ڈنمارک: نقاب پہننے پر پابندی کا قانون منظور ہونے کے بعد پہلی سزا

ڈنمارک: نقاب پہننے پر پابندی کا قانون منظور ہونے کے بعد پہلی سزا

ڈنمارک میں نقاب پہننے پر پابندی کے قانون کی منظوری کے بعد پہلی بار اس قانون کے تحت ایک خاتون کو عوامی مقام میں نقاب پہننے پر جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔
ڈنمارک میں نقاب پر پابندی کا قانون کا اطلاق رواں ہفتے بدھ کو ہوا تھا۔
مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق ایک 28 سالہ نقاب پوش خاتون کا ایک دوسری خاتون سے جھگڑا شروع ہو گیا جو ان کا نقاب اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔
پولیس کو موقع پر طلب کیا گیا جنھوں نے سی سی ٹی وی کی مدد سے فوٹیج دیکھی اور نقاب پوش عورت کو بتایا کہ اگر انھوں نے نقاب نہیں اتار تو ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
ڈنمارک میں اس قانون کی منظوری کے بعد انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا ہے۔
یہ قانون ملکی پارلیمان میں تو اس سال کے اوائل میں ہی منظوری کر لیا گیا تھا تاہم اسے بدھ کو لاگو کیا گیا ہے۔
جمعے کو یہ واقعہ کوپن ہیگن سے 25 کلو میٹر دور ہورشوم قصبے کے ایک شاپنگ مال میں پیش آیا۔
پولیس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جھگڑا شروع ہونے کے بعد انھیں وہاں بلایا گیا اور دونوں عورتوں پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔
نقاب پوش خاتون پر نئے قانون کے تحت 1000 کرونر (ڈنمارک کی کرنسی) کا جرمانہ عائد کیا گیا جوکہ دوسری خاتون پر نقص امن کے تحت جرمانہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ بدھ کو ڈنمارک کے اس نئے قانون کے منظور ہونے کے بعد مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر تنقید کی ہے۔
اس قانون میں برقع اور نقاب کا نام سے ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن اس میں درج ہے کہ ‘کوئی بھی شخص ایسا کپڑا پہنے جس سے عوام کے سامنے اس کا چہرہ ڈھک جائے، تو وہ قابل سزا ہو گا اور اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔’
قانون کی منظوری کے بعد ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں مظاہرین جمع ہو گئے اور ان میں شامل خواتین نے روایتی برقعے پہنے ہوئے تھے اور کئی نے روایتی اور عارضی نقاب پہنا ہوا تھا۔
چند مسلم خواتین نے کہا ہے کہ وہ اس قانون پر عمل نہیں کریں گی۔ واضح رہے کہ بار بار خلاف ورزی کرنے کی صورت میں 10000 کرونر تک جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس پابندی کو ‘تفریق پر مبنی’ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ‘نقصان دہ کاروائیوں میں تازہ ترین اضافہ ہے۔’
گذشتہ سال یورپی کورٹ برائے انسانی حقوق نے بیلجئیم میں بنائے گئے اسی طرح کے قانون کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور کہا تھا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کسی انفرادی شخص کی مذہبی اظہار رائے سے زیادہ ضروری ہے۔
یورپ کے دیگر ممالک جیسے فرانس، آسٹریا، بلغاریہ اور جرمنی کی ریاست باوریا میں بھی اس سے ملتے جلتے قانون نافذ ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں