‘امریکا نے شام میں رہائشی علاقوں پر کیمیائی ہتھیار داغے‘

‘امریکا نے شام میں رہائشی علاقوں پر کیمیائی ہتھیار داغے‘

روس نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا نے شام کے مغربی حصے میں رہائشی علاقوں پر کیمیائی ہتھیار وائٹ فاسفورس استعمال کیے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماسکو کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں قائم ملٹری ہدف کو عالمی سطح پر ممنوعہ کیمیکل وائٹ فاسفورس بطور ہتھیار استعمال کی گیا۔
روسی جنرل ولادی میر اسیکچنکو کے مطابق ’دو امریکی جنگی طیارے ایف 15 نے 8 ستمبر کو ہجنم نامی علاقے پر حملے کیے جس میں وائٹ فاسفورس شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’کیمیائی ہتھیار کے نتیجے میں شدید آگ بھڑک اٹھی اور اس ضمن میں اموات اور زخیموں سے متعلق معلومات کی تصدیق کی جاری ہے‘۔
واضح رہے کہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) مذکورہ علاقے میں اپنا اثر ورسوخ رکھتی ہے۔
شام میں جاری بحران پر قابوپانے کے لیے ترکی، ایران اور روس کے سہ ملکی اجلاس میں جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے کے بعد روسی اور شامی جنگی طیاروں نے مخالفین کے زیرِ قبضہ صوبے ادلب پر پھر شدید بمباری کی تھی۔
ادلب میں کیے گئے حملوں سے متعلق عینی شاہدین اور ریسکیو اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ادلب کے جنوبی علاقوں،شمالی صوبے ہاما کے علاقوں کفر زیتا اورلاتمنا میں ایک درجن سے زائد فضائی حملے کیے گئے۔
امریکا عالمی اتحاد کی سربراہی کرتے ہوئے کردش اور عرب جنگجوؤں کی مدد کررہا ہے۔
دوسری جانب روسی فوج شام کے صدر بشارالسد کی حمایت میں 2015 سے مداخلت کررہا ہے۔
سماجی اداروں نے بھی روس نے شام کے مغربی علاقوں میں باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ دوسری جانب ماسکو نے الزام کو ’شرمناک چھوٹ‘قرار دیا تھا۔
خیال رہے کہ جینیوا کنونشن کے مطابق وائٹ فاسفورس کا اسعتمال ممنوع ہے۔
ایران اور روس نے مغربی حمایت یافتہ باغیوں اور مسلح اسلامی گروہوں کے خلاف جنگ میں بشار الاسد کی مدد کی ہے جبکہ یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ شام میں موجود مخالفین کا سب سے بڑا حامی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام میں بڑے پیمانے پر حملے سے انسانی بحران جنم لے سکتا ہے جس میں لاکھوں شہری متاثر ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ادلب کے علاقوں میں ہزاروں شامی شہریوں نے احتجاج کیا تھا کہ وہ بشار الاسد کی حکمرانی کو کبھی قبول نہیں کریں گے اورحکومت مخالف علاقوں میں کیے جانے والے آپریشن کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں