ایک سبق آموز تحریر

ایک سبق آموز تحریر

ایک مسلم گھرانے کی بہو کے یہاں ماشاء اللہ خوشی آنے والی تھی۔
شادی سے پہلے ہی ان کی ساس نے کہہ دیا تھا کہ نوکری تو بہو کو کرنی پڑے گی کیونکہ میری بیٹیاں اور بڑی بہو بھی نوکری کرتی ہیں۔ شادی کی ۱۵؍دن کی چھٹیوں کے بعد ہی کپڑے دھونے کی ذمے داری بہو پر ڈال دی گئی۔ گھر میں تین نندیں تھیں جو شادی کے انتظار میں بوڑھی اور چڑچڑی ہوچکی تھیں، ایک جیٹھ، ان کی بیوی اور چار بچے تھے۔ ساس، سسر، بیوی اور اس کا شوہر۔ گویا ۱۳؍لوگوں کے اندر باہر کے سب کپڑے دھونا بہو کے ذمے داری تھی۔ بڑی بہو کھانا پکاتی تھیں، ایک نند صفائی کرتیں، ایک برتن دھوتیں، اور سب سے بڑی نند بیمار تھیں، پہلے کپڑے دھوتی تھیں اب اُن پر سے ہر ذمے داری ہٹالی گئی تھی۔
تو بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے کچھ فروٹ وغیرہ لادیا کریں، ان دنوں میں ذرا صحت بنے گی، میری تنخواہ تو آپ کی امی لے لیتی ہیں، بس یہ کہنا تھا کہ شوہر نے ایک طوفان برپا کردیا کہ: میری امی کو غاصب کہہ رہی ہو! گھر کا ہر فرد اُن کو اپنی تنخواہ دیتا ہے، تمہیں اعتراض ہے تو گھر چھوڑ دو، جو گھر کے سب لوگ کھاتے ہیں تمہیں وہی ملے گا، تم کہیں کی رانی نہیں ہو، اپنی اوقات میں رہو۔
گھر میں وہی تیز مرچوں کا بھرپور تیل والا کھانا بنتا، جسے دیکھ کر ہی اس کو الٹی ہونے لگتی۔ رفتہ رفتہ اس کی خوراک کم ہونے لگی۔ ایک بار دودھ پینے کی کوشش کی تو ساس نے یاد دلایا کہ تمہارے میکے میں تمہیں کیا نصیب تھا جو یہاں نخرے دکھا رہی ہو! بہر حال آفس میں باس کی ڈانٹ کھاتے، گھر میں ساس اور میاں کے طعنے سنتے، مختصرترین غذا کے ساتھ بہو نے ۳؍پاؤنڈ کے ایک بچے کو جنم دے دیا، جس کا نام بھی ساس نے رکھا۔ بچہ شروع سے ہی انتہائی ناتواں اور کمزور تھا۔
ادھر ایک اسرائیلی گھرانے کی بہو تھی، اُس کے گھر خوشی آنے والی تھی۔ اس کو روز صبح ایک ادارے میں جانا پڑتا جہاں اسے ۳؍گھنٹے تک ریاضی کی مشقیں کرائی جاتیں تا کہ بچہ ذہین پیدا ہو، اس کے بعد وہ گھر آکر مچھلی سے بنا اپنا دوپہر کا کھانا کھاتی۔ شام میں بادام، دودھ، کھجور اور دیگر پھل و غیرہ کھاتی، رات میں بیف، دالیں و غیرہ۔ دن میں کم از کم دو گھنٹے سکون حاصل کرنے کے لیے موسیقی سنتی۔ سرکاری طور پر اس کو وظیفہ دیا جارہا تھا تا کہ وہ ایک صحت مند یہودی کو پیدا کرسکے۔ اس کی ساس اور شوہر کا رویہ بھی نہایت مثبت تھا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہو جو نوبیل پرائز حاصل کرے۔ ۸۰؍فیصد یہودی ہی ہمیشہ سے نوبیل پرائز حاصل کرتے آئے ہیں۔
آخر کار یہودی بہو کے یہاں ۸؍پاؤنڈ کا بچہ پیدا ہوا۔ اس کی ماں بھی بہت صحت مند تھی اور بچے کو بہترین ابتدائی غذائیں دے رہی تھی۔ تین سال کی عمر میں اسے نشانہ بازی، تیراندازی اور دوڑ کی مشقیں شروع کرادی گئی تا کہ یکسوئی اور فیصلہ سازی کا عنصر پیدا ہو۔ بچے کو بہت اخلاق و تہذیب بھی سکھایا جاتا، اس کے سامنے کوئی اونچی آواز میں آپس میں بھی بات نہ کرتا۔ ایک دن بچہ بہت حیران ہوا، اس کے ماں باپ ہر مہمان کی بہت تواضع کرتے تھے، مگر ایک بھارتی مہمان جب سگریٹ پینے لگا تو بچے کے والد نے اُس سے کہا کہ: آپ گھر سے باہر جا کر سگریٹ پئیں۔ مہمان نے کہا کہ: سگریٹ کی ۸۰؍فیصد فیکٹریاں یہودیوں کی ہی ہیں۔ تو بچے کے والد نے جواب دیا کہ: ہاں۔ وہ ہمارا بزنس ہے مگر یہودی اسموکنگ نہیں کرتے، جیسے کہ ہم تمام دنیا کے بچوں کو کارٹوں نیٹ ورک اور ڈزنی ورلڈ دکھاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو ہم تیراندازی، گھڑ سواری، تیراکی اور ریاضی سکھاتے ہیں، ہمارے اسرائیلی بچے کیلی فورنیا کے بچوں سے ذہنی استعداد میں ۶؍سال آگے ہیں، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کو کس بچے کے ڈاکٹر یا سائنٹسٹ بنانا ہے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں مستقبل میں اپنے کتنے بچوں کو بزنس مین یا انجینئر یا سیاست دان بنانا ہے، ہر ایک کی اسی حساب سے ساری زندگی ٹریننگ ہوتی ہے۔
وہ یہودی بچہ جب چھٹی جماعت میں گیا، تو اسے پراجیکٹ دیا گیا کہ ۳ ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری سے ۱۰ ہزار ڈالر کما کر دکھائے۔ اسے تیسری جماعت سے کار وباری حساب کتاب پڑھایا جارہا تھا، مگر وہ صرف ۷ ہزار ڈالر ہی کماسکا۔ اس ناکامی پر اسے کاروباری ریاضی کی ایکسٹرا کلاسیں لینا پڑیں، اور ساتویں جماعت میں وہ اسکول کے فراہم کردہ ۵ ہزار ڈالر سے ۱۶ ہزار ڈالر کمانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب وہ ایک پکا یہودی بن چکا تھا، اب وہ جو چاہے مضمون اپنے ہائی اسکول کے لیے منتخب کرتا، مگر صرف سائنسی مضامین کی اجازت تھی اور اس نے نیوکلیئر فزکس کا انتخاب کیا۔ یہ وہ سال تھا جب بچہ نے زندگی میں پہلی بار چپس، پیپسی اور چاکلیٹ چکھے، کیونکہ ساری کچرا خوراک یہودی بچوں کو منع ہوتی ہے۔ اس بچے کا بھی یہ پہلا اور آخری تجربہ رہا اور اس کو ماں باپ سے بہت ڈانٹ پڑی۔ اب وہ پھر سے جیب میں کھجور اور بادام رکھتا، جو ٹافیوں اور الم غلم سے بدرجہا بہتر تھیں۔
جب بچہ تعلیم سے فارغ ہوا تو اس کے والد نے اسے نیویارک کے ایک ادارے میں بھیجا۔ صدیوں کے سودخور یہودی اس ادارے میں یہودی بچوں کو بلاسود قرضے فراہم کرتے تھے تا کہ یہودی بچے اپنے ہنر و تعلیم کے مطابق کار وبار کا آغاز کریں، نہ کہ نوکریاں ڈھونڈتے پھریں۔ پڑھائی تک یہ سوچ کر نہ کریں کہ نوکری مل جائے، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کوئی نیا کار و بار کریں۔
یہودی بچے اپنی طلب کے مطابق قرضہ مل گیا، اس نے اسرائیل میں ایک لیبارٹری کھولی جہاں اس کے سب سائنس دان دوست بھی اس کے ساتھ مل گئے۔ اس کے بعد جدید ٹیکنالوجی سے ان لوگوں نے وہ، وہ ہتھیار بنائے کہ دنیا کا ہر ملک اسرائیل سے ڈرنے لگا۔
ادھر مسلم بہو کے نوکری پر جانے کے بعد دادی کے لیے بچے کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ۔ بس چپس، ٹافیاں اور دیگر الم غلم دے کر اس کو بہلا پھسلا کر رکھتیں۔ انہی چیزوں سے اس کا پیٹ اتنا بھر جاتا کہ وہ کھانا کھاہی نہ پاتا، کھاتا بھی تو مرچوں اور تیل کی بھاری مقدار، اس کا پیٹ آئے روز گڑبڑ کردیتی اور وہ کبھی صحت پکڑ ہی نہ پایا۔ بہو آتے ہی واشنگ مشین لگاتی اور کپڑے دھونے میں جٹ جاتی۔ رات کو فارغ ہوتی تو کھانا کھاتے ہی سوجاتی۔ بچے کو ماں کا پیار اور تربیت مل ہی نہ پائی، تربیت بس یہ ملی کہ دادا دادی کو مارتے، تایا تائی کو مارتے، اور ابو امی کو مارتے۔
پانچ سال کا ہوا تو ایک قریبی اسکول میں داخل کرادیا گیا کہ محلے کے بچوں کے ساتھ ہی جائے گا اور آئے گا۔ ماں باپ کی عدم توجہی کی بنا پر بچے کی کارکردگی انتہائی خراب تھی، روز ابو دھنک کر رکھ دیتے کہ پڑھتا کیوں نہیں! لیکن کبھی اس کو لے کر نہیں بیٹھے کہ آؤ جی تمہیں میں پڑھاتا ہوں۔ بڑی مشکل سے میٹرک پاس کیا۔ اپنی ماں سے جب اپنی مشکل کہنا چاہتا، اُن کو کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا۔ پھرپھیوں نے تو بے دام غلام سمجھ لیا تھا۔ ماں کی غیرموجودگی میں سارے کام بچے سے ہی لیتیں۔ اب اس کے پاس پڑھائی کا کیا وقت رہ جاتا! انٹر میں آرٹس لیا، پھر بی اے کیا۔ اب ساری دنیا میں نوکری کے لیے جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہے۔ ماں بوڑھی اور بیمار ہوگئی ہے مگر اس کا شوہر اس کا علاج کروانے کے بجائے دوسری شادی کرچکا ہے۔

فائدہ:
قارئین! ہم نے ایک مسلم خاندان اور ایک اسرائیلی خاندان کا تقابلی جائزہ پیش کیا، تا کہ سمجھ سکیں کہ اسرائیلی دنیا پر کیوں حکومت کررہے ہیں، اور مسلمان کیوں زوال کا شکار ہیں۔ ایک اسرائیلی بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی تربیت پانا شروع کردیتا ہے، جب کہ ایک مسلمان بچہ ہونے سے پہلے ہی تناؤ کی کیفیات سے آشنا ہوجاتا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کامیاب کون ہوگا، یہودی یا مسلمان؟
آپ غور کریں کہ یہودی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ چل رہے ہیں اور وہ اپنی نسلوں کی ایسی ٹھوس تربیت کرتے ہیں کہ ہر آنے والی نسل پچھلی نسل کا ایجنڈا لے کر آگے بڑھتی ہے، کسی نسل پر بھی ان کی حکمت عملی میں خلا نہیں پیدا ہونے پاتا۔ کوئی بچہ اپنے آبا ؤ اجداد کی حکمت عملی سے اختلاف نہیں کرتا، اور یہودیوں کے منصوبے صدیوں تک بغیر کسی مشکل کے جاری رہتے ہیں۔
جب کہ ہم اول تو ایسی قیادت سے محروم ہیں جو منصوبے بنائے اور اپنی نسلوں کی اس کے مطابق تربیت کرے، دوسرے ہم ذاتی سطح پر بھی صرف یہ سوچ کر اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں کہ بس زیادہ سے زیادہ پیسے کمالے۔ ہم کبھی قومی اور امت کے نقطہ نظر سے اپنے بچوں کو تیار نہیں کرتے، جس کا خمیازہ آج امتِ مسلمہ بھگت رہی ہے۔
یہودیوں کی ایک اور خوبی جو اُن کی ترقی کی ضمانت ہے، یہ ہے کہ وہ ایک دوسے کا راستہ نہیں کاٹتے، بلکہ ایک یہودی دوسرے یہودی کی مدد کرتا ہے۔ ساری دنیا کو انہوں نے سود در سود کے چکر میں پھنسایا ہوا ہے، مگر ایک یہودی جب دوسرے یہودی کو قرض دیتا ہے تو ایک پیسے کا بھی سود نہیں لیتا، چاہے کتنے عرصے میں رقم کی واپسی ہو۔ یہودی خاندان جو اسرائیل میں بستے ہیں، ان میں طلاق کی شرح صرف ۳ فیصد ہے، وہ بھی صرف شوبز و غیرہ سے وابستہ لوگوں میں، عام یہودی خاندانوں میں طلاق ممکن ہی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک مضبوط قوم کے لیے سب سے پہلے مضبوط خاندان ضروری ہے تا کہ بچوں کی تربیت عمدہ انداز میں ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا بھر کو ڈراموں اور فلموں کے ذریعے طلاق کی تربیت دے رہے ہیں، مَردوں کی تفریح کے اتنے ذرائع پیدا کردیے گئے ہیں کہ ان کو گھروں میں دلچسپی محسوس ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ خاندان کو ایک اَن چاہا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں جو ان کی آزادی اور تفریح کی راہ میں رکاوٹ ہے، اور پھر آخر کار بچوں کی جنت اجڑ جاتی ہے، یہ بچے کسی ماموں یا خالہ کے گھر ساری زندگی یہ سنتے ہوئے گزار دیتے ہیں کہ ’’نکلو ہمارے گھر سے‘‘، یا ’’برے باپ کی بری اولاد‘‘۔
یہودی اپنے بچوں کو اپنی تمام مذہبی کتب اور مذہبی رسومات از بر کرادیتے ہیں۔ اگر ان کا عقیدہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں تھا کہ وہ آئیں گے تو دنیا میں یہودی کی حکومت قائم ہوگی۔ تو آج بھی وہ نہ صرف ایک مسیح کا انتظار کررہے ہیں بلکہ ان کا بچہ بچہ دجال مسیح کی آمد کا میدان تیار کررہا ہے۔ شام کی تباہی بھی دجال کی آمد کی نشانی ہے جسے وہ دل لگا کر پورا کررہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی، مصر، مدینہ، عراق اور تمام عرب ممالک گریٹر اسرائیل کا وہ نقشہ ہیں جن کی فتح کے بعد ہی دجال آسکے گا اور تمام دنیا کو یہودیوں کی جاگیر بنادے گا۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ یہودی اتنے متحد اور ذہین ہیں کہ اب بھی تمام دنیا پر بلاواسطہ انہی کا قبضہ ہے، وہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے، اور عرب حکمران خدا کو خوش کرنے سے زیادہ یہودیوں کو خوش کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
قارئین! میری یہودیوں سے کوئی ذاتی دشمنی تو ہے نہیں، مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو وہ جس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں وہ ناقابلِ برداشت ہے، تا ہم یہ بات صحیح ہے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر عمل کریں تو ان کی سازشیں کچھ نہیں کرسکتیں۔ اب یہودی بھی ہے، تو وہ اس وقت تک ہمارے اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک ہم میں سے کوئی اس کا راز دار ساتھی نہ بنے، اس کے ایجنڈے کو مسلمانوں میں نہ پھیلائے۔ تو پھر غلطی کس کی ہے؟
براہ مہربانی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں امام مہدی اور حضرت عیسی کی فوجوں میں شامل ہونا ہے، ان کو ایمان کی لَو دیں۔ اس سوچ کے ساتھ ان کی تربیت نہ کریں کہ یہ بس کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کسی یہودی کے ملازم بن جائیں۔ یاد رکھیں کہ مرضی تو پھر ساری دنیا میں باس کی ہی چلتی ہے، ملازم کی نہیں۔

جامعہ احسن البنات مراد آباد


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں