کفار کو تبلیغ کرنے کا بیان

کفار کو تبلیغ کرنے کا بیان

تکمیل اسلام و تبلیغ اسلام دونوں ہی کی دعوت دینا چاہئے
جب اسلام ہی دین کامل ہے تو جن لوگوں کے پاس یہ نعمت نہیں ہے ان کے پاس بھی اس کو پہونچانا چاہئے۔
کیوں کہ اول تو یہ بات مروّت و ہمدردی کے خلاف ہے کہ ایک نافع (سودمند) چیز سے خود ہی نفع اٹھایا جائے۔ اور دوسروں کو محروم رکھا جائے۔ دوسرے ہم کو شرعاً بھی اس کا حکم ہے کہ جن لوگوں کو اسلام کی خوبیاں معلوم نہیں ان کے سامنے اس کے محاسن کو بیان کریں۔
تو اب دو قسم کے لوگ ہیں: ایک وہ جن کے پاس اسلام کی نعمت ہے مگر ادھوری ہے۔ ان کو تو پورا مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس شعبہ کا نام میں تکمیل اسلام رکھتا ہوں۔
دوسرے وہ جن کے پاس یہ نعمت نہیں ہے، ان کو اسلام پہنچانا چاہئے۔ اس شعبہ کا نام میں تبلیغ اسلام رکھتا ہوں۔ اس میں بہت زمانہ سے مسلمان کوتاہی کررہے ہیں۔ اس فرض کو سب ہی نے بھلادیا، حالانکہ انبیاء علیہم السلام کا اصل کام یہی تھا وہاں پڑھنا پڑھانا اور کتابوں کا درس کہاں تھا۔
ہماری یہ حالت ہے کہ بہت لوگ تو اس کو معمولی کام سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ اس کی ضرورت و مرتبہ کو سمجھتے ہیں وہ بھی ایسی جگہ جا کر تبلیغ کرتے ہیں جہاں ان کی خاطر و مدارات ہوتی ہے۔ کفار میں جا کر کوئی تبلیغ نہیں کرتا۔ کیونکہ وہاں خاطر و مدارات کہاں۔ بلکہ بعض دفعہ تو برا بھلا سننا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے لوگ کفار کو تبلیغ کرتے ہوئے رکتے ہیں۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام: ص ۲۸۷)

کفار کو تبلیغ اسلام کرنے کی ضرورت اور اس کا طریقہ
اسلام کی خدمت قاعدے سے کرو، اس وقت تبلیغ اسلام کی سخت حاجت ہے اس کے لئے اٹھ کھڑے ہو۔۔۔ اور چونکہ اس وقت ترغیب اسلام کی سخت ضرورت ہے اس لئے لازم ہے کہ اس میں سب حصہ لیں اور اسلام کی خوبیاں بیان کر کر کے لوگوں کو اسلام سے مانوس کریں۔
علماء سے پوچھیں ہمیں کیا کام کرنا چاہئے۔ اس کا طریقہ کیا ہے اپنی رائے سے کام تجویز نہ کرو مبلغین کی خرچ میں مدد کرو مگر اپنے انتخاب سے کسی کو مبلغ مت بناؤ، علماء سے پوچھو، کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام: ص ۸۵)
اپنی بھی تکمیل کرو، اور تبلیغ بھی کرو۔ اور اس طرح کرو جیسے قرآن میں ہے، نو مسلم اور کافروں کو بھی سمجھاؤ کسی سے لڑ و بھڑو مت، مناظرہ مروجہ مت کرو۔ کیوں کہ یہ آداب تبلیغ کے خلاف ہے، اور اس سے نفع بھی نہیں ہوتا۔ اس کا تجربہ ہوچکا ہے حتی کہ غیر قوموں نے بھی اس کا تجربہ کرلیا ہے وہ بھی اب مناظروں سے کنارہ کش ہونے لگے۔ بس اسلامی مضامین کان میں ڈالے جاؤ۔ بار بار اسلام کی خوبیاں سناتے رہو، یہی طرز قرآن میں ہے جگہ جگہ فرماتے ہیں: ’’صرفنا الایات صرفنا فی ھذا القراٰن‘‘ یعنی بار بار مضامین کو دہراتے ہیں اگر ہم لوگ اس طرز کو کریں یعنی وقتا فوقتا احکام پہونچاتے رہیں تو ان شاء اللہ بہت نفع ہوگا اور اگر نفع نہ بھی ہو تو ہمارا کیا بگڑا ہم نے اپنا فرض اتار دیا جو کام ہمارے ذمہ تھا وہ ادا کردیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے سامنے اسلام کی خوبیاں بیان کرو، جنگ و جدال بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں، کیا اس کے محاسن کم ہیں جو ان کو چھوڑ کر جنگ و جدال میں مشغول ہوں، اس کے حسن ہی کے بیان کرنے سے فرصت نہیں مل سکتی، پھر لڑائی جھگڑے کی فرصت کب مل سکتی ہے۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام: ص ۸۰، ۷۶)

غیرمسلموں میں کام کرنے کی ترتیب
اسلام میں دو چیزیں ہیں: اصول و فروع، عقائد کو اصول کہتے ہیں اور اعمال کو فروغ۔ اور اس پر سب عقلاء کا اتفاق ہے کہ ہر مذہب کی خوبی کا مدار اس کے اصول کی پاکیزگی پر ہے۔ جس کے اصول پاکیزہ اور حق ہیں اس کے فروع بھی پاکیزہ ہوں گے، اس لئے مخالفین کے سامنے ہم کو سب سے پہلے اسلام کے اصول کی پاکیزگی ثابت کرنا چاہئے کیونکہ اصول عقلی ہوتے ہیں، ان پر عقلی دلائل قائم کر کے فریق مخالف پر حجت قائم کرسکتے ہیں۔ اور فروع کا عقلی ہونا لازم نہیں۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ ان کا ثبوت عقل سے ہو بلکہ بہت سے فروع سمع و نقل سے ثابت ہوتے ہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ فروع عقل کے خلاف نہ ہوں۔ سو بحمد اللہ اسلام کے اصول سب عقلی ہیں اور فروع عقل کے خلاف نہیں۔
پس سب سے پہلے کفار کے سامنے توحید و رسالت کو ثابت کیا جائے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرلیں گے تو اس کے بعد جس فرعی مسئلہ کی وہ دلیل مانگیں اس کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فلاں ارشاد سے ثابت ہے خواہ صراحۃً یا دلالۃً۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہے کہ یہ حکم عقل کے خلاف ہے تو ہمارے ذمہ اس کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہ حکم خلافِ عقل نہیں ہے کیوں کہ خلاف عقل محال ہوتا ہے یا قبیح، اور یہ حکم نہ محال ہے نہ اس میں کوئی قباحت ہے۔ (محاسن الاسلام: ص ۳۰۰)

کفار کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا طریقہ
اگر کافر سے دفعۃً (یکبارگی) یہ کہا جائے کہ اسلام لے آؤ تو اس سے گھبرا جائے گا۔ پس حق تعالی نے وعظ و تبلیغ کا طریقہ بتلایا ہے کہ نصیحت کے وقت پہلے مخاطب سے یوں کہو کہ آؤ ہم تم کو ایک سچی بات بتلائیں کہ اس عالم کا پیدا کرنے والا ایک ہے اس کے وجود کو ماننا چاہئے جب اس نے اس کو مان لیا تو اب یہ کہو کہ وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔ اس کا علم ایسا ہے۔ قدرت ایسی ہونا چاہئے۔ اس کو شرکت و مساوات اور تمام عیوب سے پاک ہونا چاہئے۔ ان باتوں کو سب مانیں گے۔
اس کے بعد اس سے کہو کہ پھر دیکھو کہ صانع عالم (دنیا کو پیدا کرنے والے) کی توحید اور تعظیم اس کی شان کے لائق کس مذہب میں ہے؟ یقیناًاسلام کے سوا کسی مذہب میں یہ بات نہیں۔ اب اس سے کہو کہ تم کو اسلام لانا چاہئے۔ کیوں کہ اسلام ہی میں ان باتوں کی بخوبی تعلیم دی گئی ہے اس طرح مخاطب کو ذرا بھی وحشت نہ ہوگی۔ اور اگر دوسرے شخص کو شرعی اصطلاحوں میں نصیحت کرو گے (مثلاً کافر سے یہ کہا جائے کہ اسلام لے آؤ) تو اس کو وحشت ہوگی۔ (التواصی بالحق: ص ۱۶۸)

موجودہ حالات میں مسلمانوں کو تبلیغ کی جائے یا غیرمسلموں کو کی جائے؟
ایک صاحب نے عرض کیا کہ یہ تو مسلم ہے کہ دینیات کی تبلیغ ضروری ہے لیکن یہ دریافت طلب ہے کہ اگر تبلیغ کی جائے تو غیرمسلموں کو (نہ کہ مسلمانوں کو) کیوں کہ یہ خیال ہوتا ہے کہ مسلمان تو جیسے بھی ہیں وہ تو کبھی نہ کبھی جنت میں پہونچ ہی جائیں گے۔ باقی رہے کفار، سو وہ ت وہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ کبھی ان کو دوزخ سے خلاصی نہ ہوگی لہذا کفار کے لئے اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ ان کو حق کی (اسلام کی) تبلیغ کی جائے۔
حضرت نے ارشاد فرمایا کہ اصل میں تو مسلموں اور غیرمسلموں دونوں ہی کو تبلیغ کی ضرورت ہے اور جیسے اصول (عقائد توحید رسالت) ضروری ہیں۔ اسی طرح فروع (احکام و مسائل) پر بھی عمل ضروری ہے تو ضرورت دونوں میں مشترک ہے گو دونوں کی ضرورت کے درجہ میں فرق ہے۔ مگر اس سے فروع کا غیر ضروری ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
البتہ اگر کوئی شخص دونوں کام نہ کرسکے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس مقام پر مسلمانوں کو تبلیغ کرنے میں اصلاح کی زیادہ امید ہے یا غیرمسلموں میں تبلیغ کرنے میں ان غیرمسلموں کا زیادہ نفع ہے؟ بس جس صورت میں مخاطبین کے نفع کی زیادہ امید ہو، اس صورت کو اختیار کرنا زیادہ اچھا ہے۔ اور نفع کی زیادہ امید کے موقع کی ترجیح میں خود اپنی رائے سے نہیں دے رہا بلکہ اس کا فیصلہ خود قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ (عبس)۔۔۔ میں ان نابینا صحابی یعنی ابن ام مکتوم کے واقعہ میں ان دونوں موقعوں کا ذکر فرمایا۔ اور ان دونوں موقعوں میں سے جس موقع میں نفع کی زیادہ امید تھی۔ اس کو ترجیح دی گئی ہے۔
یعنی سورہ عبس میں ایک تو اس موقع کا ذکر ہے جو موقع کفار کی تبلیغ کا تھا۔ کیونکہ کفار (غیرمسلموں) کے بعض سردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ان کو اصول (توحید رسالت) کی تبلیغ کی ضرورت تھی تو گو وہ موقع اصول کی تبلیغ کا تھا۔ مگر وہاں، نفع یقینی نہ تھا۔
اور دوسرا موقع ان نابینا صحابی کو تبلیغ کا تھا اور وہ یہ موقع فروع (مسائل) کی تبلیغ کا تھا۔ مگر یہاں مخاطب کے نفع کا یقین تھا، اس لئے ان نابینا صحابی کی تبلیغ کو ان کفار کی تبلیغ پر ترجیح دی گئی۔( الاضافات الیومیہ نہم جزء اول: ص ۶۶، ۶۷؍ج۹)

دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔افادات حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ، ص: ۱۸۲۔۱۸۶


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں