سفر مدینہ منورہ کی رُوداد

سفر مدینہ منورہ کی رُوداد

استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، دام اللہ ظلھم علینا، کے سفر نامے اس وقت تک تین مختلف کتابوں کی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔
یہ سفرنامے اپنی نوعیت کے لحاظ سے کئی خصوصیات کے حامل ہیں، جن میں مختلف شہروں اور ملکوں کی تاریخ کے علاوہ وہاں کے بزرگوں کے مآثر کا تذکرہ اور ان کی تاریخ دعوت و عزیمت کا بیان شامل ہے، ان میں اصلاح و موعظت کا پہلو غالب ہے۔ اندلس کے سفرنامے میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کا تذکرہ مسلمانوں کو اپنے ماضی کی طرف پلٹ جانے کی دعوتِ فکر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی مقامات اور قدرتی مناظر کی تصاویر قاری کے لئے دلچسپی کا سامان بھی فراہم کرتی ہیں۔ غرض ہر لحاظ سے یہ سفرنامے بہت سارے فوائد کے حامل ہیں۔
حال ہی میں حضرت والا مدظلہم کا مدینہ منورہ کا سفر ہوا، جس کے مختصر حالات حضرت والا نے جامعہ دارالعلوم کراچی کی دورۂ حدیث کی درسگاہ میں دورانِ درس ذکر فرمائے جو کہ بہت سی مفید باتوں پر مشتمل ہیں، خصوصاً والدین کی خدمت کے بدلے میں اللہ تعالی کی طرف سے انعامات کا تذکرہ ہے، ان باتوں کو افادۂ عام کے لئے ذکر کیا جارہا ہے۔۔۔۔ (ادارہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمدللہ رب العالمین، و الصلوۃ و السلام علی رسولہ الکریم و علی آلہ و اصحابہ اجمعین، اما بعد!
امید ہے ان شاء اللہ آپ حضرات کے امتحان خیریت سے ہوگئے ہوں گے۔ الحمدللہ۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس موقع پر مجھے مدینہ منورہ حاضری کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالی کا کچھ مجھ پر خاص فضل و کرم ہے کہ ہر دوسرے تیسرے مہینے حرمین شریفین میں سے کسی ایک جگہ پر حاضری کی توفیق مل جاتی ہے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناؤں، ان شاء اللہ وہ بھی مفید ہوگا۔ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے، جس زمانہ میں بیمار تھے، دل کی تکلیف ہوئی تھی، کچھ اور بھی عوارض تھے جن کی وجہ سے ہمیشہ بستر پر رہتے تھے۔ اسی بستر پر رہنے کی حالت میں ’’معارف القرآن‘‘ کی تالیف بھی کرتے رہتے تھے۔ میں نے اپنا دفتر کا کمرہ ان کے کمرے کے متصل بنالیا تھا، تا کہ ہر وقت ان کی کوئی ضرورت ہو تو پوری کرسکوں۔ مجھے حرمین شریفین حاضر ہونے کی تمنا تو تھی اور حاضر ہوئے تقریباً دس سال ہوگئے تھے۔ دس سال میں جانے کا کوئی موقع نہیں ملا تھا، تو اس زمانہ میں مجھے ایک صاحب نے حجِ بدل کی پیشکش کی کہ حج کا موسم آرہا ہے، آپ میری طرف سے حج کرلیں۔ تو دل میں جانے کا کچھ داعیہ پیدا ہوا۔ الحمدللہ والد صاحب کی طبیعت کوئی بہت زیادہ ناساز نہ تھی۔ دوسرے بھائی بھی خدمت کرنے کے لیے موجود تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ آپ حج کرکے آجائیں اور پھر اپنی خدمت اسی طرح سے جاری رکھیں۔ میں نے حضرت والد صاحب (رحمہ اللہ) سے ذکر کیا کہ ایک حج بدل اس طریقہ سے آیا ہے، کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: بھئی! یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے تم اگر جانا چاہو تو چلے جاؤ۔ الحمدللہ میں اپنا حج پہلے ہی حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ کرچکا تھا۔ میں سوچتا رہا کہ کیا کروں؟ ایک طرف حج کی خواہش تھی اور دوسری طرف حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کو اس حالت میں چھوڑ کر جانا بھی مجھے بھاری معلوم ہوتا تھا، شاید استخارہ بھی کیا تھا، اس کے بعد میرا دل حج پہ جانے کے لئے مطمئن نہیں ہوا۔ کچھ دن کے بعد حضرت والد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے پوچھا کہ بھئی تمہارے حجِ بدل کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ارادہ ملتوی کردیا ہے۔ فرمایا: کیوں؟ تو میرے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ ’’ہمارا حج و غیرہ تو یہیں آپ کے پاس ہے۔‘‘ حضرت والد صاحب ’رحمہ اللہ‘ میری اس بات سے بہت خوش ہوئے، اور فرمایا: تم نے صحیح فیصلہ کیا اور ان شاء اللہ، اللہ تعالی تمہیں اتنا لے جائیں گے کہ لوگ رشک کریں گے۔ اس کے بعد حضرت والد صاحب، رحمہ اللہ، کی وفات ہوگئی۔ وفات کے بعد سے آج تک کوئی سال ایسا نہیں گذرا جس میں دو یا تین مرتبہ کم از کم حاضری نہ ہوئی ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ میرے وہاں کچھ اداروں سے تعلقات ہوگئے ہیں، اس کی وجہ سے ہر دوسرے مہینے حاضری ہوتی رہتی ہے۔ پچھلے دنوں دو تین مہینے بیماری کی وجہ سے سفر پہ نہیں جاسکا تھا، اس میں بھی دو مرتبہ مکہ مکرمہ حاضر ہونے کی توفیق ہوئی، لیکن اب میں یہ کوشش کرتا ہوں ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں حاضری ہوجائے، دوسری مرتبہ مدینہ طیبہ میں۔
مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تقریباً آٹھ مہینے ہوگئے تھے۔ آٹھ مہینے سے حاضری نہیں ہوئی تھی، اس انتظار میں تھا کہ ششماہی امتحان آجائے تو اس وقت فراغت کا وقت ہوگا۔ اس وقت اطمینان سے حاضر ہوں گا۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس کا انتظام کردیا۔ عین اسی زمانہ میں مجھے دعوت آئی اور الحمدللہ وہاں جانے کا موقع ملا۔ وہ جو میری بیماری چل رہی تھی، اس کے کچھ نہ کچھ اثرات باقی تھے۔ اب بھی کبھی ظاہر ہوجاتے ہیں۔ لیکن مدینہ طیبہ میں ایسا معلوم ہوا کہ میں کبھی بیمار تھا ہی نہیں!! الحمدللہ اس کی وجہ سے اطمینان کے ساتھ عافیت کے ساتھ اللہ تعالی نے رہنے کا موقع عطا فرمایا۔
اس دوران ایک تو سب سے بڑی نعمت وہاں کی حاضری ہے، اس کے علاوہ پچھلی مرتبہ ایسا ہوا تھا، وہاں کا جو ’’محکمۃ القضاء‘‘ ہے۔ بڑی عدالت ہے۔ اس کے کچھ قاضی حضرات نے مجھ سے یہ فرمائش کی تھی کہ آپ ہمیں یہاں عدالت میں آکر بخاری شریف کی کتاب القضاء پڑھائیں۔ اگرچہ میں جب حرمین شریفین جاتا ہوں تو عام طور سے بس میرا قیام اور میرا آنا جانا ہوٹل اور ہوٹل سے حرمین ہوتا ہے۔ کہیں دور میں نہیں جاتا۔ لیکن انہوں نے اس انداز سے فرمائش کی کہ میں رد نہ کرسکا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، مغرب کے بعد ان شاء اللہ میں وہاں آؤں گا۔ اسی دوران مسجد نبوی کے امام شیخ احمد طالب صاحب کو کسی نے بتادیا کہ وہاں پر کتاب القضاء پڑھائیں گے تو وہ بھی آگئے اور درس میں شریک ہوئے۔ اس درس کے بعد انہوں نے فرمائش کی کہ میں چاہتا ہوں کہ مسند احمد کی ثلاثیات ہم آپ سے پڑھیں۔ اس کا انتظام انہوں نے مغرب کے بعد ائمہ حرمین کے اس کمرہ میں کیا، جہاں سے ائمہ نماز پڑھانے کے لئے آتے ہیں۔ چنانچہ میں نے پھر ان کو وہاں مسند احمد کی ثلاثیات قرأۃً و روایۃً پڑھائیں اور اجازت بھی دی۔ پھر اس کے نتیجہ میں امام کے ساتھ باہر آنا ہوا اور امام کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے صفِ اول میں نماز نصیب فرمائی۔ دیگر کئی ائمہ سے ملاقات بھی ہوئی۔ پچھلی مرتبہ درسِ قضاء کے اندر جو لوگ شریک تھے ان میں سے کچھ حضرات وہ تھے جو ’کلیۃ المسجد النبوی‘ کے (جو کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے ملحق بھی ہے) کے اساتذہ تھے، پچھلی مرتبہ انہوں نے مجھے اپنے کلیۃ الشریعۃ میں بھی دعوت دی تھی۔ اور مجھ سے ’’شرح عقود رسم المفتی‘‘ پڑھی تھی۔ اس میں بھی شیخ احمد طالب موجود تھے۔
اس مرتبہ جب میں پہنچا تو ’’کلیۃ المسجد النبوی‘‘ کے اساتذہ نے پھر دوبارہ یہ فرمائش کی کہ ہم نے آپ کی کتاب ’’اصول الافتاء و آدابہ‘‘ خریدی ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں وہ پڑھائیں۔ میں نے کہا: بھائی! میں تو یہاں حرم شریف کے لئے آتا ہوں۔ مجھے کہیں باہر جانا اچھا نہیں لگتا۔ انہوں نے کہا: چند دن دے دیں۔ اور انہوں نے اس طرح فرمائش کی کہ میں اس کو بھی رد نہ کرسکا، اور چار دن ’’اصول الافتاء‘‘ کا درس کلیۃ المسجد النبوی میں ہوا۔ اسی دوران شیخ علی حذیفی جو وہاں کے بڑے امام ہیں، ان سے ملاقات کا وقت طے ہوا۔ میں چاہتا تھا ان کو اپنی کچھ کتابیں پیش کروں تو ’’فتح الملہم‘‘ کا ایک نسخہ، اور ’’فقہ البیوع‘‘ اور ’’بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ‘‘ ان کو پیش کیں۔ اس کے بعد پھر دوسرے امام ہیں جناب حسین آل الشیخ، دوسرے تیسرے دن ان سے ملاقات ہوئی اور ان کو بھی میں نے اپنی کتابیں ہدیۃً پیش کیں۔ انہوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ میں اس بات پر بڑا خوش ہوا کہ حضرت حسین آل الشیخ رحمۃ اللہ علیہ شیخ عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ، جن کی طرف منسوب کر کے بعض لوگ ہمیں وہابی کہتے ہیں، ان کے خاندان سے ہیں، پوتے یا پڑپوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت شیخ عبدالوہاب رحمہ اللہ کے نظریات کے حامل بھی ہوں گے، جب میں نے ان سے ’’المدونۃ الجامعۃ‘‘ کا ذکر کیا تو اس پر انہوں نے غیرمعمولی مسرت کا اظہار کیا اور کہا: ایسا کام تو آج تک دنیا میں کبھی نہیں ہوا، جو آپ کر رہے ہیں۔ پھر انہوں نے ایک بات ایسی کہی کہ جس سے معلوم ہوا کہ ان کے مسلک و مزاج میں بڑا اعتدال ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حنفیہ کی کتابیں پڑھی ہیں۔ حنفیہ کو عام طور سے لوگ ’’اصحاب الرأی‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں، میں نے دیکھا کہ حنفیہ کی کتابوں میں بہت سی ایسی حدیثوں کے حوالے آئے ہیں، جو ہمیں دوسرے کتابوں میں نہیں ملتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی استناد بھی کسی نہ کسی حدیث کی طرف ہوتا ہے۔ اسی واسطہ ان کی کتابوں میں جو حدیثیں آتی ہیں، وہ بھی اگر آپ جمع کریں تو بہت اچھا ہوگا۔ تا کہ حنفیہ کے مستدلات بھی جمع ہوجائیں۔ اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی، الحمدللہ ان سے ملاقات بھی مفید اور بہت اچھی رہی۔ میں نے ان کو اپنی کتابیں پیش کیں تو انہوں نے کہا: میں پہلے سے ’’فتح الملہم‘‘ سے واقف تھا۔ آپ کی ’’بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ‘‘ کو بھی میں جانتا ہوں کہ آپ نے مجمع الفقہ الاسلامی میں جو مقالات پیش کئے ہیں، یہ ان کا مجموعہ ہے، آپ ابھی تک اس کے رکن بھی چلے آرہے ہیں۔
اس کے علاوہ وہاں جامعہ طیبہ میں ’’کلیۃ المسجد النبوی‘‘ کے اساتذہ نے گذشتہ چھ ماہ سے ’’المعاییر الشرعیہ‘‘ کا دورہ شروع کر رکھا تھا۔ اس کا آخری دن تھا، انہوں نے بہت ہی محبت کے ساتھ یہ کہا: ہماری خوش نصیبی ہے کہ اس وقت آپ آئے ہوئے ہیں۔ جامعہ طیبہ میں آخری درس آپ کا ہوجائے، چونکہ جس ’’المجلس الشرعی‘‘ کے یہ معاییر تیار کئے ہیں، آپ اس کے صدر ہیں۔ اگر یہ دورہ صدر مجلس کی طرف سے ختم ہوجائے تو ہمیں بڑی خوشی ہوگی۔ میں عشاء کے بعد وہاں گیا۔ میں نے کہا بشرطیکہ آپ بہت مختصر وقت رکھیں، زیادہ لمبا نہ رکھیں، وہاں پر بھی ماشاء اللہ تمام جامعہ اسلامیہ کے اساتذہ، جامعہ طیبہ کے اساتذہ، جدہ سے آئے ہوئے بہت علماء اور مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے علماء وہاں موجود تھے۔ ان کو آخری درس دیا۔ الحمدللہ اس کا بھی بہت اچھا اثر ہوا۔ اللہ تعالی کا میں شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کے فضل و کرم سے یہ ایام بہت ہی خوشگوار اور وقت بہت ہی پر لطف گزرا۔ طبیعت بھی بالکل اچھی رہی۔ الحمدللہ کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
(حضرت والا دامت برکاتہم کے اس سفرنامے سے مجموعی سبق تو یہی ملتا ہے کہ والد کی خدمت کے بدلے حج پر نہ گئے اور پھر اللہ کی طرف اس کا ایسا انعام ملا کہ سال میں کئی مرتبہ حرمین کی حاضری ہوجاتی ہے اور حاضری کے ساتھ ساتھ دین کی دیگر خدمات اس پر مستزاد۔۔۔۔
اللہ تعالی حضرت کا سایہ ہم پر تا دیر بعافیت قائم و دائم رکھے، حضرت ہی سے ہمیں پورا پورا استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔)

 

گفتگو: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط و ترتیب: محمد عمران کلیم و نجم الثاقب۔ از شرکاء دورۂ حدیث، جامعہ دارالعلوم کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں