قربانی اورہماری بعض کوتاہیاں

قربانی اورہماری بعض کوتاہیاں

قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے ،ہمارے جد امجد سیدناابراہیم علیہ الصلاة والسلام کی یادگارہے ،عشق وسرمستی کا بہترین مظہر ہے، جانثاری ووفاشعاری کا جلی عنوان ہے ،قربانی عشق خداوندی کی دبی ہوئی چنگاری کو شعلہ زن کرتی ہے ،عقل ناتمام کی کثافتوں کو دورکرتی ہے ،جودوسخااورغرباء پروری جیسی عظیم صفت سے آراستہ کرتی ہے ،خودغرضی ،نفس پرستی ، حرص وبخل جیسے اخلاق رذیلہ کے لیے تریاق مہیا کرتی ہے،خدائے ذوالجلال کے مختار کل اورقادر مطلق ہونے کاعقیدہ ذہن ودماغ میں نقش کرتی ہے ،عبادت وبندگی اوراطاعت شعاری کا سبق سکھاتی ہے ، قبول وطاعت اورحکم خداوندی کے سامنے بلاچون وچرا ،سرتسلیم خم کرنے کاجذبہ مضبوط ومستحکم کرتی ہے ۔

یہ امت مسلمہ کابڑاالمیہ ہے کہ اس نے عبادتوں کومحض ایک رسمی چیزسمجھ لیاہے، نماز ہو یاروزہ ،زکاةہویاحج، تمام عبادتوں کومحض ایک رسم کی طرح انجام دیاجارہاہے،جس کی وجہ سے وہ عبادتوں کے انواروبرکات اور فیوض سے محروم رہتے ہیں،دوسری طرف وہ عبادتوں میں دانستہ یانادانستہ کوتاہیاں کرتے ہیں اوراس کے آداب وشرائط کاکماحقہ لحاظ نہیں کرتے ہیں،کچھ یہی حال قربانی کابھی ہے،آج کے اس الحاداوردین بیزاری کے دورمیں نام ونموداورسستی شہرت حاصل کرنے کارحجان روزافزوں ہے، مسلمان ایک نیک عمل کرتاہے اوراس کی تمنایہ ہوتی ہے کہ اس کی آواز اور اس کی تگ وتازمشرق سے مغرب تک پہنچے اورلوگ اس پرخراج تحسین پیش کریں،اسی نمائشی رجحان کے پیش نظرکچھ لوگ کافی مہنگااورقیمتی جانور مثلاڈیڑھ دولاکھ کابکرایاتین چارلاکھ کابڑاجانورخریدتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیااورپرنٹ میڈیاکے ذریعہ اس کی خوب تشہیرکرتے ہیں، ظاہرہے کہ جوعمل نام ونموداورلوگوں سے تعریفی وتوصیفی کلمات سننے کے لیے کیا گیاہواللہ کے نزدیک اس عمل کی کوئی وقعت نہیں ہے اورقیامت کے دن وہ عمل اس کے لیے سراب محض ثابت ہوگا،اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں کسی عمل کے مقبول ہونے کے لیے اخلاص اورحسن نیت اولین شرط ہے،اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے:﴿فاعبد اللہ مخلصالہ الدین﴾․(الزمر:۲)آپ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے رہیے۔ایک دوسری جگہ ارشادربانی ہے:﴿فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاء َ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہِ أَحَدًا﴾(الکہف :110)جوشخص اپنے رب سے ملنے کی آرزورکھتاہے اس کوچاہیے کہ وہ نیک کام کرتارہے،اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کوشریک نہ کرے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی متعددجگہ اخلاص اورحسن نیت کی تاکیدفرمائی ہے،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إنماالأعمال بالنیات“(بخاری ،حدیث نمبر:1)اعمال کادارومدارنیتوں پرہے۔ایک روایت میں آتاہے:”فمن عمل منہم بعمل الآخرة للدنیا فلیس لہ فی الآخرة من نصیب“․(الترغیب والترہیب،حدیث نمبر:6)جومسلمان کوئی عمل صالح دنیا کے لیے کرے گاآخرت میں اس کاکوئی حصہ نہیں ہوگا۔

قربانی کے لیے قیمتی جانورکاانتخاب شریعت اسلامیہ میں مطلوب اور محمودہے، اورمنڈیوں میں جاکرفربہ اورخوب صورت جانور…جوعام جانوروں سے کچھ مہنگا ہوتا ہے …خریدنامستحسن اورقابل تقلیدعمل ہے،لیکن جانورمیں غیر مطلوب اوصاف مثلااس پراللہ یامحمدلکھاہونااس کی وجہ سے ڈیڑھ دولاکھ میں خریدنااوراس کی تشہیرکرناعبادت کی روح کے خلاف ہے اوراللہ تبارک وتعالی کے غصہ اورناراضگی کاسبب ہے۔

کچھ لوگ قربانی جیسے عظیم الشان عمل کوایک بوجھ اورآفت جان سمجھ کراداکرتے ہیں،قربانی کی وسعت اورطاقت ہونے کے باوجودوہ قربانی خوش دلی سے نہیں کرتے ہیں،ظاہرہے کہ یہ ایک افسوس ناک اورغم انگیزپہلوہے،حقیقت یہ ہے کہ مسلمان طاؤس ورباب کی محدوداورجزوقتی لذتوں میں اتنا کھوگئے ہیں کہ آخرت کوسنوارنے کی فکراوراعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ جل شانہ کاتقرب حاصل کرنے کاجذبہ دن گزرنے کے ساتھ سردپڑتاجارہاہے،فرائض اورواجبات میں سستی وسہل انگاری بڑھتی جارہی ہے،جس کی وجہ سے عبادتوں کوایک ناقابل برداشت بوجھ اوربلائے جاں سمجھ کراداکیا جارہاہے ،یہ لوگ غیرشرعی اورغیراسلامی رسوم ورواج میں نام ونموداورجھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں،لیکن جب نیک کاموں میں خرچ کرنے کاموقع آتاہے توطرح طرح کے حیلے اوربہانے ڈھونڈلیتے ہیں اورخرچ بھی کرتے ہیں توبادل ناخواستہ اورچیں بجبیں ہوکر،آپصلی الله علیہ وسلم نے خوش دلی اورنیک نیتی کے ساتھ قربانی کرنے کی تاکیدفرمائی ہے،چناں چہ حدیث میں آتاہے:”ماعمل آدمی من عمل یوم النحرأحب إلی اللہ من إہراق الدم ،إنہ لیأتی یوم القیامة بقرونہا وأشعارہا وأظلافہا وأن الدم لیقع من اللہ بمکان قبل أن یقع علی الأرض فطیبوا بہا نفسا․“(ترمذی ، حدیث نمبر:1493)

ایام قربانی میں اللہ کوقربانی سے زیادہ کوئی عمل محبوب اورپسندیدہ نہیں ہے،قیامت کے دن قربانی کرنے والاشخص جانورکے سینگ، بال اوراس کے کھرکے ساتھ حاضرہوگا، قربانی کے جانورکاخون زمین پرگرنے سے پہلے اللہ کے دربارمیں پہنچ جاتاہے،توتم اس (عظیم الشان تحفہ)سے خوش ہوجاؤ،ایک روایت میں آتاہے:جس شخص نے خوشی کے ساتھ ثواب کی امیدرکھتے ہوئے قربانی کی اس کے لیے قربانی دوزخ کی آگ سے آڑہوگی۔(طبرانی)

ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم قربانی اپنے جدامجدسیدناابراہیم علیہ الصلاة والسلام کی یادگاراورحضورصلی الله علیہ وسلم، صحابہ اورتابعین کی سنت سمجھ کرخوش دلی کے ساتھ اداکریں اوراس پراللہ جل شانہ سے ثواب اوراخروی اجرکی امیدرکھیں اوراس کوجہنم کی سختیوں اور ہول ناکیوں سے بچنے کاوسیلہ سمجھیں۔

قربانی کے حوالہ سے ایک غلط فہمی بعض لوگوں میں یہ پائی جاتی ہے کہ وہ ایک گھرکے تمام افرادکی طرف سے ایک جانورکی قربانی دیناکافی سمجھتے ہیں،یہ ایک شدیدقسم کامغالطہ اورسخت جہالت کی بات ہے،گھرکے جتنے افرادصاحب نصاب ہیں اورقربانی دینے کی وسعت رکھتے ہیں توان کوعلاحدہ علاحدہ قربانی دیناضروری ہے،گھرکے کسی ایک فردنے قربانی دے دی توباقی صاحب نصاب حضرات فریضہ قربانی سے سبک دوش نہیں ہوں گے،آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:”من کان لہ سعة فلم یضح فلایقربن مصلانا“(ابن ماجہ ، حدیث نمبر:3123)جوشخص صاحب وسعت ہواورقربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ایک حدیث میں آتاہے کہ ایک صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ، اورانہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!میرے ذمہ ایک بدنہ (اونٹ،بیل ،گائے وغیرہ)کی قربانی واجب ہے اورمیں صاحب وسعت ہوں، لیکن بازارمیں بدنہ دست یاب نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اس کے بدلہ میں تم سات بکریاں خریدکرقربانی دو۔“(ابن ماجہ ،حدیث نمبر:3136)ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ گھرکے تمام افرادکی طرف سے ایک جانورکی قربانی دینا کافی نہیں ہے، اگرایک جانورکی قربانی دیناہی کافی ہوتاتوآپ صلی الله علیہ وسلم صحابی کوبدنہ …جس میں سات لوگ شریک ہوسکتے ہیں…کے بدلہ میں سات بکریاں خریدکرقربانی کرنے کاحکم نہیں دیتے،دراصل بعض لوگوں کوحضرت ابوایوب انصاری کی اس روایت سے دھوکہ ہواہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ عہدرسالت میں بعض صحابہ کرام اپنی طرف سے اوراپنے گھروالوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی دیتے تھے اورسب اسے کھاتے تھے،(ترمذی شریف،حدیث نمبر:1505) حالاں کہ اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص نفلی قربانی کررہاہے اوراپنے گھروالوں کو اجروثواب میں شریک کرناچاہتاہے تواس کی گنجائش ہے،یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ ایک واجب قربانی گھرکے سارے صاحب نصاب افرادکی طرف سے کافی ہوجاتی ہے۔

قربانی کے تعلق سے ایک کوتاہی عام طورپریہ پائی جاتی ہے کہ جہاں اجتماعی طورپرقربانی کانظم ہوتاہے اوروہاں بڑے جانوروں کے حصہ کی قیمت متعین کردی جاتی ہے لوگ اس میں حصہ لے لیتے ہیں اورجس دن ان کے حصہ کے جانورکی قربانی ہوتی ہے اس دن مقام قربانی میں حاضرہونے کی زحمت گوارانہیں کرتے ہیں،حالاں کہ مقام قربانی پرموجودرہناصاحب قربانی کے لیے مستحب ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا:”یافاطمة! قومی فاشہدی أضحیتک؛ فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب․“(الترغیب والترہیب،حدیث نمبر:355) اے فاطمہ! تم کھڑی ہوجاؤاوراپنی قربانی کے پاس موجودرہو؛ کیوں کہ جیسے ہی قربانی کے جانورکے خون کاپہلاقطرہ زمین پرگرے گاتمہارے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔اس لیے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ قربانی کاجانورہم خوداپنے ہاتھوں سے ذبح کریں، اوراگریہ ممکن نہ ہوتوکم ازکم قربانی کے وقت موجودرہیں۔

قربانی کے آداب میں یہ بات بھی داخل ہے کہ جانورکو ذبح کرنے سے پہلے چھری کوتیزکرلیاجائے، چھری کوجانورکے سامنے تیزنہ کیا جائے، اورایک جانور کودوسرے جانوروں کے سامنے ذبح نہ کیا جائے،آپ صلی الله علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:”إن اللہ کتب الإحسان علی کل شي ء فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، ولیحد أحدکم شفرتہ فلیرح ذبیحتہ․“ (صحیح مسلم،حدیث نمبر:1955) اللہ تبارک وتعالی نے ہرچیزاچھے طریقہ سے انجام دینے کاحکم دیاہے،لہٰذاجب تم قتل کروتواچھی طرح قتل کرواورجب تم ذبح کروتواچھی طرح ذبح کرو،چناں چہ (ذبح کرنے سے پہلے )اپنی چھری تیزکرلواورجانورکوآرام پہنچاوٴ،لیکن عام طور پر قربانی کے موقع پران آداب سے کوتاہی برتی جاتی ہے،وہ مراکزجہاں اجتماعی قربانی کانظم ہوتاہے وہاں عموماان آداب کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، کندچھری سے ذبح کرنا،جانورکے سامنے چھری تیز کرنا اور جانورکودوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرناعام سی بات ہے،ضرورت ہے اس بات کی کہ جہاں اجتماعی قربانی کانظم ہوتاہے وہاں ارباب انتظام قربانی کواس کے تمام آداب کے ساتھ انجام دینے کویقینی بنائیں اورعلمائے کرام کے زیرنگرانی اجتماعی قربانیوں کانظم کریں۔

قربانی کے جانورکامسنہ ہوناضروری ہے،یعنی اونٹ پانج برس کا،گائے،بیل ،بھینس دوبرس کی اوردنبہ ،بکری ،بھیڑایک برس کی ہوناضروری ہے،اس سے کم عمروالے جانورکی قربانی کرنادرست نہیں ہے،البتہ دنبہ چھ ماہ کااس قدرفربہ ہوکہ سال کادنبہ معلوم ہوتاہوتواس کی قربانی کی گنجائش ہے،آج بہت سے لوگ قربانی کاجانورخریدتے ہیں اورجانورکی عمرکاصحیح اندازہ کیے بغیرخریدلیتے ہیں،حالاں کہ فقہاء نے قربانی کے جانورکی جو عمر بیان کی ہے اس سے اگرایک دن بھی کم ہوتوقربانی درست نہیں ہوتی ہے،اس لیے ضرورت ہے اس بات کی کہ صرف تاجراوربیوپاری حضرات کی باتوں پراعتمادکرکے نہ خریدیں، بلکہ اپنے طورپرجانورکی خوب چھان پھٹک کرلیں، جن حضرات کوجانورکی صحیح عمرجاننے کاتجربہ ہوتاہے ان کے ساتھ جاکرقربانی کاجانورخریدنے کااہتمام کریں۔

ایک کوتاہی عمومایہ دیکھنے میں آئی ہے کہ قربانی کی کھال قصائی کوبطوراجرت دے دی جاتی ہے،قربانی کی کھال قصائی کواجرت میں دیناکسی صورت میں جائزنہیں ہے،اگرکسی نے قربانی کی کھال قصائی کواجرت میں دے دی تواس کھال کے بقدرقیمت کاصدقہ کرناواجب اورضروری ہے،اسی طرح عمومایہ دیکھنے میں آیاہے کہ ارباب مساجدچرم وصولی کی مہم چلاتے ہیں اورقریہ قریہ گھوم کرقربانی کی کھال وصول کرتے ہیں،حالاں کہ قربانی کے کھال کامصرف وہی ہے جوزکاة کامصرف ہے،جن مصارف میں زکاة کی رقم خرچ کرنادرست ہے ان مصارف میں قربانی کی کھال کی رقم خرچ کرنابھی درست ہے،مساجدکی تعمیر،اسی طرح ائمہ وموٴذنین کی تنخواہوں میں زکا ة کی رقم صرف کرناکسی بھی صورت میں درست نہیں ہے،اسی لیے مساجدکی کمیٹی کوہرگزہرگزقربانی کی کھال نہ دیں،قربانی کی کھال کابہترین مصارف مدارس دینیہ ہیں ،جہاں غریب اورنادارطلبہ کی ایک معتدبہ تعدادہوتی ہے،مدارس دینیہ کوقربانی کی کھال دینادوہرے اجرکاباعث ہے، اس سے جہاں غریب اورمفلس طلبہ کاتعاون ہوگا وہیں یہ اشاعت علم دین کاذریعہ اورسبب ہوگا، یاقربانی کی کھال کے حق دار وہ رفاہی ادارے ہیں جن کی بنیاد غریبوں اوربے سہارالوگوں کی امداداوران کے تعاون پررکھی گئی ہے،ایسے رفاہی ادارے کوبھی مضبوط اومستحکم بناناہماری شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے۔

قربانی کے ایام میں ایک کوتاہی عام طورپریہ دیکھنے میں آئی ہے کہ جانورکاخون اوراس کاپیشاب پاخانہ نالہ میں بہادیاجاتاہے،جانورکی انتڑیاں اورفضلات کو گھرکے قریب کسی کوڑے دان یاعام شاہ راہوں پر ڈال دیاجاتاہے،جس کوکتے اورپرندے کھینچ کھینچ کرادھرادھربکھیردیتے ہیں، اورہواکے دوش پرغلاظت وگندگی کے ذرات منتشرہوکرپورے شہرکوجہنم زاربنادیتے ہیں اوراس کی وجہ سے جوبدبواورتعفن پھیلتی ہے کہ الامان والحفیظ، بدبوکی وجہ سے عام گزرگاہوں پرچلنے والوں کادماغ مکدرہوتاہے، اورانہیں عجیب سی گھٹن محسوس ہوتی ہے،غلاظت اورگندگی کی وجہ سے نہ صرف وقتی طورپرلوگوں کوتکلیف ہوتی ہے؛بلکہ اس کی وجہ سے مہلک جراثیم بھی جنم لیتے ہیں جومختلف پیچیدہ بیماریوں کاسبب بنتے ہیں،اسلام ایک نفاست پسنداورپاکیزہ مذہب ہے،صفائی وستھرائی اسلام اورمسلمانوں کانشان امتیازہے،طہارت وپاکی کوآدھاایمان قراردیاگیاہے،طہارت وپاکیزگی پرشریعت اسلامیہ نے جس قدرزوردیاہے اوراس کااپنے پیروکاروں کو پابند بنایا ہے اس کی نظیرکسی اورمذہب میں نہیں ملتی ہے،لیکن اسے ہماری بدقسمتی اورشوربختی کہیے کہ ہم نے اس اسلامی تعلیم کوعملافراموش کردیاہے، اورہمارے اخلاق وعادات کوغیرمسلموں نے اختیارکرلیاہے،ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم اس بھولے ہوئے سبق کویادکریں اوراپنی عملی زندگی کے اندراس کونافذکرنے کی کوشش کریں،جانورکی غلاظت ،گندگی اوراس کے فضلات کوزیرزمین دفن کرنے کااہتمام کریں،اس سے نہ صرف معاشرہ مہلک جراثیم اوراس کے نتیجہ میں نت نئی بیماریوں سے محفوظ رہے گا؛بلکہ اس سے برادران وطن پرصالح اورخوش گواراثرمرتب ہوگااوراسلام کے حسین اوردل کش چہرے پرمسلمانوں کی عملی کوتاہی اورپست اخلاقی کی وجہ سے جودھول چڑھ گئی ہے وہ بھی صاف ہوگی اوردعوت دین کے لیے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔

یہ عجیب المیہ ہے کہ موجودہ دورمیں تمام عبادتیں ایک رسم کی حیثیت اختیارکرگئی ہیں ،نمازجیسی عظیم الشان عبادت ہوکہ روزہ جیساعظیم مجاہدہ،عام طورپرمسلمان ایک رسم کی طرح اسے انجام دیتے ہیں،نماز اورروزے کی فرضیت کااصل مقصدکیا ہے؟ اس عبادت کو اداکرنے سے زندگی میں کیسی تبدیلی آنی چاہیے ؟اس پہلوسے عام غفلت برتی جارہی ہے ، کچھ یہی حال قربانی کاہے ، ذی الحجہ کا چاندطلوع ہوتاہے، لوگ منڈیوں سے جانورخریدلاتے ہیں اورعیدقرباں کے ایام میں اسے قربان کردیتے ہیں اوربس ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قربانی کی مشروعیت کامقصد یہ ہے کہ انسان کے اندراطاعت شعاری کاجذبہ بیدارہوجائے، حکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا آسان اورسہل ہوجائے ، نفسانی خواہشات سے لوہالینے کی صلاحیت پیداہوجائے،دین کی خاطرجان وما ل قربان کردینے میں کوئی جھجک محسوس نہ ہو، ضرورت ہے کہ اس بات کی کہ ہم قربانی جیسی عظیم الشان عبادت کو محض رسم کی طرح انجام نہ دیں؛بلکہ قربانی کی حقیقت اوراس کی روح کو مدنظررکھیں اورصفات حسنہ ایثاروہم دردی ،جود وسخااورغربا نوازی کو اپنی زندگی کے اندرلانے کی کوشش کریں۔

اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ ہماری قربانیوں کوقبول فرمائے ، اوراس کوہمارے لیے ذخیرہٴ آخرت بنائے اورقربانی کے فیوض وبرکات سے ساری امت مسلمہ کومتمتع اورفیض یاب فرمائے۔آمین ثم آمین!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں