’’مجاہد تم کہاں ہو؟‘‘

’’مجاہد تم کہاں ہو؟‘‘

یہ ۱۹۹۹ء کی بات ہے جب راقم نے باجی ریحانہ تبسم فاضلی کی تصنیف ’’مجاہد تم کہاں ہو؟‘‘ کے پہلے ایڈیشن کا ٹائٹل ایک کتب فروش کے شوکیس پر سجا دیکھا۔
فوراً یہ کتاب خرید لی۔ یہ ایک منفرد اور عجیب کاوش ہے۔ یہ ایک ماں کی زبانی اپنے لختِ جگر کی رودادِ حیات ہے۔ یہ درس جہاد و حریت ہے۔ اس کتاب کی ایک ایک سطر رگوں میں جمے ہوئے خون کو گردش دیتی ہے۔ یہ کتاب جہاں باجی صاحبہ کے فرزند حافظ احمد نعمان شہید کی داستانِ جہاد ہے، وہیں باجی صاحبہ کے صبر و استقامت، توکل اور رضا بالقضا کا مرقع بھی ہے جس میں ہر مسلمان کے لیے ہمت و حوصلہ کا ایک بہت بڑا سبق ہے۔
اولاد کی موت پر صبر کرنا اس قدر مشکل نہیں، جتنا اس کی گم شدگی کو برداشت کرلینا۔ اول کا صدمہ بھی یقیناًسخت ہوتا ہے اور عمر بھر رہتا ہے مگر دھیرے دھیرے اس کی شدت کم ہوتی جاتی ہے، لیکن لاپتا اولاد کی یاد عمر بھر والدین کو چین نہیں لینے دیتی۔ آہٹ بھی ہوتی ہے تو نگاہیں بے چین ہوکر پلٹ جاتی ہیں کہ کہیں کھویا ہوا لال ہی تو نہیں آگیا۔ پل پل امیدیں اور پل پل مایوسی۔ یہ کرب و اضطراب انسان کو جیتے جی ختم کردیتا ہے، مگر باجی صاحبہ کا صبر مثالی ہے۔ یہ اللہ کی خاص عطا ہے۔ حدیث میں آتا ہے: ’’کسی انسان کو اللہ کی طرف سے صبر سے بڑھ کر عطیہ نہیں دیا گیا۔‘‘ (ابوداؤد شریف)
باجی صاحبہ ماشاء اللہ اس عطیے سے مالا مال ہیں۔ اس صبر کے عوض اللہ نے انہیں ایک اور عظیم دولت سے نوازا ہے جسے میں ’’قلبِ مطمئنہ‘‘ سے تعبیر کرسکتا ہوں۔ ان کی باتوں میں کبھی مایوسی کا نام و نشان دکھائی نہ دے گا۔ وہ تو حوصلے اور ہمت کا ایک چشمہ صافی ہیں جس سے ایک دنیا سبق لے رہی ہے۔ ’’خواتین کا اسلام‘‘ میں ان کا مستقل سلسلہ ’’درد کا درمان‘‘ ان کی اس صفت کا بھرپور عکاس ہے جس میں وہ دُکھی اور مصیبت زدہ عورتوں اور بچیوں کو حوصلہ دیتی ہیں، انہیں مشوروں سے نوازتی ہیں اور مسائل کے حل کی تدابیر سمجھاتی ہیں۔ باجی صاحبہ کی تصانیف کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں ’’مجاہد تم کہاں ہو؟‘‘ سب سے منفرد اور غالباً سب سے زیادہ مقبول کتاب ہے، مگر تقریباً پندرہ سال سے اس کی اشاعت بند تھی۔ مجھ جیسے بے شمار لوگ جنہوں نے اس وقت اسے پڑھا تھا، اب اپنے بچوں اور بچیوں کو یہ کتاب پڑھانا چاہتے تھے۔ کوئی اڑھائی سال قبل راقم باجی صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس دیرینہ تمنا کا اظہار کیا۔ اللہ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی اور انہیں ایک بار پھر ہمت سے نوازا۔ وہ اپنی بے پناہ مصروفیات اور بعض اوقات حاوی ہوجانے والے امراض کے باوجود اس کتاب کو از سرِ نو شایع کرانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئیں۔ نئے ایڈیشن میں انہوں نے کئی ترامیم اور کئی اضافے کیے جس کے باعث یہ پہلے سے بھی زیادہ مفید اور پر اثر ہوگئی ہے۔
یہ کتاب اس دور کی یاد تازہ کرتی ہے جب پاکستان کی سلامتی کی جنگ ایک طرف کشمیر کے محاذ پر لڑی جارہی تھی تو دوسری طرف افغانستان میں بھی معرکے جاری تھے۔ بھارت پاکستان کی مغربی سرحدون کو غیرمحفوظ کرنے کے لیے افغانستان کے وسطی اور شمالی صوبوں میں پاکستان مخالف عناصر کو منظم کررہا تھا۔ اس کوشش میں اسے امریکا اور اسرائیل کی پوری پشت پناہی حاصل تھی۔ امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان دوست حکومت تھی جسے سبوتاث کرکے پاکستان کی مغربی سرحدوں پر ایک پاکستان دشمن حکومت قائم کرنا بھارت کا انتہائی اہم ہدف تھا۔ پاک افواج کے قائدین اس صورتحال کو نہایت تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں احمدنعمان جیسے سینکڑوں مجاہد افغانستان میں ایک اسلام پسند اور پاکستان دوست حکومت کے قیام کے لیے سربکف ہوئے۔ کئی سالوں تک جاری اس کٹھن مہم میں سینکڑوں نوجوان شہید اور سینکڑوں لاپتا ہوئے۔ خصوصاً سانحۂ مزار شریف ایک نہایت جانکاہ حادثہ تھا۔ حافظ احمد نعمان اسی ہنگامے کے دوران لاپتا ہونے والوں میں شامل تھے، جن کے بارے میں اب بیس سال بعد تقریبا یقین طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں اور ان شاء اللہ جنت کی بہترین نعمتوں سے محفوظ ہو رہے ہیں۔
احمد نعمان کی یہ داستان پڑھ کر ضمیر بے ساختہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر ایک عورت، ایک ماں اپنے بچے کو ہنسی خوشی میدانِ جہاد میں بھیج سکتی ہے اور اس کی گم شدگی یا شہادت پر صبر کرسکتی ہے اور اگر ایک ناز و نعمت میں پلا ہوا سجیلا نوجوان دنیاوی چمک دمک پر میدان جہاد کو ترجیح دے سکتا ہے تو ہمارے پاس کیا عذر ہے کہ ہم آج بزدلی، دنیا پرستی اور کم ہمتی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں کیا ہوگیا کہ ہم سے اپنے ملک کے داخلی مسائل بھی حل نہیں ہورہے؟ کیا ہم فرشتوں کے نزول کا انتظار کررہے ہیں؟ یا کوشش اور جد و جہد کو امام مہدی کی آمد تک موقوف سمجھے ہوئے ہیں؟ احمد نعمان جیسے شہداء ہمیں ایسی کمزور حالت میں تو نہیں چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ تو میدان امیدیں لیے میدانِ جہاد میں اترے تھے کہ اقبال کے اس خواب کو عن قریب تعبیر ملے گی۔
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی

باجی ریحانہ تبسم فاضلی نے اپنے سعادتمند اور خوش قسمت بیٹے کی یہ سرگزشت اسی جذبے کے تحت لکھی تھی کہ اقبال کا یہ خواب جلد شرمندۂ تعبیر ہو۔ یہی جذبہ اس کتاب کی اشاعتِ نو کا محرک ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ نہ صرف ہر ماں اور ہر بہن بلکہ ہر بھائی اور ہر بیٹے کو بھی اس کتاب کا تنایہوں میں بار بار مطالعہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کو آج نعمان شہید جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس کروڑوں نوجوان ہیں مگر ان کی قوتِ عمل معطل ہے یا ان کی صلاحیتیں برے کاموں میں ضایع ہورہی ہیں۔ یہ کتاب تعمیرِ ذہن کا کام دیتی ہے۔ امید ہے کہ اسے پڑھ کر نوجوانوں کو صحیح راہ عمل ملے گی اور اقبال کے شاہین ایک بار پھر جہانِ نو کی تلاش میں محوِ پرواز ہوں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں