شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

اچھے اخلاق کے بغیر دینداری ناممکن ہے

اچھے اخلاق کے بغیر دینداری ناممکن ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے نو نومبر دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں بداخلاقی کو اسلامی تعلیمات کے خلاف یاد کرتے ہوئے کہا لوگوں سے اچھے برتاو رکھنے کے بغیر کوئی نمازی دیندار نہیں بن سکتا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سورت المومنون کی ابتدائی آیات کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: اسلام سمیت تمام آسمانی مذاہب میں انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانے پر زوردیا گیاہے۔ انسان اس وقت تک حقیقی انسان نہیں بن سکتا جب تک اس کے عقائد، اعمال اور اخلاق ٹھیک نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا: ہر انسان کی قدر اس کے اخلاق کے مطابق ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: میں اعلی اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیاہوں۔ نیز ایک حدیث میں آیاہے: قیامت کے دن حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ بھاری نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب ہے حسن اخلاق کا وزن نماز، زکات، روزہ اور حج جیسی عبادات سے بھی زیادہ ہے۔

اعلی اخلاق قوموں کا متفقہ مسئلہ ہے
مولانا عبدالحمید نے کہا: حسن اخلاق سب کے نزدیک اہم ہے۔ تمام تہذیبوں، ثقافتوں اور قوموں کے یہاں یہ متفقہ مسئلہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کل اخلاق کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے، بہت سارے لوگ اسلام کو نماز، حج اور روزہ سمیت دیگر عبادتوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ یہ اگرچہ ارکان اسلام ہیں، لیکن اسلام ان سے بڑھ کر ہے۔ اسلام ایک وسیع دین ہے جس میں ایمانیات اور عبادات کے علاوہ اخلاقیات بھی شامل ہیں۔ حسن اخلاق کے بغیر انسان کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔
انہوں نے اخلاق کو عبادت سے زیادہ اہم یاد کرتے ہوئے کہا: اگر قرآن پاک کو بغور مطالعہ کیاجائے، واضح ہوجائے گا کہ عبادات سے زیادہ قرآن پاک میں اخلاقیات کا تذکرہ ملتاہے۔ سورت المومنون کی ابتدائی آیات کے علاوہ، سورت الفرقان کی متعدد آیتیں اسی موضوع کے لیے مختص ہیں۔
صدر و شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: حسن اخلاق سے انسان کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے: تم میں قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے سے قریب وہ شخص ہوگا جو اخلاق کے اعتبارسے سب سے اچھا ہو۔ جس کا اخلاق برا ہو اور وہ لوگوں کو تنگ کررہاہو، قیامت کے دن مفلوس ہوکر رہے گا اور اس کی نیکیاں دوسرے لوگ لے جائیں گے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: بہت سارے لوگ ہیں جو پابندی سے نماز پڑھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں، لیکن حسن اخلاق سے محروم ہیں۔ لوگوں کا حق کھاتے ہیں، یتیموں اور ناداروں کی خبرگیری نہیں کرتے ہیں اور دوسروں کی عزت کا خیال نہیں رکھتے ہیں؛ ایسے لوگ خود کو دیندار سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ دین اور اخلاقِ نبوی سے کوسوں دور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: تندخو اور غیظ و غضب دکھانے والے افراد جو رحم اور شفقت سے نابلد ہیں، اگر نماز بھی پڑھیں، تلات بھی کریں اور خود کو دیندار سمجھ بیٹھیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ دین اور اخلاقِ نبوی ﷺ کی بو بھی ان تک نہیں پہنچی ہے۔

اعلی اور اسلامی اخلاق انسان کی ضرورت ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اسلامی اخلاق کو انسان کی شدید ضرورت یاد کرتے ہوئے کہا: آج کی دنیا اخلاقی لحاظ سے بری طرح گرچکی ہے۔ حسن اخلاق انسان کی شدید ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ آج کے مسلمان بھی اسلامی اخلاق سے دور ہیں، حالانکہ اسلام اعلی اخلاق کی برکت سے دنیا کے کونے کونے تک پھیل گیا اور مسلمانوں کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ جوق درجوق مشرف بہ اسلام ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا: مسافروں، بیماروں اور غریبوں سے اپنی حد تک تعاون کیا کریں۔ معاشرے کے تمام افراد سے اچھا برتاو رکھیں اور اپنی اولاد اور گھروالوں سے بھی اچھائی کا معاملہ کریں۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی سے گریز کریں۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: یہ غلط سوچ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں ہمارا اخلاق تبدیل نہیں ہوسکتا۔ بہت سارے سخت مزاج اور تندخو لوگ تبدیل ہوئے اوراب وہ انتہائی اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔ برا اخلاق محنت اور دعا سے تبدیل ہوسکتاہے۔ جس طرح ہم اپنے ظاہر کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں، باطن کی بھی فکر کریں۔ تزکیہ سے غافل نہ ہوںاور لگاتار کوشش کرتے رہیں۔

امریکی پابندیاں ظالمانہ اور ناقابل قبول ہیں
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے امریکا کی جانب سے ایران پر حال ہی میں لگائی گئی پیٹرولیم اور غیرپیٹرولیم پابندیوں کو ’ظالمانہ‘ یاد کرتے ہوئے اعلی حکام سے مطالبہ کیا بحرانوں سے نجات کے لیے مناسب منصوبہ بندی کریں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: گزشتہ ہفتہ میں امریکہ کی جانب سے ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں۔ ہمارا خیال ہے یہ پابندیاں ظالمانہ اور ناقابل قبول ہیں۔ کسی ملک یا قوم پر معاشی پابندیوں کے ذریعے دباو نہیں ڈالنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: امریکا ان پابندیوں کو ذریعہ بناکر ایران میں تبدیلی لاناچاہتاہے۔ دراصل تبدیلی قوم کا حق ہے اور جب کوئی قوم ارادہ کرتی ہے، تو وہ تبدیلی ضرور واقع ہونی چاہیے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اعلی حکام اس مسئلے کا حل نکالیں اور مناسب تدبیر کریں۔ بہت سارے حکام نے اعلان کیا ہے وہ ان پابندیوں کو پیچھے چھوڑکر متبادل راستے نکالیں گے، لیکن ایک شہری کی حیثیت سے میرا خیال ہے سب سے پہلے حکمران ملک میں تبدیلی لائیں۔ ہمیں امریکا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن قوم بھی تبدیلی کے خواہاں ہے جو انتہائی اہم بھی ہیں۔ عوام کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پوری جرات کے ساتھ کہتاہوں کہ قوم کی اکثریت تبدیلی چاہتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حکام کو چالیس سال پرانی پالیسیاں اورسٹریٹجیز کو تبدیل کرنی چاہیے؛ پرانی پالیسیاں اب نہیں چل سکتی ہیں۔ ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے خدا اور خلق خدا دونوں کی رضامندی حاصل ہوسکے۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: میں جو کچھ کہتاہوں پوری ذمہ داری کے ساتھ جذبہ خیرخواہی کی وجہ سے کہتاہوں اور میری توقع ہے کہ حکمران قوم کے تمام افراد بشمول دینی مدارس اور یونیورسٹیز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی آرا و افکار کی روشنی میں قوم کو خوش کرنے کی کوشش کریں۔
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے اپنے خطاب کے آخر میں مولانا سمیع الحق کی شہادت کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: مولانا سمیع الحق پاکستان کے ممتاز علمائے کرام میں شمار ہوتے تھے جنہیں گزشتہ جمعہ انتہائی بے دردی اور سفاکانہ انداز میں شہید کیا گیا۔ اللہ تعالی ان کی شہادت قبول فرمائے۔ نیز منگل کو خراسان کے بزرگ عالم دین مولانا محمدحسن برفی انتقال کرگئے جو حقانی و ربانی عالم دین تھے۔ اللہ تعالی انہیں مکمل مغفرت نصیب فرمائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں