قربانی … قرب الہٰی کا بہترین ذریعہ

قربانی … قرب الہٰی کا بہترین ذریعہ

قربانی صرف اُمت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتیں بھی اس سے برابر کی مستفید ہوتی رہیں۔ یہ اور بات ہے کہ طریقہ کار اور ادائیگی کی صورت کچھ اس سے مختلف تھی۔ مگر اتنی بات تو پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ قربان ( قربانی) الله تعالیٰ کے تقرب کا انتہائی مستند اور مفید ذریعہ ہے، خواہ وہ ذبیحہہو یا اور کوئی چیز۔

قرآن مجید میں بھی ایک مقام پر آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل کی قربانی کا تذکرہ فرماتے ہوئے الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ﴾ ․(مائدہ)

جب کہ دونوں نے ایک نذر پیش کی اور ان میں سے ایک کی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی شریعت میں بھی قرب الہیٰ کا معیار یہی تھا۔ مگر اس کی صورت کچھ مختلف تھی( کہ بارگاہ الہٰی میں مقبول قربانی کو آگ کھا جاتی تھی)۔

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی بارگاہ الہی میں تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کی، جس پر الله تعالیٰ نے انہیں قبول فرمانے کے بعد﴿وفدیناہ بذبح عظیم﴾ کی عظیم بشارت سے سرفراز کیا اور یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اس کو برقرار رکھ چھوڑا، یہاں تک کہ سید البشر سرور کونین صلی الله علیہ وسلم کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کیا، چناں چہ ارشاد باری ہے:﴿فصل لربک وانحر﴾سو نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر۔ اس پر ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ :” تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے نماز عید اور قربانی مراد ہے۔“ (مرقاة:2/262)

یعنی نبی کرم صلی الله علیہ و سلم کو (شکرانہ کے طور پر ) نماز کے بعد دوسری تمام عبادات سے زیادہ قربانی کی تاکید فرمائی گئی ہے، کیوں کہ تقرب الہٰی کے حصول کے لیے عبادات بدنیہ میں سے نماز اور عبادات مالیہ میں سے قربانی کو جو امتیازی مقام حاصل ہے وہ دوسروں کو نہیں۔ کیوں کہ قربانی کی اصل حقیقت، جان کا قربان کرنا تھا او رجانور کی قربانی کو بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بنا پر اس کے قائم مقام کر دیا گیا۔چناں چہ حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے عرض کیا! یا رسول الله! ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے روحانی اور نسلی باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، پھر انہوں نے عرض کیا یا رسول الله! ہمارے لیے ان میں کیا اجر ہے؟

آپ نے فرمایا کہ (قربانی کے جانور کے) ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ پھر انہوں نے عرض کیا۔ اُون کا بھی یہی حساب ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں اُون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح سے ملے گا کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ (کنزالعمال:5/239)

قربانی کی فضیلت
حضرت عائشہ صدیقہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بطیب خاطرقربانی کیا کرو، کیوں کہ جو مسلمان اپنی قربانی کو ( ذبح کرنے کی خاطر) قبلہ رولٹاتا ہے۔ تو اس کا خون، لید اور اون ، تمام کے تمام (بارگاہ الہٰی میں قبول ہوجاتے ہیں) اور قیامت کے روز نیکیوں کی صورت میں اس کے نامہ اعمال کے پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ تم تھوڑا سا خرچ کر لو، بہت سارا اجر پاؤ گے، بے شک ابھی (قربانی) کا خون زمین پر نہیں گرتا کہ الله تعالیٰ اسے محفوظ فرما لیتے ہیں، حتی کہ قیامت کے دن اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ( مصنف عبدالرزاق:4/388)

حضرت علی سے مروی ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا! اے فاطمہ! اٹھ کر اپنی قربانی کے قریب ہو جا! کیوں کہ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس (قربانی) کے خون کا پہلا قطرہ (زمین پر گرنے نہ پائے گا کہ تیرے تمام گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی۔ پس اس کے گوشت او رخون کو ستر گنا بڑھا کر تمہارے نامہ اعمال کے پلڑے میں رکھا جائے گا۔ اس پر حضرت ابو سعید خدری نے عرض کیا کہ یا رسول الله! یہ صرف آل محمد کا خاصہ ہے؟ کیوں کہ وہ اس خصوصیت ( خیر) کے اہل بھی ہیں یا پھر عام ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ صرف آل محمد صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں ، بلکہ عام لوگ بھی اس میں شامل ہیں ۔ ( کنزالعمال:5/221، بیہقی)

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذو الحجہ کی دسویں تاریخ، یعنی عید الاضحی کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل الله تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں او ر کُھروں سمیت (زندہ ہو کر ) آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے الله تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ پس اے بندگان خدا! نشاط قلبی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی:1/1820، ابن ماجہ:222)

اس پر ملا علی قاری لکھتے ہیں:
”أفضل العبادات یوم العید إراقة دم القربان، وإنہ یأتی یوم القیامة کما کان فی الدنیا من غیر نقصان شیء لیکون بکل عضو منہ أجر، ویصیر مرکبہ علی الصراط، وکل یوم مختص بعبادة، وخص یوم النحر بعبادة فعلہا إبراہیم علیہ الصلاة والسلام من التضحیة والتکبیر، ولو کان شیء أفضل من ذبح الغنم فی فداء الإنسان لما فدی إسماعیل – علیہ الصلاة والسلام بذبح الغنم․“

عید کے روز تمام عبادات سے افضل (عبادت) خون بہانا ہے اور وہ (قربانی) بغیر کسی نقصان کے قیامت کے دن لائی جائے گی، جس کے ہر ہر جز کے بدلہ میں اجر دیا جائے گا اور پل صراط پر اس کے لیے سواری کا کام دے گی۔ نیز ہر عبادت کے لیے کوئی نہ کوئی دن مخصوص ہوتا ہے ،مگر عید کا دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (قربانی) اور تکبیر کے لیے مخصوص ہے، کیوں کہ اگر اس دن بکری کی قربانی سے کوئی چیز افضل ہوتی ہو تو خون اسماعیل کے بدلہ میں بکری ذبح نہ کی جاتی۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھاونی نور الله مرقدہ وقدس سرہ قربانی کے فضائل بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :” خلاصہ یہ ہے کہ یہ پانچ چیزیں فضائل مختصہ کے اسباب ہوتے ہیں، حقیقت، زمان ، مکان، غایت، بانی… اور جاننا چاہیے کہ کوئی عبادت بجز قربانی کے ایسی کم ہو گی کہ اس میں پانچ وجہ فضیلت کی موجود ہوں، غالباً قربانی ہی ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں یہ پانچوں وجہ فضیلت کی مجتمع ہیں۔ (مواعظ اشرفیہ، سلسلہ تہذیب کا ساتواں وعظ:121)

دوسری وجوہ فضیلت بیان فرمانے کے بعد قربانی کی فضیلت مکانی اور غایت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
”رہ گیا بانی وبادی کا شرف، سو اس کی نسبت یہ ہے کہ حدیث میں آیا ہیقالوا: ما ہذہ الاضاحی یا رسول الله قال سنة ابیکم ابراہیم“ یعنی صحابہ نے کہا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم کا طریقہ ہے۔ سنة ابیکم ابراہیم میں ایک عجیب لطیفہ ہے ،وہ یہ ہے کہ قربانی کو ابراہیم علیہ السلام کی سنت فرمایا، حالاں کہ ان کا فعل ذبح ولد ہے اور ہمارا فعل ذبح البقرہ ہے جب تغائر ہوا تو پھر اضاحی کو سنت ابراہیم کہنا کیسے صحیح ہوا ؟او راگر کوئی کہے کہ انہوں نے تو بکری کو ذبح کیا تھا، بیٹے کو کہاں ذبح کیا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ انہو ں نے تو قصداً بیٹے کو ہی ذبح کیا تھا، چناں چہ چھری چلا ہی دی تھی، لیکن حق تعالیٰ نے بجائے ان کے مینڈھے یابکری کو قائم مقام کر دیا۔ پس سنت ابراہیم تو اضاحی اس وقت ہوں جب کہ ہم ہی اپنی اولا دکو ذبح کریں، پھر سنت ابراہیم جو اس کو فرمایا تو نکتہ یہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ تم کو اس عمل کا ثواب اتنا ہی ملتا ہے جس قدر کہ ان کو ذبح ولد پر ملا تھا۔ اول تو ذبح ولد ہی ایک بہت بڑا عمل ہے ،دوسرے یہ کہ براہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کا ذبح کہ اس عمل پر ثواب بھی بے انتہا ہو گا توگویا ا رشاد ہے کہ تم کو اس عمل پر وہی ثواب ہو گا جس قدر کہ ابراہیم علیہ السلام کو ذبح ولد پر ہوا تھا۔ سبحان الله! یہ صرف جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی برکت ہے کہ معمولی رقم پر وہ اجر ہم کو ملتا ہے جو بیٹے کے ذبح کرنے سے ایک پیغمبر کو ملتا ہے! الله اکبر! یہ فضیلت تو و الله ایسی ہے کہ جس کے ذمہ قربانی واجب نہیں وہ بھی اگر چھوڑے تو اس کو ایک بڑی بھاری فضیلت کو چھوڑنے والا کہا جائے گا او رجس کے ذمہ واجب ہے وہ اگر ترک کرے تو بڑا ہی خاسر ہے، یہ شرف قربانی کا بانی کی وجہ سے ہوا۔

اب غایت کے اعتبار سے لیجیے، غایت اس کی دو ہیں، دنیا کے اعتبار سے بھی اور آخرت کے اعتبار سے بھی، دنیا میں تو یہ ہے کہ وہ جانور ذبح ہو کر پھرتمہارے کام آسکتا ہے۔ چناں چہ قربانی کے گوشت کی اگر تم ایک بوٹی بھی کسی کو نہ دو اور سب کا سب خود ہی کھا لو تو بھی قربانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یہ عجیب انفاق مالی ہے کہ وہ شے تمہارے ہی پاس رہے اورپھر عبادت ادا ہو گئی اور دیگر انفاقات مالیہ جس قدر ہیں ان میں یہ بات نہیں، جب تکملک سے علیحدہ نہ کرو اس وقت تک ادا نہیں ہوتے اور ثواب نہیں ملتا ہے۔ اس امر میں یہ عمل تمام انفاقات مالیہ سے ممتاز ہے۔ ایک لطیفہ، جوا بھی ذہن میں آیا، اس میں یہ ہے کہ اس میں دنیا کے اعتبار سے ایک اور فضیلت ہے، وہ یہ ہے کہ اورانفاقات مالیہ میں تو چوں کہ مال ملک سے نکلتا ہے اور نفس کو معلوم ہوتا ہے کہ تیرے پاس سے یہ شے جاوے گی۔ اس لیے ان میں ممکن ہے کہ نفس حیلہ کرے اور غالب ہے کہ اس عبادت سے محروم رہے اور قربانی میں چوں کہ نفس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کردہ جانور میرے پاس ہی ملک میں رہے گا اور میں ہی اس سے منتفع ہوں گا تو اس کے ادا کرنے میں حیلہ بہانہ نہ کرے گا اور اس سے محروم نہ رہے گا تو اس سے یہ امر معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کو یہ عمل بہت ہی محبوب ومرغوب ہے کہ اس کے اندر اس قدر سہولتیں رکھیں ہیں کہ کوئی بھی روک اس کے کرنے میں بندوں کو نہ ہو اورآخرت میں غایت یہ ہے کہ :انھا علی الصراط مطایاکم کہ بے شک وہ پل طراط پر تمہاری سواریاں ہوں گی۔ یہ شرف قربانی غایت کی وجہ سے ہوا“۔
(مواعظ اشرفیہ، سلسلہ تہذیب کا ساتواں وعظ:144-143)

خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا۔ مگر الله تعالیٰ کی رحمت دیکھیے۔ ان کو یہ گوارانہ ہوا ،اس لیے حکم دیا کہ تم جانور ذبح کر دو، ہم سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کر دیا، کیوں کہ ہر عمل کی ایک صورت ہوتی ہے او رایک روح، اب قربانی کی صورت تو جانور کا ذبح کرنا ہے او راس کی حقیقتایثار نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی محبوب ترین چیز خرچ کی جائے، جیسے فرمایا گیا ہے :﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾یعنی تم خیر کامل کبھی حاصل نہ کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کو خرچ نہ کرو۔

اسی لیے قربانی کے لیے حکم ہے کہ صحیح، سالم اور بے عیب جانور ذبح کیا جائے، جیسا کہ حضرت علی  فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے جانور خریدتے وقت دیکھ لیا کرو ۔ کہیں وہ عیب دار نہ ہوں! اس لیے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہی قربانی کا جانور کل قیامت کے روز اپنے سینگوں بالوں او رکھالوں کے ساتھ موجود ہو گا۔ اور پلصراط پر ہماری سواری کام دے گا۔ تو جہاں الله تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری کا صحیح معنی میں مطالبہ پورا نہیں ہوا وہاں غایت کے اعتبار سے ہمارا بھی نقصان ہوا کہ سواری کا لنگڑی لولی ہو گی ۔ غرض تمام فقہا کا اجماع ہے کہ عید کے دن بارگاہ الہی میں قربانی سے بڑھ کر کسی اور عمل کا نذرانہ پیش نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اس میں اختلاف ضرور ہے کہ قربانی سنت موکدہ ہے یا واجب ؟ چناں چہ امام شافعی ،امام ابویوسف کی ایک روایت میں ہے کہ قربانی سنت موکدہ ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ، امام زفر، حسن بن زیاد، ربیعہ اوزاعی، لیث اور ایک روایت صاحبین کی اور امام مالک کی ایک روایت کے مطابق صاحب نصاب شخص پر قربانی واجب ہے۔

لہٰذا کوئی مسلمان اہم شعار اسلام سے محروم نہ رہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے تویہاں تک تاکید فرمائی ہیکہ ”جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے، مگر اس کے باوجود بھی وہ قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ “ (ابن ماجہ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں