روہنگیا مسلمان فریاد کس سے کریں؟

روہنگیا مسلمان فریاد کس سے کریں؟

میانمار کی ریاست راکھین میں فوجی کارروائی اور بدترین مظالم کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی بنگلادیش ہجرت کو ایک سال گزر گیا ہے، اس دوران روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی میانمار واپسی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
واضح رہے کہ ۲۵ اگست ۲۰۱۷ء کو میانمار کی ریاست راکھین میں ایسی فوجی کارروائی شروع ہوئی جسے اقوام متحدہ نسلی تطہیر سے تعبیر کرتی ہے۔ اس دوران سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں نے مجبور ہو کر اپنے گھربار چھوڑ کر پیدل اور کشتیوں کے ذریعے پڑوسی ملک بنگلادیش کا رخ کیا۔ اس بحران کے وجہ سے بنگلہ دیش پر شدید دباؤ ہے، کیونکہ کاکس بازار میں تین لاکھ سے زائد روہنگیا آباد ہوچکے ہیں، جبکہ میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ’’ان افراد کو واپس لینے کو تیار ہے، لیکن انہیں شہریت ہرگز نہیں دی جائے گی۔‘‘
انتہائی دکھ کی بات ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے برما کے مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، مگر دنیا میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں، ان پر بے بنیاد الزامات عائد کر کے قتل عام کیا گیا، ان کے مکانات، مساجد اور مدارس کو مسمار کیا گیا۔ جدید ہتھیاروں سے لیس جابر و ظالم برمی فوج اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بدقماش گروہوں نے روہنگیا بچوں کو ان ان کے والدین کے سامنے دردناک طریقے سے ذبح کیا، خواتین کی کھلے عام عصمت دری کی گئی۔ اس سے بڑا انسانی المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ دو صدی قبل ۱۸۲۳ء سے میانمار میں آباد اور اسی طرح بنگلہ دیش، بھارت اور سعودی عرب میں مقیم ۲۰ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی آج تک کسی ریاست کا شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کے تمام انسانی حقوق سلب ہیں اور مسلمان ہونے کے ناتے ان روہنگیا افراد کو میانمار کے بدھوں کی جانب سے بدترین مظالم بشمول ان کی نسل کشی اور انہیں زندہ جلانے کا سلسلہ جاری ہے۔
میانمار کے بدھسٹ روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی باشندے قرار دیتے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش بھی انہیں اپنے شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ۱۹۷۸ء میں جب میانمار کی فوج نے اقتدار سنبھالا تو جنرل نی ون کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں پر الزام لگایا کہ یہ بنگالی ہیں اور ان کی میانمار کی دھرتی پر کوئی حق نہیں۔ اس کے بعد روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے، ایسے ایسے مظالم کیے گئے کہ انسانیت بھی شرما کر رہ گئی۔ فوجی حکمرانوں کے ایماء پر غریب اور نہتے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کئی بار آپریشن ڈریگن جیسے ظالمانہ اقدامات کیے گئے، جن میں لاتعداد افراد کو شہید کردیا گیا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو کر رہ گئے ہیں، خوشیاں ان سے ہمیشہ کے لیے روٹھ گئیں اور غیرملکی ہونے کا طعنہ دے کر ان کی زمینیں ہتھیالی گئیں، تعلیم، کار و بار، سرکاری ملازمتوں اور دیگر بنیادی سہولتیں ان سے چھین لی گئیں۔ امن کے دعویدار بدھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلمان آبادی کے سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے۔ شرپسند بدھوں کے ستائے لاکھوں مسلمان بنگلادیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر مہاجر کیمپوں میں آج بھی بے یار و مددگار پڑے ہیں۔
جبکہ ان مظلوموں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں، جبکہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے بدھ مت کے پیروکار ہیں جن کے مذہب کے بارے میں یہ پرچار کیا جاتا ہے کہ یہ امن و عدم تشدد اور صلح و آشتی کا مذہب ہے۔ بدقسمتی سے میانمار تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ایک انتہائی اہم اسٹریٹجیک لوکیشن پر واقع ہے۔ جہاں چین اور بھارت اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی تگ و دو کررہے ہیں اور چین بے پناہ سرمایہ کاری کی بدولت بھارت پر حاوی ہے۔ میانمار میں چینی اثر رسوخ امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے، امریکا کی پوری کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر وہ میانمار میں ڈیرے ڈال دے، یوں نہ صرف وہاں تیل و گیس کے محفوظ ذخائر سے استفادہ کرسکے گا بلکہ چین کی ناکابندی بھی کرسکے گا۔
جبکہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر اقوام متحدہ، امریکا، یورپ اور دوسری بڑی طاقتوں نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے گونگے بہرے ہونے کا ثبوت دیا ہے اور صرف زبانی احتجاج ریکارڈ کروایا ہے، جبکہ سنگین حالات میں ضروری تھا کہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی جاتیں، کیونکہ روہنگیا مسلمانوں کو سب سے زیادہ نسلی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے کہیں جاسکتے ہیں نہ اپنی مرضی سے کام کرسکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ لوگ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کا کہا جاسکتا ہے۔ آخر میانمار کے روہنگیا مسلمان اپنی فریاد کس سے اور کیسے کریں؟ کہاں ہیں حقوق انسانی کے علم بردار؟ کہاں ہیں اقوام مسلم کے ۵۸ سے زیادہ ملکوں کے حکمران؟ یہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کہاں ہے؟ کیا ان مظلوم مسلمانوں کو دنیا میں پرامن طور پر جینے کا کوئی حق حاصل نہیں؟!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں