمار اور زخمی تھے۔
اسیران اسٹڈی سینٹر کے ترجمان ریاض الاشقر نے بتایا کہ صہیونی فوج ایک طے شدہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی نئی نسل کو حراست میں لے رہی ہے۔ بچوں کی گرفتاری کا مقصد فلسطینیوں کی نئی نسل کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا ہے۔ گذشتہ برس بعض ایسے بچوں کو بھی جنگی مجرم قرار دے کر گرفتار کیا گیا جن کی عمریں 12 سال سے بھی کم تھیں جب کہ زید طہ نامی ایک بچے کو الخلیل سے حراست میں لیا گیا۔ اس کی عمر9 سال بتائی جاتی ہے۔
ریاض الاشقر کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس حراست میں لیے گئے بچوں میں سے 250 اب بھی صہیونی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔ دوران حراست صہیونی جلاد کم سن فلسطینیوں کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا رہےہیں اور عالمی سطح پران کے بنیادی حقوق اور قوانین کی کھلے عام پامالی کی جاتی ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بچوں میں 55 مختلف بیماریوں کا شکار ہیں یا زخمی حالت میں گرفتار کرنے کےبعد لا علاج ہیں۔
رپورٹ میں‌ بتایا گیاہے کہ 2018ء کے دوران صہیونی فوج نے فلسطینی بچوں کو 9 لاکھ 97 ہزار شیکل جرمانے کیے۔ امریکی کرنسی میں یہ رقم 2 لاکھ 70 ہزار بتائی جاتی ہے۔
فلسطینی بچوں کے خلاف صہیونی ریاست کے مکروہ حربوں میں ایک حربہ انہیں طویل قید کی سزائیں دینے کا بھی شامل ہے۔ گذشتہ برس قابض صہیونی ریاست کی ایک فوجی عدالت نے 16 سالہ فلسطینی ایھم باسم صباح کو 35 سال قید اور ایک ملین شیکل جرمانہ کی سزا سنائی۔ ایھم صباح کو دو سال قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 14 سال تھی۔ 12 فلسطینی بچوں کو سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ حراست میں لینے کے بعد 95 فلسطینی بچوں کو گھروں پر نظر بندی کی سزائیں دی گئیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں