غیبت کی حقیقت اور اس کی مذمّت

غیبت کی حقیقت اور اس کی مذمّت

غیبت اگرچہ عربی لفظ ہے ،لیکن ہر خاص وعام اس کا مفہوم سمجھتا اور روزہ مرہ کی گفت گو میں اسے استعمال کرتا ہے اور لطف یہ کہ اُسے کوئی بھی فردِ انسانی اچھا نہیں سمجھتا۔ غیبت سے قرآن حکیم نے بھی بہت سختی سے منع کیا ہے۔ ایک مقام پراس کی مذمت تمثیل کے ذریعہ ان الفاظ میں بیان کی ہے۔

﴿أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوَّابٌ رَّحِیمٌ﴾․(الحجرات)
ترجمہ:(اورکوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے۔) کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اس کو ناگوار سمجھتے ہو اور الله سے ڈرتے رہو، بے شک الله بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

شیخ الاسلام حافظ ابن قیم نے اس آیت سے متعلق عجیب نکات لکھے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
آیت مبارکہ میں غیبت کرنے کو مردار بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے ،جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو پس پشت اپنے مسلم بھائی کی عزت کو داغ دار کرتا ہے اسے یوں سمجھیے کہ جیسے کسی کے بھائی کی روح موت کے سبب نکل چکی ہو اور وہ کاٹ کاٹ کر اس کا گوشت کھاتا ہو۔

جس کی کسی مجلس میں غیبت کی جارہی ہے چوں کہ غیر موجودگی کی وجہ سے وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا، اسے ایسا ہی سمجھو کہ جیسے کوئی مردے کا گوشت کاٹے اور وہ اپنا دفاع نہ کرسکے۔

اخوت کا تقاضا تو بھائی چارہ اور ہر طرح کی غم خواری وہم دردی کا مظاہر ہ تھا۔ لیکن غیبت کرنے والے نے برائی، عیب جوئی، طعن وتشنیع کے ذریعہ اس کے برعکس کیا۔گویا بھائی کی بھائی کے ذمہ ہر طرح کی حفاظت وصیانت تھی، مگر اسی نے اس کا گوشت کاٹ کر اپنے احساس ذمہ داری کو ختم کرتے ہوئے اس کے خلاف عملی ثبوت پیش کیا۔

غیبت کرنے والا برائی وعیب جوئی کرکے اپنے خیال میں بہت ہی لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی گئی ہے کہ اسے یوں سمجھ لیا جائے جیسے کوئی مردہ بھائی کا گوشت کاٹ کر کھانے سے لطف اندوز ہوتا ہو۔

غیبت کرنے والا چوں کہ اس کے ذریعہ لطف اندوز ہوتا ہے، کسی کوغیبت میں کتنا لطف آتا ہے اور کسی کو کتنا لطف، کوئی اگر صرف غیبت کرتا ہے تو یوں سمجھیے کہ مردار کا صرف گوشت کھاتا ہے اور اگر غیبت کرنے میں لطف آتا ہے تو یوں سمجھیے کہ مردار کے گوشت کھانے میں لطف حاصل کرتا ہے۔

الحاصل خدا نے ایک معقول شے کو محسوس شے سے تشبیہ دے کر یہ سمجھا دیا کہ جس طرح مردار گوشت سے ہر ایک کو شدید نفرت ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ غیبت سے نفرت ہونی چاہیے، اسی لیے عقل، فطرت اور حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مردار کے گوشت کھانے سے بھی زیادہ نفرت غیبت سے ہونی چاہیے۔ (تفسیر ابن قیم، ص:442)

ابوالحسنات مولانا عبدالحئی لکھنوی نے بھی حرمت غیبت کی دو عجیب وجہ لکھی ہیں۔

جس طرح کسی کے گوشت کھانے سے اس کی نہایت تذلیل ہوتی ہے، اسی طرح غیبت میں بھی اس کی نہایت عزت ریزی ہوتی ہے، لہٰذا جب کسی نے غیبت کی تو اس کو اتنا ذلیل کیا گویا اس کا گوشت کھایا۔

جس طرح آدمی کا مردار گوشت کھانا طبیعت کے بہت ہی خلاف معلوم ہوتا ہے اور ہر شخص اس سے پرہیز کرتا ہے، اسی طرح غیبت بھی بُری چیز ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو لازم ہے کہ غیبت سے اپنی زبان بند کرے اور اپنے نفس کو روکے۔ (زجر الشبان،ص:72)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں غیبت سے منع فرمایا ہے:” الغیبة اشد من الزنا“ ترجمہ:”غیبت گناہ میں زنا سے بڑھ کر ہے۔“

اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا میں فقط رحمن کی مخالفت اور شیطان کی متابعت ہوتی ہے اور غیبت میں دوامر ہیں، ایک الله کی مخالفت، دوسرے جس کی غیبت کی ہے اس کو تکلیف دینا یا یوں کہیئے کہ ایک ہیں حقوق الله اور دوسرے حقوق العباد۔ حقوق الله توبہ سے معاف ہو سکتے ہیں، لیکن حقوق العباد جب تک بندہ دل سے معاف نہ کرے معاف نہیں ہوسکتے۔ غیبت بھی حقوق العباد میں سے ہے جسے خدا بھی معاف نہیں کرتا، جب تک کہ جس کی غیبت کی گئی ہے وہ معاف نہ کرے ، لہٰذا زنا سے زیادہ اس کا جرم سنگین ہوا۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے:”من اکل لحم اخیہ فی الدنیا قرب الیہ لحمہ وقیل لہ کلہ میتاً کما اکلتہ حیاً، فیاکلہ فینصح ویکلح․“ (زجر الشبان،ص:82)
ترجمہ:” جس شخص نے دنیا میں اپنے کسی بھائی کا گوشت کھایا (غیبت کی) تو اسے آخرت میں اس بھائی کا گوشت پیش کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ جس طرح تونے دنیا میں اس کا گوشت کھایا اسی طرح اب بھی اس کا گوشت کھا۔ غیبت کرنے والا جب اس گوشت کو منھ میں رکھے گا تو نہایت برا منھ بنائے گا اور رسوا ہو گا۔“

حضرات صحابہ اور اسلاف امت نے اس فعل شنیع سے جس قدر نفرت دلائی ہے ذیل میں اس سلسلے کے چند ارشادات ملاحظہ ہوں:
حضرت کعب بن احبار فرماتے ہیں:”من مات تائباً من الغیبة کان آخر من یدخل الجنة، ومن مات مصراً علیھا کان اول من یدخل النار․“(زجر الشبان،ص:82)
ترجمہ:” جو غیبت سے توبہ کرکے مراوہ سب سے بعد میں جنت میں جائے گا اور جو شخص بلا توبہ مرا وہ سب سے پہلے دوزخ میں جائے گا۔“

فاروق اعظم فرماتے ہیں:”علیک بذکر الله، فانہ شفاء، وایاک والغیبة وذکر الناس، فانہ داءٌ․“ (زجر الشبان،ص:82)
ترجمہ:” اے انسان! تو اپنے اوپر خدا کے ذکر کو لازم کر، کیوں کہ وہ شفا ہے اور غیبت سے بچ، کیوں کہ یہ بیماری ہے۔“

حضرت قتادہ فرماتے ہیں:”کما یمنع احدکم من ان یاکل لحم اخیہ میتاً کذلک یجب ان یمتنع من غیبتہ حیا․“ (زجرالشبان،ص:85)
ترجمہ:” جس طرح آدمی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہیت کرتا ہے، اسی طرح واجب ہے کہ غیبت سے اپنے آپ کو روکے۔ “

حضرت زین العابدین علی بن الحسن نے ایک شخص کو غیبت کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا:”ایاک والغیبة، فانھا ادام کلاب الناس․“ (زجر الشبان،ص:85)
ترجمہ:” اپنے آپ کو غیبت سے بچا ،کیوں کہ یہ کتوں کا سالن ہے۔“

حضرت ابو قلابہ نے ایک موقع پر فرمایا:”ان الغیبة خراب القلب من الھدیٰ․“(منہاج العابدین،ص:112)
ترجمہ:”غیبت کی وجہ سے انسان کا دل ہدایت سے ہٹ جاتا ہے اور ویرانے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ “

منقول ہے کہ حضرت حسن بصری کو کسی نے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے تو آپ نے غیبت کرنے والے آدمی کو کھجوروں کا ایک تھال بھر کر روانہ کیا اور ساتھ ہی یہ کہلا بھیجا کہ سنا ہے تونے مجھے اپنی نیکیاں ہدیہ کی ہیں تو میں نے ان کا معاوضہ دینا بہتر جانا۔ (منہاج:1/110)

حضرت عبدالله بن مبارک کے سامنے کسی نے غیبت کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کی غیبت کرنا درست جانتا تو اپنی ماں کی غیبت کرتا، کیوں کہ میری ماں سب سے زیادہ میری نیکیوں کی مستحق ہے۔

نقل ہے کہ ایک دفعہ حضرت حاتم اصم کی نماز تہجد فوت ہو گئی تو آپ کو آپ کی بیوی نے عار دلائی، آپ نے جواب دیا کہ گزشتہ شب ایک جماعت ساری رات نوافل میں مصروف رہی ہے اور صبح انہوں نے میری غیبت کی ہے تو ان کی اس رات کی عبادت قیامت کے روز میرے اعمال کی ترازو میں رکھ دی جائے گی۔ (منہاج العابدین للغزالی،ص:110)

غیبت کرنے والوں کو کتوں سے تشبیہ دینے کی غالباً وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنامردار بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے کہ مردار کا گوشت کھانا اور ہڈیاں چبانا کتوں کا کام ہے، لہٰذا غیبت کرنے والے کتوں کے مثل ہوئے، کیوں کہ اگر آدمی ہوتے تو ان میں آدمی کی صفت ہوتی اور انسانی حیا ان میں پائی جاتی، وہ کسی کی غیبت نہ کرتے، کسی پر طعن نہ کرتے۔ اللّھم احفظنا منہا․


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “غیبت کی حقیقت اور اس کی مذمّت

  1. محمد معصوم صدیقی says:

    (زجر الشبان،ص:85)اس کتاب کا مکمل حوالہ چاہیے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں