قانون سازی اور دور فاروقی رضی اللہ عنہ سے رہنمائی

قانون سازی اور دور فاروقی رضی اللہ عنہ سے رہنمائی

دنیا کی تاریخ بادشاہوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔
ایک سے ایک قابل اور ایک سے بڑھ کر ایک نااہل ترین حکمرانوں نے اس دنیا کی تاریخ میں اپنے نام کھرچے۔ لیکن گنتی کے چند حکمران گزرے ہیں جو بذات خود قانون ساز تھے اور انہوں نے صرف حکمرانی ہی نہیں کی بلکہ انسانیت کو جہاں قانون سازی کے طریقے بتائے وہاں قوانین حکمرانی و جہانبانی بھی بنائے۔ ایسے حکمران انسانیت کا اثاثہ تھے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب انہی حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے عالم انسانیت کو وحی الہی کے مطابق قوانین بنا کردیے اور قانون سازی کے طریقے بھی تعلیم کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمر ہوتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو سچ کر دکھایا اور حدود اللہ سے لے انتظام سلطنت تک میں اس طرح کی قانون سازی کی کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی اور علوم و معارف کی دنیاؤں میں آپ رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے قوانین ’’عمر لا (Umar Law)‘‘ کے ہی نام سے رائج و نافذ ہیں اور عالم انسانیت تک حضرت عمرؓ کا فیض عام پہنچ رہا ہے۔ دنیا کے دیگر بادشاہوں نے جو کچھ بھی قانون بنائے وہ اپنی ذات، نسل، خاندان یا اپنی قوم و ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے جبکہ حضرت عمرؓ کے بنائے ہوئے قوانین میں خالصتاً شریعت اسلامیہ کے فراہم کیے ہوئے اصول و مبادی شامل تھے۔ باقی بادشاہوں اور حضرت عمر کی قانون سازی میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ باقی بادشاہوں کے قوانین ایک دفعہ بننے کے بعد ان بادشاہوں کی انا کا مسئلہ بن جاتے، اور کوئی بادشاہ بھی ان قوانین میں تبدیلی کو اپنی انا و خودی کی تذلیل سمجھتا جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بھی اپنی قانون سازی کے برخلاف کوئی نص میسر آتی تو آپ فوراً رجوع کرلیتے اور کبھی بھی اپنی جھوٹی انا کے خول میں گرفتار نہ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کل اسلامی مکاتب فکر میں آپ کے فیصلوں کو قانونی نظیر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قانون سازی کا سب سے پہلا اصول کتاب اللہ سے استفادہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکمرانی میں متعدد گورنروں کو جو خطوط لکھے ان میں سب سے پہلے قرآن مجید سے استفادہ کا حکم لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قرآن فہمی کی سب سے عمدہ مثال ایران و عراق کی مفتوحہ زمینوں کے بارے میں آپ کا اجتہادی فیصلہ تھا۔ معروف طریقے کے مطابق ان زمینوں پر مجاہدین کا حق تھا کہ ان میں یہ زمینیں تقسیم کردی جاتیں، لیکن اگر مجاہدین بیلوں کی دم تھام لیتے اور زمینوں کی آباد کاری پر جت جاتے تو دنیا میں اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے ذریعے شہادت حق کا فریضہ پس پشت چلا جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دوربین نگاہوں نے اس کا حل قرآن مجید کے اندر سورۃ حشر کی ان آیات میں تلاش کرلیا، ترجمہ: ’’اور جو مال اللہ تعالی نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیے، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ تعالی اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط عطا فرمادیتا ہے، اور اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ جو کچھ بھی اللہ تعالی بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول ﷺ کی طرف پلٹا دے وہ اللہ تعالی، اس کے رسول ﷺ اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تا کہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ جو اور جو کچھ رسول ﷺ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ، اللہ تعالی سے ڈرو، اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔ ‘‘ان آیات سے حضرت عمر رضی اللہ نے بڑی باریک بینی سے استنباط قانون کیا اور جسے مال غنیمت یعنی جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والا مال سمجھا جارہا تھا اور جس کی تقسیم کے لیے امیرالمومنین پر بہت زیادہ دباؤ تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے مذکورہ نص قرآنی سے ’’مال فے‘‘ یعنی بغیر لڑائی کے حاصل ہونے والا مال ثابت کیا اور قرآن کے مطابق اس مال میں چونکہ بعد میں آنے والوں کا حصہ بھی شامل ہے، اس لیے مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کردیا۔
شریعت اسلامیہ میں کتاب اللہ کے بعد دوسرا سب سے ماخذ قانون سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کم و بیش دس سال مدت اقتدار میں متعدد بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث نبوی کے مل جانے پر اپنی رائے سے رجوع کرلیا تھا۔ اطاعت رسول ﷺ کی اس سے اور عمدہ مثال کوئی نہیں ہوسکتی۔ حضرت سعید بن مسیبؓ فرماتے کہ حضرت عمر نے ہاتھ کے انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ مقرر کی تھی جب کہ باقی انگلیوں کی مقدار دیت اس سے کم تھی، حضرت عمرؓ کا موقف تھا کہ انگوٹھا چونکہ زیادہ کارآمد ہوتا ہے اس لیے اس کی دیت بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ لیکن جب عمرو بن حزمؓ کے ہاں سے ایک تحریر دریافت ہوئی جس میں آپ ﷺ کے حوالے سے نقل کیا گیا تھا کہ ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے تو حضرت عمرؓ نے بلاچوں و چرا اپنی اجتہادی و قیاسی رائے سے رجوع کرلیا اور حدیث نبوی کے مطابق مقدمات کے فیصلے جاری فرمائے۔ اسی طرح جب شام کے علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور مسلمانوں کا ایک بہت بڑا لشکر حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی کمانداری میں وہاں موجود تھا تو حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے درمیان ایک نزاع چل پڑی کی لشکر کو قیام کا حکم دیا جائے یا خروج کا۔ ابھی یہ نزاع جاری تھی کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حدیث پیش کردی کی ’’جب تم سنو کہ فلاں علاقے میں وبا ہے تو تم وہاں نہ جاؤ اور اگر تمہارا قیام ایسے علاقے میں ہے جہاں وبا پھوٹ پڑی ہو تو وہاں سے مت بھاگو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبوی سن کر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور حکم نبوی کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔
مشاورت کا طریقہ اجماع امت تک پہنچنے کا بہترین راستہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں حکومت کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ مشاورت بھی تھی۔ حضرت عمر کی مشاورت دو وجوہات سے جداگانہ تھی، ایک تو ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اہل الرائے افراد کو جمع کرکے ان سے رائے لی جاتی۔ ایک اعلان کرنے والا دارالخلافہ کی گلیوں میں ’’یا ایھا الجماعۃ‘‘ کے اعلان کے ساتھ گھومتا چلا جاتا اور عمائدین ریاست مسجد میں جمع ہوجاتے۔ بہت چھوٹے چھوٹے معاملات بھی جن میں کہ حکمران کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہوتے، ان میں بھی مشاورت کی جاتی اور نتیجے کے طور پر معاملات کے حل کی متعدد سورتیں سامنے آجاتیں اور پھر اتفاق رائے یا کثرت رائے سے بہترین فیصلے تک پہنچ جایا جاتا۔ حضرت عمر کی مشاورت کی دوسری اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ خلیفہ وقت خود ایک رائے دہندہ کی حیثیت سے شریک مشورہ ہوتا تھا اور اپنی رائے کے برخلاف فیصلہ پر بھی تیوری نہ چڑھائی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ رائے دینے والے خلیفہ کے رعب و دبدبے کے باوجود کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ امیرالمومنین نہ صرف یہ کہ اپنی مخالفت پر خفگیں نہیں ہوں گے بلکہ اچھا اور صائب مشورہ دینے پر حکمران وقت اپنی رائے واپس بھی لے لے گا اور کسی طرح کی بدمزگی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس رویے نے ان کے دور حکومت کو چار چاند لگائے۔
دور فاروقی میں جب مے نوشی کے کچھ واقعات وقوع پذیر ہونے لگے تو اگر چہ حضرت عمرؓ خود کوئی بھی حکم دے کر اس کا سدباب کرسکتے تھے لیکن انہوں صحابہ کبار کو مشورے کے لیے بلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حالت مخمور میں ہذیان بکنے والے کے منہ سے بہتان تراشی کے اندیشے پر قیاس کرتے ہوئے حدقذف کے اجرا کی سفارش کی۔ کل صحابہ نے اس رائے سے اتفاق کیا جس سے شراب نوشی کی حد کو حدقذف سے ہی محدود کردیا گیا یعنی اسی درے۔ اس طرح یہ مسئلہ بھی اجماع صحابہ سے طے کرلیا گیا۔ سلطنت ایران کے ساتھ جہاد کے وقت حضرت عمر کی شدید خواہش تھی کہ وہ خود اس جنگ کی قیادت کریں، اس لیے کہ شرق و غرب کے کل عساکر اسلامیہ اس جنگ میں جھونک دیے گئے تھے، ناکامی کی صورت میں زوال کلیہ کا مکروہ چہرہ دیکھنے کا امکان تھا چنانچہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر حضرت عمر خود افواج اسلامیہ کی کمانداری کرنا چاہتے تھے لیکن اس موقع پر بھی اجتماعی مشاورتی رائے کے سامنے حضرت عمر نے سپر ڈال دی کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ مرکز خلافت کو کسی صورت خالی نہ چھوڑا جائے۔ ایک بار جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو گشت کررہے تھے تو ایک گھر سے فراق کے نغموں کی نسوانی آوازی آئی۔ اگلے دن تحقیق کی تو معلوم ہوا اس عورت کا شوہر محاذ جنگ پر گیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ شوہر کے بغیر چارماہ تک عورت صبر کرسکتی ہے۔ حضرت عمر نے اسی وقت یہ حکم جاری کیا کہ چار ماہ کے بعد ہر فوجی کو رخصت پر گھر بھیجا جاتا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ذاتی قیاس و اجتہاد سے بھی قانون سازی کرتے تھے، لیکن اجتہاد کایہ عمل قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کی حدود کے اندر ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذمیوں پر قابل برداشت ٹیکس عائد کیا اور جو ذمی بوڑھا ہوجاتا اور ٹیکس دینے کے قابل نہ رہتا تو حضرت عمر سرکاری بیت المال سے اس کا وظیفہ بھی مقرر فرمادیتے تھے۔ حضرت عمرؓ کی اجتہادی رائے تھی جب بھوکے غلاموں نے اونٹنی چوری کر کے کھائی تو ان غلاموں کی حد ساقط کردی اور ان کے آقا سے دو گنا تاوان وصول کیا۔ اسی طرح نو مفتوحہ علاقوں میں حدود اللہ کے اجراء کو علم سے مشروط کردیا تھا یعنی حدود سے لاعلم شخص پر حد جاری نہیں کی جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو خط لکھا کہ پہلے حدود اللہ کے بارے میں لوگوں کو بتاؤ اور اس کے بعد اگر کوئی ارتکاب جرم کرتا ہے تو اس پر حد جاری کرو۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے یہ اصول قانون سازی آج بھی زندہ ہیں اور لوگ آسمان رسالت کے اس چمکتے دمکتے ستارے سے آج بھی روشنی حاصل کررہی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں