مثالی رفیق حیات

مثالی رفیق حیات

[یہ بالکل سچی کہانی ہے جو پاکستان کے قیام سے سات یا آٹھ سال قبل شروع ہر کر کچھ عرصہ قبل اختتام پذیر ہوئی۔ راقمہ کہانی کے مرکزی کردار سے روحانی اور قلبی رشتہ تھا]
دلہن بنی وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ کھلتا ہوا سرخ و سفید رنگ، سرمئی آنکھیں اور نیم گھنگھریالے بال۔ بغیر میک اپ کے بھی وہ حسن و سادگی کا مرقع اور ’’نہیں محتاج میک اپ کا جسے صورت خدا نے دی‘‘ کا حسین نمونہ تھی۔
اس کا دلہا محمد اشرف ایک پنجابی نوجوان تھا۔ وہ نا صرف غریب تھا بلکہ غریب الوطن بھی تھا۔ ضلع جہلم کے ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔ وہاں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ مزاج میں انکساری اور سادگی تھی۔ ذہین اور محنتی تھا۔ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ دینی تعلیم کا شوق اور آرزو بھی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی تڑپ اسے یوپی (موجودہ ہندوستان کا ایک صوبہ) کے شہر سہارن پور لے آئی۔ وہاں اس نے مدرسہ مظاہرالعلوم میں داخلہ لے لیا۔
مدرسے کے ایک استاذ مولانا پائے محمد اس کی ذہانت، سادگی اور انکساری کی وجہ سے اس پر بہت مہربان تھے۔ اس سے شفقت سے پیش آتے اور ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے۔ مولانا صاحب نسلاً پٹھان تھے۔ دین کے علم کی پیاس بجھانے افغانستان سے ہجرت کرکے یہاں آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ اشرف فارغ التحصیل ہوا۔ اس دوران میں مولانا صاحب بھی فوت ہوچکے تھے۔ اپنے مہربان استاد جی کے فوت ہونے کے بعد اس نے ان کی بیوہ کا بہت خیال رکھا۔ باہر کا کام کرتا اور سودا سلف لادیتا۔ وہ بھی اس پر اعتماد کرتی تھیں اور بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں۔
استاد جی کی بیوہ نے اپنی بیٹی کی شادی اشرف سے کیوں کی؟ اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ اماں جی کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔بیٹیاں جوانی کی دہلیز تک پہنچتیں تو فوت ہوجاتیں۔ فاطمہ جس کی شادی اشرف سے ہوئی تھی سب سے چھوٹی تھی۔ صرف یہ بیٹی ہی زندہ بچی تھی، اس لیے وہ اس سے بے حد پیار اور لاڈکرتی تھیں، کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں، اس کی ہر خواہش پوری کرتیں۔ اس زمانے میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا، پھر بھی انہوں نے اسے آٹھویں تک تعلیم دلائی۔ وہ اسے اس قدر چاہتی تھیں کہ چھوٹی عمر میں ہی زیورات پہنائے رکھتیں۔
فاطمہ بڑی ہوئی تو بڑے معزز گھروانوں سے اس کے رشتے آنے لگے، لیکن مولانا صاحب کی بیوہ ہر رشتہ ٹھکرا دیتیں۔ انہیں اپنی لاڈلی بیٹی کو اپنے سے جدا کرنا کسی طرح گوارا نہ تھا۔ عزیز و اقارب نے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانیں۔ کچھ عرصہ بعد، اشرف کی سادگی، خدمت اور فرمانبرداری سے متاثر ہو کر اسے بیٹوں کی طرح چاہنے لگیں۔ انہوں نے اس وعدے پر اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردیا کہ وہ کبھی فاطمہ کو ان سے جدا نہیں کرے گا۔ اس رشتے کی بڑی وجہ ایک بڑی وجہ مولانا عزیز گل کی خواہش بھی تھی۔ مولانا عزیز گل، استاد جی کے دوست اور شیخ الہند مولانا محمود حسن کے خاص شاگرد اور مالٹا کے ساتھی تھے۔
شادی کے بعد اشرف اپنے سسرال میں ہی رہنے لگا۔ فاطمہ کیا ملی، اشرف کی زندگی میں بہار آگئی۔ نہ صرف رہائش ملی بلکہ تلاش معاش کے لیے سازگار حالات مل گئے۔ غیرت مند نوجوان تھا، سسرال پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردی۔ کچھ عرصے بعد ہی جب اسے مناسب ملازمت مل گئی، اس نے اماں جی کی اجازت سے الگ گھر کرائے پر لے لیا۔ کام پر جانے سے پہلے فاطمہ کو ماں کے گھر چھوڑ دیتا اور واپسی میں لے لیتا۔ چونکہ اس کی دنیاوی تعلیم صرف میٹرک تھی لہذا اس نے اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کی کوشش کی۔ فاطمہ نے اس کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ لاڈ پیار نے اسے بگاڑا نہیں تھا۔ وہ ایک وفا شعار اور سلیقہ مند رفیق حیات ثابت ہوئی۔ اشرف نے پرائیویٹ امتحانات دیے جو اس زمانے میں منشی فاضل، عربی فاضل اور نہ جانے کیا کیا ہوتے تھے۔ جب بھی اشرف کسی امتحان کے لیے داخلہ بھیجتا، فاطمہ کوئی زیور بیچ کر داخلہ فیس پوری کرتی۔ اس کی والدہ نے اسے سونے چاندی کے بہت زیورات دیے تھے، یہاں تک کہ چاندی کی پاؤں کی پازیبیں بھی تھیں۔ اشرف کی تعلیم مکمل ہونے تک اس کا سارا زیور بک گیا، صرف ہاتھوں کی چوڑیاں رہ گئیں لیکن ایسی صبر والی اور وفا شعار تھی کہ ساری عمر نہ اشرف سے گلہ شکوہ کیا ور نہ کسی قسم کا طعنہ دیا۔ آج کل عورتوں کی زیوروں میں جان ہوتی ہے، بیچنا تو دور کی بات ہے۔ نت نئے ڈیزائن کے کپڑوں اور زیورات کے لیے میاں کی زندگی حرام کردیتی ہیں۔
فاطمہ نے بچپن سے جوانی تک خوشحالی اور بے فکری والی زندگی گزاری تھی۔ مولانا صاحب کی بھی آنکھوں کا تارا تھی۔ بھائی اور بھابیاں بھی بہت ناز اٹھاتے تھے۔ ابھی چھوٹی ہی تھی کہ مولانا صاحب تو فوت ہوگئے لیکن ماں نے کسی قسم کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ فاطمہ نے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگایا تھا لیکن اشرف کے گھر سب کام خود کرتی۔ کپڑے بھی گھر پر ہی سیتی، جب بچے ہوگئے تو ان کے اور اشرف کے کپڑے بھی خود سلائی کرتی۔
اشرف کی تعلیم بہتر ہوئی تو اسے لاہور میں بحیثیت سویلین استاد فوجیوں کو پڑھانے کی ملازمت کا موقع ملا۔ نوکری اچھی تھی لیکن ساس صاحبہ سے اجازت کا مرحلہ مشکل تھا۔ بہت منت سماجت اور اس وعدے پر اجازت مل گئی کہ وہ فاطمہ کو ہر ہفتے ملانے کے لیے لائے گا۔ اس دوران اُن کے آنگن میں دو پھول بھی کھل چکے تھے۔ دنیاوی مصروفیات کے باوجود اشرف نے علماء کرام سے رابطہ نہیں چھوڑا تھا۔ حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے دونوں میاں بیوی بیعت تھے۔ ان کی خدمت میں حاضری بھی ہوتی تھی۔ دین اور دنیاوی معاملات میں رہنمائی اور مشورے کے لیے حضرت جی سے خط و کتابت بھی جاری رہتی۔ حضرت کے کئی خط ان کے بچوں کے پاس اب بھی محفوظ ہیں۔
ان کے لاہور چھاؤنی (Cantt) قیام کے دوران برصغیر کی تاریخ کا عظیم واقعہ یعنی پاکستان کا قیام پیش آیا۔ قیام پاکستان سے جہاں برصغیر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، وہیں بے حد دلخراش مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ مسلمان مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے آتے، خستہ حال، بھوک پیاس سے نڈھال، میلوں پیدل چلنے سے پاؤں میں چھالے پڑے ہوتے۔ اشرف اور فاطمہ باقی فوجی بھائیوں کے ساتھ ان کی خدمت میں جت گئے۔ سب انہیں اپنے گھر لے آتے، جس کے گھر جو کچھ پکا ہوتا وہ پیش کرتے، ان کے منہ ہاتھ دھلواتے، چوں کہ ریلوے سٹیشن بھی قریب تھا۔ ریل گاڑیاں بھی اِدھر ہی آکر رکتیں، زیادہ تر ڈبوں سے خون میں لت پت لاشیں ہی نکلتیں۔
وقت کے ساتھ حالات پر سکون ہوئے تو اشرف نے عصری تعلیم مکمل کی۔ اس کا مطالعہ وسیع تھا اور عربی و فارسی پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔ ویسے تو اس نے بی اے، بی ایڈ کیا تھا لیکن اس کی تعلیمی قابلیت بہت سے ماسٹرز لڑکوں سے زیادہ تھی۔ اسے گورنمٹ اسکول میں بطور انگلش ٹیچر خدمت کا موقع مل گیا۔ ان کے گھر کا ماحول انتہائی سادہ، مذہبی اور تعلیمی تھا۔ اس وقت کے جید علمائے کرام مثلاً مولانا انورشاہ کشمیری، مولانا محمدقاسم نانوتوی اور مولانا احمدعلی لاہوری کا تذکرہ ایسے ہوتا جیسے گھر کے فرد ہوں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے جلسوں میں، جو عشاء کے بعد شروع ہوکر صبح کی اذانوں تک جاری رہتے تھے، لازمی شرکت ہوتی تھی۔
گھر میں بیت بازی یعنی اشعار کے مقابلے ہوتے، بچے بھی اس میں حصہ لیتے۔ بیت بازی میں ایک فرد کوئی شعر سناتا تو جس حرف پر وہ شعر ختم ہوتا دوسرے فرد کو اسی حرف سے شروع ہونے والا شعر سنانا ہوتا۔ اکثر فاطمہ مقابلہ جیت جاتی۔ چوں کہ اشرف کے ساتھ رہ کر اس کا ادبی ذوق نکھر گیا تھا اور مطالعہ بھی زیادہ ہوگیا تھا۔
گھر کا ماحول پرسکون تھا کبھی ان دونوں میں لڑائی نہیں ہوئی۔ اس طرح اس مثالی جوڑے نے بچوں کی بہترین تربیت کی۔ اشرف جب عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے آتا تو اکثر ایک دو مسافروں کو ساتھ لے آتا اور فاطمہ سے کہتا جو کچھ پکا ہوا ہے لے آؤ۔ اس زمانے میں مسجدوں میں تالے نہیں ہوتے تھے اور بعض مسافر مسجدوں میں ہی ٹھہرتے تھے۔ انہوں نے کئی یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم کا ذمہ بھی لیا ہوا تھا۔ فاطمہ نے اپنے ساس اور سسر کی بھی خوب خدمت کی۔ آخری عمر میں اشرف کی والدہ معذور ہوگئی تھیں اور بالکل بستر سے لگ گئیں۔ فاطمہ ان کی خوراک اور صفائی کی ضروریات بستر پر ہی پورا کرتی۔ یہاں تک کہ اس کی ساس اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتی: ’’فاطمہ تو جنتی ہے۔‘‘
اُدھر ہندوستان میں فاطمہ کی ماں اپنی بیٹی کی جدائی میں تڑپ رہی تھیں۔ راستے بند تھے اور خط کتابت، آنا جانا، بالکل منقطع۔۔۔ لیکن اشرف بھی وعدے کا پکا تھا جیسے ہی راستے کھلے اور آمد و رفت بحال ہوئی، اس نے پاسپورٹ اور ویزا بنوایا اور فاطمہ کو بچوں سمیت اپنی ماں سے ملوانے لے گیا۔ فاطمہ اور اشرف نے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائی۔ بڑے بیٹے کو قرآن پاک حفظ کرایا۔ بچے نے حفظ کے بعد اعلی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان دنوں اشرف کی تعیناتی جہلم میں تھی۔ بیٹے کو لاہور کے بہترین کالج سے ایف ایس سی کرائی۔ بیٹا ہونہار تھا، ڈاکٹر بن گیا۔ اشرف کو بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ملازمت کے علاوہ بھی کام کرنا پڑتا۔ کبھی کوئی بزنس اور کبھی جز وقتی نوکری۔
سخت محنت اور بے آرامی سے اشرف کی صحت جواب دے گئی۔ آخر سانس اور روح کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ فاطمہ کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ محبت کرنے والا اور ہرحال میں خوش رکھنے والا شریک حیات اچانک داغ مفارقت دے گیا۔ سات بچوں کا ساتھ اور چھت بھی اپنی نہ تھی۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں اتنے مصروف رہے کہ کبھی اپنا گھر بنانے کا خیال ہی نہ آیا۔ فاطمہ نے مگر حوصلہ نہ ہارا اور بہت حوصلے سے بچوں کو سہارا دیا۔ بڑا بیٹا ڈاکٹر بن گیا تھا، باقی سب پڑھ رہے تھے۔ زندگی کی گاڑی اب اسے اکیلے ہی چلانا تھی۔ سب سے چھوٹا بیٹا صرف ساڑے تین سال کا تھا۔ ڈاکٹر بیٹے نے فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ شریف ماں باپ کی اولاد تھا۔ اس نے نہایت ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھائی۔
بچے بڑے، فاطمہ بوڑھی ہوتی گئی۔ وہ بوڑھی ہوکر بھی پروقار اور دلکش تھی۔ اس کے نیم گھنگھریالے بال برف کی طرح سفید ہوگئے جو اس کے چہرے پر اور بھی خوبصورت لگتے۔ جو کوئی ایک بار ملتا ان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے گرویدہ ہوجاتا۔ اُن کی اپنی دو بیٹیاں تھیں لیکن منہ بولی بیٹیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ جس شہر میں جاتیں وہاں بیٹیاں بن جاتیں۔ چوں کہ بچوں کو قرآن شریف بھی پڑھاتی تھیں اس لیے روحانی بیٹیوں اور بیٹوں کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی۔ میں نے ان سے ہی قرآن شریف پڑھا تھا۔
اس عظیم ماں نے مادرِ وطن کو سات اچھے شہری دیئے (اللہ کے فضل سے)۔ تین آرمی آفیسر، جن میں سے ایک ڈاکٹر اور ایک پائلٹ، دو پروفیسر اور ایک اٹامک انرجی ملازم۔ سب کے سب بااصول اور ایمان دار۔ فاطمہ کا اپنا الگ کوئی گھر نہیں تھا لیکن اللہ کے فضل سے سب بچوں کو اس قابل کردیا کہ ایک ایک کرکے سب اپنے گھروالے ہوگئے۔ کبھی کسی بیٹے کے پاس رہتیں اور کبھی کسی بیٹی کے پاس میں لیکن مجال ہے کبھی گلہ کیا ہو۔ کہتیں سب گھر اپنے ہیں۔
جب تک صحت ٹھیک تھی۔ سب کے کام آتیں۔ ہر کسی کی بے لوث خدمت کرتیں، کسی کے کپڑے سیتیں تو کسی ک لیے سویٹر بنتیں۔ بڑی عمر میں کروشیا کا استعمال سیکھا اور اون سے کروشیے کے سویٹر، جیسے ڈیزائن دیکھتیں بنالیتیں۔ ان کے بنائے ہوئے سویٹر اب بھی ان کی بیٹیوں کے پاس محفوظ ہیں۔ چوڑی دار پاجامے، غرارے سب انہی سے بنواتے۔ کتنی دلہنوں کے دو پٹوں پر گوٹے کنارے لگا کردیے۔ بچوں میں بہت ہر دلعزیز تھیں۔ انہیں نماز اور آخری سپارے کی سورتیں سکھاتیں اور کہانیاں بھی سناتیں۔ سب سے محبوب مشغلہ قرآن شریف کے غلاف سینا تھا۔ سی کر سب کو تحفے میں دے دیتیں۔
یہ شعر وہ اکثر گنگنایا کرتیں:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
آخر ان کی عمر بھی تمام ہوئی اور اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔
میری زبان پر بھی اس مبارک جوڑی کے لیے یہ دعا ہوتی ہے:
رب ارحمھا کما ربیانی صغیرا۔ (آمین)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں