سوال:- فجر کے وقت جب مسجد میں داخل ہوا تو امام صاحب نماز پڑھا رہے تھے، میں سنتیں پڑھے بغیر جماعت میں شریک ہوا، بعد ازاں سورج نکلنے کے بعد سنتیں ادا کیں، تو میرا یہ عمل دُرست ہے یا نہیں؟
جواب:- فجر کی سنتوں کے بارے میں سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ گھر میں ادا کرکے مسجد جائیں۔(۱) اور اگر گھر میں پڑھے بغیر مسجد پہنچ جائیں تو جب تک جماعت کی رکعت، بلکہ تشہد مل سکتا ہو، فجر کی سنتیں دُور ہٹ کر کسی مقام پر پڑھ لینا جائز ہے، خواہ جماعت شروع ہوچکی ہو، لیکن اگر کوئی شخص جماعت میں شریک ہوگیا تو پھر امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے قول کے مطابق تنہا سنتوں کی قضا نہیں ہے، آپ نے جو سورج نکلنے کے بعد دو رکعتیں پڑھیں وہ آپ کی طرف سے نفل ہوگئیں۔
فی الدر المختار باب ادراک الفریضۃ واذا خاف فوت رکعتی الفجر لاشتغالہ بسنتھا ترکھا لکون الجماعۃ اکمل والا بأن رجا ادراک رکعۃ فی ظاھر المذھب وقیل التشھد واعتمدہ المصنف والشرنبلالی تبعًا للبحر لٰـکن ضعفہ فی النھر وقال الشامی تحتہ لأن المدار ھنا علٰی ادراک فضل الجماعۃ وقد اتفقوا علٰی ادراکہ بادراک التشھد فیأتی بالسنۃ اتفاقًا کما أوضحہ فی الشرنبلالیۃ أیضًا وأقرہ فی شرح المنیۃ وشرح نظم الکنز (شامی ج:۱ ص:۳۴۹)(۲) وفی ردّ المحتار أیضًا قولہ ولا یقضیھا الا بطریق التبعیۃ أی لا یقضی سنۃ الفجر الا اذا فاتت مع الفجر فیقضیھا تبعًا لقضائہ لو قبل الزوال۔ (أیضًا ج:۱ ص:۷۵۰)۔(۳)
واللہ اعلم
الجواب صحیح
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
محمد رفیع عثمانی عفی عنہ
۲۵؍۲؍۱۳۹۱ھ
(فتویٰ نمبر ۲۹۳/۲۲ الف)
——————–
(۱) فتاویٰ شامیۃ باب الوتر والنوافل ج:۲ ص:۲۲ (طبع ایچ ایم سعید)
(۲) الدر المختار مع رد المحتار ج:۲ ص:۵۶ (طبع سعید)۔
(۳) وفی رد المحتار ج:۲ ص:۵۷ (طبع سعید) اذا فاتت وحدھا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالاجماع لکراھۃ النفل بعد الصبح، واما بعد طلوع الشمس فکذٰلک عندھما وقال محمد أحب الیّ ان یقضیھا الی الزوال کما فی الدرر قیل ھٰذا قریب من الاتفاق ۔۔۔۔ الخ۔
آپ کی رائے