دینی مدارس کے طلبہ سے چند گزارشات

دینی مدارس کے طلبہ سے چند گزارشات

دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات کے اختتام کے ساتھ ہی نئے تعلیمی سال کی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں اور عید الفطر کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں ایک درجن سے زائد دینی اداروں میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کی تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ جی تو چاہتا ہے کہ سب کا تھوڑا تھوڑا تذکرہ کروں مگر یہ کالم متحمل نہیں ہے اس لیے گھر کے دو اداروں کے تذکرہ پر اکتفا کر رہا ہوں۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اسباق کا آغاز ۱۸ شوال کو ہوتا ہے اور اس کے لیے داخلہ وغیرہ کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں آج ہفتہ کے روز تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ اکادمی میں اس سے قبل درس نظامی کے درجہ اولیٰ کے ساتھ گوجرانوالہ بورڈ سے میٹرک کروانے کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے جو تین سال میں ہوتا تھا، اب اسے پانچ سال تک بڑھا کر درس نظامی کے درجہ ثالثہ کے ساتھ بورڈ سے ایف اے کرانے کا نظم بنایا گیا ہے جس کا آج افتتاح ہوا ہے۔ گوجرانوالہ سے شیخوپورہ جانے والے روڈ پر کوروٹانہ کے قریب ایک دوست نے ایک ایکڑ زمین وقف کی ہے جس میں مسجد اور ایک بلاک کی تعمیر ہوگئی ہے اور اس سال درس نظامی کا شعبہ وہاں منتقل کیا جا رہا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ افتتاحی تقریب میں اساتذہ و طلبہ سے جو گفتگو کی اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ وہ طلبہ اور طالبات خوش قسمت ہیں جو کسی بھی مدرسہ میں اور کسی بھی درجہ میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر وہ طلباء اس لحاظ سے زیادہ خوش قسمت ہیں جو دینی اور عصری تعلیم دونوں اکٹھی حاصل کر رہے ہیں۔ یہ دونوں تعلیمیں ہماری ضرورت ہیں اور قرآن کریم نے ’’فی الدنیا حسنۃ‘‘ اور ’’فی الآخرۃ حسنۃ‘‘ کی دعا سکھا کر یہ سبق دیا ہے کہ دین و دنیا دونوں ضروری ہیں۔ انسان جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہے، ہم عصری علوم میں جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ہمارے جسم کی ضروریات کے لیے ناگزیر ہے اور دینی علوم میں جسم کے ساتھ ساتھ روح کی ضروریات کا بھی پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے موبائل فون کے ساتھ ایک کنکشن ہوتا ہے۔ موبائل فون کی ضرورت یہ ہے کہ وہ صحیح کام کرے اور اسے چارجنگ ملتی رہے جبکہ کنکشن کی ضرورت یہ ہے کہ وہ ایکٹیو ہو اور اسے بیلنس ملتا رہے۔ اسی طرح جسم اور روح دونوں کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں جو دینی و عصری علوم دونوں حاصل کر کے ہی پورے کیے جا سکتے ہیں اور آپ کے لیے آپ کے والدین نے یہ دونوں ضرورتیں پوری کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
دوسری بات طلبہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس کار خیر میں آپ لوگ اکیلے نہیں ہیں بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ شریک ہیں جن کے بغیر یہ کام آپ نہیں کر سکتے۔ سب سے پہلے تو والدین ہیں جن کے شوق اور ارادے نے آپ کو یہاں پہنچایا ہے، اس کے بعد اساتذہ ہیں جو آپ کو پڑھائیں گے، پھر مدرسہ کے منتظمین ہیں جو شب و روز آپ کی ضروریات کے لیے مصروف عمل رہیں گے اور ان کے ساتھ وہ معاونین ہیں جن کے تعاون سے یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ آپ نے تعلیم کے دوران ان سب کو یاد رکھنا ہے، ان کا احسان مند رہنا ہے اور ان کے لیے دعائیں کرتے رہنا ہے۔ کیونکہ ان سب کے تعاون سے ہی آپ لوگ یہ کام کر پائیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ علم کے حصول کا راستہ کیا ہے؟ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، جو امت کے مفسرین کے سردار کہلاتے ہیں، ان کا ایک واقعہ ذکر کروں گا۔ وہ فرماتے تھے کہ میرے پیچھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کام کر رہی ہے کہ ’’اللھم علمہ الکتاب وقہ سوء الحساب‘‘ اے اللہ! اس نوجوان کو قرآن کا علم عطا فرما اور اسے حساب کتاب کی سختی سے محفوظ رکھنا۔ میں یہ عرض کروں گا کہ یہ دعا ویسے ہی نہیں مل گئی تھی، اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بار آنحضرتؐ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے تو عبد اللہ بن عباسؓ جو اس وقت تیرہ چودہ سال کے بچے تھے از خود پانی کا لوٹا بھر کر پیچھے چلے گئے۔ نبی کریمؐ ان کی اس بات پر بہت خوش ہوئے اور وضو کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر ان سے پوچھا کہ عبد اللہ! تمہارے لیے کیا دعا مانگوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے قرآن کریم کا علم چاہیے جس پر جناب رسول اکرمؐ نے ان کے لیے یہ دعا مانگی۔ اس لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پیچھے تو بلاشبہ حضورؐ کی دعا تھی مگر اس دعا کے پیچھے ان کا یہ شوق تھا کہ مجھے قرآن کریم کا علم چاہیے اور اس کے ساتھ ان کی محنت اور خدمت بھی شامل تھی۔ اس لیے علم کا راستہ شوق، محنت اور خدمت کے ساتھ بزرگوں کی دعاؤں کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائیں۔
چوتھی بات طلبہ کے لیے یہ ہے کہ علم آپ لوگ اس لیے حاصل کر رہے ہیں کہ اس پر عمل کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو سنواریں اور پھر اس علم کو دوسروں تک پہنچائیں۔ لیکن دوسروں تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ خود آپ کا علم پختہ ہو جو کہ محنت، پابندی، توجہ اور شوق کے بغیر نہیں ہوتا۔ اگر آپ کا علم پختہ نہیں ہوگا اور دوسروں کو پہنچانے کے مرحلہ میں آپ کو یاد نہیں ہوگا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اسے ایک لطیفہ کی صورت میں بیان کرنا چاہوں گا۔ کہتے ہیں کہ ایک خان صاحب کو (کوئی خان ناراض نہ ہو، میں خود خان ہوں) راستہ میں ایک ہندو جاتے ہوئے ملا۔ خان صاحب کو غصہ آیا، اسے گریبان سے پکڑ کر مکہ تان لیا اور کہا کہ ’’کاپر کا بچہ کلمہ پڑھتے ہو یا نہیں؟‘‘ اس نے سوچا کہ کلمہ نہ پڑھا تو خان صاحب سے مار پڑے گی، اس نے کہا کہ ‘‘ٹھیک ہے مجھے کلمہ پڑھائیں میں پڑھنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ اس پر خان صاحب بولے ’’کاپر کا بچہ خود پڑھو، آتا مجھے بھی نہیں ہے‘‘۔
میں طلبہ سے عرض کیا کرتا ہوں کہ پورے شوق اور محنت کے ساتھ اتنا پڑھو اور اس طرح پڑھو کہ کل تمہیں دنیا کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کرتے ہوئے ادھر ادھر نہ دیکھنا پڑے اور یہ نہ کہنا پڑے کہ ’’خود پڑھو، آتا مجھے بھی نہیں‘‘۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح یاد رکھیں کہ جب آپ لوگ تعلیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں چلے جائیں گے تو طالب علمی کا یہ دور اور یہ فرصت دوبارہ زندگی بھر نہیں ملے گی اور جو علم پڑھنے سے رہ گیا یا جس میں کمزوری رہ گئی اسے دوبارہ پڑھنے کی پوری زندگی حسرت ہی رہے گی۔ اس لیے اس دور کو غنیمت سمجھتے ہوئے وقت ضائع نہ کریں بلکہ شوق سے پڑھیں، محنت سے پڑھیں، پابندی سے پڑھیں، ناغہ نہ کریں اور پوری توجہ تعلیم کے حصول میں صرف کر دیں تاکہ آپ خود بھی اس علم سے پورے اعتماد کے ساتھ استفادہ کر سکیں اور دوسروں تک بھی اطمینان اور حوصلہ کے ساتھ یہ علم پہنچا سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ اور ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں