دینی تعلیمی ادارہ (مکتب، مدرس، دارالعلوم، جامعہ)

دینی تعلیمی ادارہ (مکتب، مدرس، دارالعلوم، جامعہ)

مکتب

مکتب: بچوں کا وہ ابتدائی ادارہ جہاں قاعدہ (نورانی ہو یا بغدادی یا اس معیار کا کوئی اور قاعدہ) نماز اور ضروری اذکار اور ناظرہ قرآن کریم یا حفظ قرآنِ کریم کی تعلیم دی جاتی ہو؛ بعض مکاتب میں ابتدائی نوشت و خواند کا کام بھی کرایا جاتا ہے۔

مدرسہ
لفظ ’’مدرسہ‘‘ اگرچہ عصر حاضر میں بلادِ عربیہ میں اسکول کے معنیٰ میں استعمال ہورہا ہے لیکن اسلامی تاریخ کے عہد عروج میں ایک ایسے تعلیمی ادارے کا نام تھا جس میں اسلامی علوم میں اعلیٰ ترین سطح کی تعلیم کا انتظام ہوتا تھا، ان درسگاہوں کا تعلیمی معیار اس درجہ کا ہوتا تھا جو عصری اصطلاح میں یونیورسٹی کا درجہ سمجھا جاتا ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے مدارس کا لفظ اس قدیم اصطلاح کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ اس وفاق میں وہ تعلیمی ادارے شامل ہیں جو آج کی اصطلاح میں جامعہ کہلاتے ہیں۔ (از افادات حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب، دام اقبالہم)

دارالعلوم
دارالعلوم بلاد عربیہ میں کالج اور یونیورسٹی کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے لیکن علماء اور طلبۂ علوم نبوت کے ہاں عربی اور اسلامی علوم و فنون کے معیاری اور بڑے ادارے کیلئے اس کا استعمال ہے جہاں درسِ نظامی کے عالیہ اور عالمیہ تک کی تعلیم دی جارہی ہو۔

جامعہ
جامعہ کا لفظ یونیورسٹی کے معنیٰ میں متعارف ہے، علماء اور طلبۂ علومِ نبوت کے نزدیک وہ وقیع تعلیمی ادارہ جہاں دورۂ حدیث یا اس سے اوپر کی تعلیم (مثلاً تخصصات ۔۔پی ایچ ڈی۔۔) کا انتظام ہو۔
مدرسہ (عام معنیٰ میں) وہ دینی تعلیمی ادارہ ہے جہاں اللہ رب العزت کی عظیم المرتبت کتاب قرآن کریم کے الفاظ و معانی کی تعلیم دی جاتی ہے اور طالبعلم کے دل و دماغ میں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بیج بویا جاتا ہے اور معاشرے کے ہر فرد کے حقوق ادا کرنے کا درس دیا جاتا ہے، اس طرح طالبعلم کو ملک و قوم کیلئے نافع اور قیمتی فرد بنایا جاتا ہے۔
مدرسہ جہالت کے اندھیروں میں منوّر چراغ اور روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواندہ لوگوں کا تناسب بہت سے ممالک سے کافی کم ہے، وہاں مدرسہ خواندگی کا تناسب بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے امتحانِ سالانہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۰۱۵ء میں مختلف شعبہائے تعلیم میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ طلبہ و طالبات نے شرکت کی، دوسرے اداروں اور تنظیمات کے تحت یا انفرادی طور پر تعلیم دینے والے مدارس کی خدمات اس کے علاوہ ہیں۔
مدارس اس لحاظ سے بھی قابل قدر ہیں کہ وہ بڑی تعداد میں غریب طلبہ کو تعلیم دینے کے ساتھ خاصی حد تک ان کی کفالت بھی کرتے ہیں، ان کے قیام و طعام کا انتظام کرتے ہیں اور ان کے دوسرے ضروری مصارف کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو بڑی تعداد میں ایسے غریب طلبہ تعلیم سے محروم رہ کر جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہوتے، اس کا اندیشہ ہوسکتا تھا کہ وہ غلط راستوں پر نکل جاتے اور ملک و قوم کیلئے نافع بننے کے بجائے زحمت اور ضرر رساں بن جاتے۔ اللہ کی پناہ!
مختصر یہ کہ مدارس پوری دنیا میں مثالی تعلیمی، اصلاحی اور فلاحی این جی اوز ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان (جس کے تحت تقریباً اٹھارہ ہزار مدارس کام کررہے ہیں) کی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا ہے۔
الحمدللہ رمضان المبارک ۱۴۳۵ھ میں سعودی عرب میں رابطۃ العالم الاسلامی کے ادارے ’’الھیءۃ العالمیۃ لتحفیظ القرآن الکریم‘‘ کے زیرِ اہتمام ایک باوقار تقریب میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو خدمت قرآن کے میدان میں نمایاں کام کرنے پر اور مدارس کے ذریعے دنیا میں سب سے زیادہ حفاظ تیار کرنے پر خدمت قرآن انٹرنیشنل ایوارڈ دیا گیا، (واضح رہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت خدمت کرنے والے مدارس اسلامیہ اور مکاتب قرآنیہ نے ۱۴۳۵ھ کے سال میں تریسٹھ ہزار پانچ سو چھپن حفاظ و حافظات تیار کئے تھے)۔ فللہ الحمد و لہ الشکر۔

یا رب ابن تعمیر محکم تا ابد معمور باد
چشم بد از دامن جاہ و جلالش دور باد
(یا اللہ! یہ مضبوط عمارت ہمیشہ آباد رہے، بُری نظر اس کے بلند پایہ مرتبے و مقام بلند سے دور رہے۔) (آمین)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں