عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے
و عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما عن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال المرأۃ عورۃ فانھا اذا اخرجت من بیتھا استشرفھا الشیطن و انھا لاتکون اقرب الی اللہ منھا فی قعر بیتھا، رواہ الطبرانی فی الاوسط و رجالہ رجال الصحیح۔
ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے، اور بلاشبہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان تکنے لگتا ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ اللہ سے قریب ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے‘‘ (الترغیب و الترہیب للمنذری، ص: ۲۲۶، جلد ۱، از طبرانی)
تشریح
اس حدیث میں اول تو عورت کا مقام بتایا ہے، یعنی یہ کہ وہ چھپا کر رکھنے کی چیز ہے، عورت کو بحیثیت عورت کے اندر رہنا لازم ہے، جو عورت پردہ سے باہر پھرنے لگے وہ حدودِ نسوانیت سے باہر ہوگئی، اس کے بعد فرمایا کہ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر تاکنا شروع کردیتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جب عورت باہر نکلے گی تو شیطان کی یہ کوشش ہوگی کہ لوگ اس کے خد و خال اور حسن و جمال اور لباس و پوشاک پر نظر ڈال ڈال کر لطف اندوز ہوں۔
اس کے بعد فرمایا کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ اللہ تعالی کے قریب ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے جن عورتوں کو اللہ کی نزدیکی کی طلب اور رغبت ہے وہ گھر کے ہی اندر رہنے کو پسند کرتی ہیں، اور حتی الامکان گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہیں۔
اسلام نے عورتوں کو ہدایت دی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے گھر کے اندر ہی رہیں، کسی مجبوری سے باہر نکلنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس میں متعدد پابندیاں لگائی گئی ہیں، مثلاً یہ کہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں، اور یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ عورت راستہ کے درمیان نہ چلے، اگر اسے باہر جانا ہی پڑے تو پورے بدن پر موٹی چادر لپیٹ کر نکلے، راستہ نظر آنے کے لئے ایک آنکھ کا کھلا رہنا کافی ہے۔
نیز فرمایا کہ مرد کی نظر کسی نامحرم عورت پر یا عورت کی نظر کسی نامحرم مرد پر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹالے، اگر عورت کو کسی نامحرم مرد سے بدرجۂ مجبوری بات کرنی پڑے تو نرم گفتاری سے بات نہ کرے، اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے، محرم بھی وہ ہو جن پر بھروسہ ہو، فاسق محرم جس پر اطمینان نہ ہو اس کے ساتھ سفر کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح شوہر یا محرم کے علاوہ کسی نامحرم مرد کے ساتھ تنہائی میں رہنے یا رات گذارنے کی بالکل اجازت نہیں ہے، اور محرم بھی وہ ہو جس پر اطمینان ہو، یہ سب احکام درحقیقت عفت و عصمت محفوظ رکھنے کے لئے دیئے گئے ہیں۔
مخلوط تعلیم کا زہر
آج کل لڑکیوں کو اسکولوں کالجوں میں پڑھانے کے لیے بھیجتے ہیں، ان کو اونچی ڈگریاں دلانے کی کوشش کرتے ہیں، اول تو اس میں اُس حکم کی خلاف ورزی ہے کہ عورت اپنے گھر میں رہے، اگر باہر نکلنا ہو تو بدرجۂ مجبوری پابندیوں کے ساتھ نکل سکتی ہے، مگر وہ تو پردہ کے اہتمام کے بغیر نکلتی ہیں، اور خوب بن ٹھن کر خوشبو لگا کر جاتی ہیں، پھر رہی سہی کسر مخلوط تعلیم نے پوری کردی، ایک ہی کلاس میں لڑکے اور لڑکیاں اور بالغ مرد اور عورت بے پردہ ہر کر بیٹھتے ہیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ اسلامیات کی ڈگری لینے والے عین تعلیم کے وقت اسلامی احکام کو پامال کرتے جاتے ہیں، اور جو لوگ ان باتوں پر نکیر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ غیرشرعی طریقہ ہے، وہ کیسی ہی آیات و احادیث پیش کریں، اُن کی بات کو دقیانوسی کہہ کر ٹال دیتے ہیں، اللہ تعالی ان کو سمجھ دے اور دین کے صحیح تقاضے کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام عفت اور عصمت والا دین ہے
اسلام حیاء اور شرم، عفت و عصمت، غیرت و حمیت والا دین ہے، اس نے انسانیت کو اونچا مقام دیا ہے، انسان اور حیوان میں جو امتیازی فرق ہے وہ اسلام کے احکام پڑھنے سے واضح ہوجاتا ہے، اسلام یہ ہرگز گوارا نہیں کرتا کہ انسانوں میں حیوانیت آجائے، اور چوپانوں کی طرح زندگی گزاریں ، مردوں اور عورتوں کے اندر جو ایک دوسرے کی طرف مائل ہونے کا فطری تقاضہ ہے شریعت اسلامیہ نے ان کی حدود مقرر فرمائی ہیں، حقوق نفس اور حظوظ نفس سب کا خیال رکھا ہے، لیکن انسان کو شتع بے مہار کی طرح نہیں چھوڑا، کہ جو چاہے کھائے اور جو چاہے پہنے، اور جہاں چاہے نظر ڈالے، اور جس سے چاہے لذت حاصل کرے، بہت سے لوگ جو نام نہاد مسلمان ہیں (اگرچہ علوم عصریہ میں ماہر ہیں اور دنیاوی معاملات سے اچھی طرح واقف ہیں) یورپ و امریکہ کے یہود و نصاریٰ اور بددین ملحدوں اور زندیقوں کی دیکھا دیکھی بلکہ ان کی ترغیب اور تحریر سے متاثر ہو کر مسلمانوں کو بھی بہیمیت کے سیلاب میں بہادینا چاہتے ہیں، جب ان لوگوں کے سامنے پردہ کے احکام و مسائل پیش کئے جاتے ہیں تو قرآن و حدیث کے واضح دلائل سامنے ہوتے ہوئے بڑی ڈھٹاتی کے ساتھ کہدیتے ہیں ہیں کہ یہ سب باتیں مولویوں نے نکالی ہیں، عورتوں کو بے پردہ پھرانے بلکہ کلبوں میں نچوانے کو یہ لوگ ترقی سے تعبیر کرتے ہیں۔
کونسی ترقی محمود ہے؟
عورت صنف نازک تو ہے ہی، کم سمجھ بھی ہے، جب ان کو بہکایا جاتا ہے کہ پردہ ترقی کے لئے آڑ ہے اور ملا کی ایجاد ہے، تو یہ ا پنی نادانی سے اس بات کو باور کرلیتی ہیں، اور میلوں اور جلسوں اور پارکوں، بازاروں اور تفریح گاہوں میں پردہ شکن ہو کر بے محابا مردوں کے سامنے گھومتی پھرتی ہیں، دشمنان اسلام نے بس ترقی کا لفظ یاد کرلیا ہے، اور یہ بھی نہیں جانتے کہ کس چیز کی ترقی محمود ہے، اور کونسی ترقی مذموم ہے؟ اگر قوم کی بہو بیٹیاں بے پردہ ہو کر گھروں سے نکلیں اور بازاروں، پارکوں میں مردوں کے ساتھ مل جُل کر گھومتی پھریں تو اس میں کس چیز کی ترقی ہے؟ کیا اس میں انسانیت بامِ ترقی تک پہونچ گئی؟ یا غیرت اور شرافت میں کچھ اضافہ ہوگیا؟ نہیں نہیں، اس سے تو عصمت و عفت کے لُٹ جانے کی راہیں ہموار ہوگئیں، انسان کی شرافت اور کرامت برباد ہونے کے انتظامات ہوگئے، بُرائی کی ترقی بھی کیا کوئی ترقی ہے، ایسی ترقی تو شیطان اور اس کے دوستوں کو پسند ہوتی ہے، بُرائی کی ترقی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مخلصین و مؤمنین و مؤمنات کو پسند نہیں ہوتی۔
آپ کی رائے