’نماز مسجد سمیت کہیں بھی اداکی جاسکتی ہے‘

’نماز مسجد سمیت کہیں بھی اداکی جاسکتی ہے‘

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نمازمسجدسمیت کہیں بھی اداکی جاسکتی ہے،فیصلےپرنظرثانی کی ضرورت نہیں۔
1994 میں عدالت نے فیصلہ دیاتھا کہ نماز مسجد کےساتھ ساتھ کسی بھی جگہ اداکی جاسکتی ہے، اس عدالتی فیصلے پر نظرثانی کیلئےمسلم گروپس نے درخواست دی تھی۔
مسلم گروپوں کی درخواست پر اس کیس پر10ماہ بحث جاری رہی،سپریم کورٹ نے20 جولائی کو مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا جسے آج سنادیا گیا۔
سپریم کور ٹ کا کہنا ہے کہ نمازکی ادائیگی سے متعلق1994 کےعدالتی فیصلے کا ایودھیا کیس سےتعلق نہیں۔

ایودھیا-بابری مسجد تنازعہ کیا ہے؟
ایودھیا تنازع ایک سیاسی، تاریخی اور معاشرتی کے علاوہ مذہبی بحث ہے جو بھارت میں جاری ہے۔ اس بحث کا مرکزی نقطہ ایودھیا شہر ہے جو اترپردیش کے ضلع فیض آباد میں واقع ہے۔ اس تنازع کے اہم نقاط میں ہندو بھگوان رام کی جائے پیدائش، بابری مسجد کی تاریخ اور اس کا مقام اور یہ بھی کہ آیا یہ مسجد اس جگہ تعمیر کسی مندر کو گرا کر بنائی گئی تھی، شامل ہیں۔
بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992ء کو ایک سیاسی ریلی میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں اس زمین کی ملکیت کے متعلق مقدمہ دائر کر دیا گیا تھا جس کا فیصلہ 30 ستمبر 2010ء کو آیا۔ اس مشہور فیصلے میں عدالت کے تین ججوں نے فیصلہ دیا کہ ایودھیا کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
ایک تہائی رام للا یعنی شیر خوار رام کو دی جائے جس کی نمائندگی ہندو مہا سبھا کر رہی تھی، اس جگہ مندر تعمیر ہوگا۔ ایک تہائی زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائے اور باقی حصہ ہندو مذہبی تنظیم نرموہی اکھاڑے کو دی جائے۔
تین ججوں نے اس پر متفقہ فیصلہ نہیں دیا تھا کہ یہ مسجد مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔ تاہم اس بات پر سبھی جج متفق تھے کہ اس جگہ پہلے ایک مندر یا مندر نما کوئی عمارت یہاں موجود تھی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں