مولانا عبدالحمید عیدالفطر کے اجتماع میں:

داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو عالمی حالات کے مطابق تبدیل کریں

داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو عالمی حالات کے مطابق تبدیل کریں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے عید الفطر کے پرمسرت موقع پر ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے ایران کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں نظرثانی اور عالمی حالات کے مطابق ان میں تبدیلی لانے پر زور دیا۔

پندرہ جون دوہزار اٹھارہ کو عید الفطر کی نماز سے پہلے خطاب کے دوران خطیب اہل سنت زاہدان نے دو لاکھ کے قریب مجمع سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ملک کے موجودہ حالات چالیس سال قبل کے حالات سے یکسر مختلف ہیں جب قوم کے سیاستدانوں اور چیدہ شخصیات نے آئین کو مرتب کیا۔ وقت تیزی سے گزررہاہے اور دنیا میں نئے حالات پیش آچکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: دس یا بیس سال پہلے کی پالیسیوں پر اصرار کرنا سنگین غلطی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت تک ترقی حاصل نہیں کرسکتا جب تک تازہ عالمی حالات کے مطابق آگے نہیں بڑھے گا۔ اپنی پالیسیوں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کرنا قوم اور ریاست دونوں کے مفاد میں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عالمی حالات کے تقاضوں کے علاوہ، ایرانی قوم کا بھی مطالبہ ہے کہ داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں نظرثانی کرکے ان میں مناسب تبدیلی لائی جائے۔ بصورت دیگر ہم سخت مشکلات سے دوچار ہوجائیں گے۔ ہمارا قومی آئین بھی جو دنیا کے بہترین قوانین میں سے ہے، نظرثانی کے محتاج ہے۔
انہوں نے مزید کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ موجودہ آئین بھی بہت سارے امور میں معطل رکھاجاتاہے اور اس پر عمل نہیں ہوتاہے۔ بہت سارے مسائل میں ذاتی رائے کو قانون پر ترجیح دی جاتی ہے اور کچھ محکمے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور جو ان کی مرضی ہے، کرڈالتے ہیں۔

قومی و مذہبی تعصبات سے قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں
بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے ہر قسم کے لسانی و مسلکی اور مذہبی تعصب سے پرہیز پر تاکید کرتے ہوئے کہا: انسانی معاشرے کے لیے ایک بڑا چیلنج جاہلانہ لسانی و مذہبی تعصبات ہے۔ اس طرح کے تعصبات سے کوئی بھی معاشرہ زوال اور انحطاط کا شکار ہوگا۔ تعصب سے دوچار قومیں، پس ماندہ قومیں ہیں جو ترقی حاصل نہیں کرسکتیں۔
خطیب نماز عید فطرزاہدان نے ایران میں لسانی و مسلکی تعصبات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے ملک میں بھی لسانی و مسلکی تعصبات دیکھتے ہیں جو قوم کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان ہی تعصبات کی وجہ سے ہماری قوم اور ملک دنیا میں اپنے جائز مقام کو حاصل نہیں کرسکے۔
انہوں نے مزید کہا: آج کی دنیا میں بہت ساری ترقی یافتہ قومیں تعصبات کی حدود سے آگے نکل کر انسانیت اور حقوق شہریت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں اس الجھن سے آزاد ہیں کہ نماز کھلے ہاتھوں سے پڑھیں یا باندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ۔ مہذب اور مترقی قوموں کی نگاہ میں تمام مسالک اور مذاہب آزاد ہیں اور جس طرح چاہیں اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کی عبادت کرسکتے ہیں۔
مولانا نے کہا: کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسروں کے دینی و مسلکی اور اعتقادی امور میں مداخلت کرے۔ اسلامی شریعت اور ملکی آئین نے سب کو عبادت اور عقیدے کے حوالے سے آزادی فراہم کی ہے۔
ایران کے بعض بڑے شہروں میں اہل سنت کی نماز جمعہ و عیدین پر پابندی لگانے کی تنقید کرتے ہوئے صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: جو آزادی آئین کے رو سے ایرانی قوم کو مذہبی امور میں میسر ہے، بعض شہروں میں شہری اس سے محروم ہیں۔ کچھ افراد اور سرکاری ادارے حکومت کے اہلکار کے نام پر لوگوں کو نماز جمعہ اور عیدین قائم کرنے سے منع کرتے ہیں۔ ایرانی قوم کا مطالبہ ہے ایسی ناجائز اور غیرقانونی پابندیوں اور رکاوٹوں کا ختم کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی بھی ملک کے حکمرانوں کو نماز اور عبادت سے روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ نماز اور عبادت سے روکنا دین اسلام کے خلاف ہے۔ ہم تکفیری نہیں ہیں کہ کسی مسلمان کے کفر کا فتویٰ دیں، لیکن جو لوگ نماز قائم کرنے سے روکتے ہیں ہمیں ان کی مسلمانی میں شک ہے۔ نماز قائم کرنے سے لوگ کیوں خوف و ہراس میں مبتلا ہوں؟

شیعہ و سنی علما پوری دنیا کو مد نظر رکھیں
خطیب اہل سنت نے کہا: شیعہ وسنی کے اصحاب مدارس اور علمائے کرام دنیا کو دیکھیں اور عالمی حالات کو مدنظر رکھیں۔ آج کل دنیا لوگوں کو آزادی فراہم کرنے میں حکومتیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: کم از کم دین اسلام اور آئین میں مصدقہ آزادیوں کو عوام سے دریغ نہ کریں۔ نبی کریم ﷺ اور سیدنا علی ؓ سمیت دیگر خلفائے راشدین ؓ نے عوام کو اپنے دور جو آزادی فراہم کی ہے، وہی آزادی آج کے عوام کو بھی ملنی چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: عوام کو سیاسی، مذہبی، مسلکی اور اظہارِ رائے کی آزادی ملنی چاہیے۔ ایرانی قوم دنیا کی دیگر اقوام کی طرح آزاد ی کی نعمت ملنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ملک میں تنگ نظری چینلج کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ جن اداروں میں تنگ نظر اور متعصب افراد رہتے ہیں، انہیں برطرف کیا جائے۔ سنی برادری کی پریشانیوں کو بطور خاص ختم کرکے ان پر توجہ دی جائے۔ ہم سب چاہے شیعہ ہوں یا سنی، اسی ملک کے باشندے ہیں۔ قوم میں تفریق کرنا ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے سوال اٹھایا: جب مرشد اعلی بحیث مملکت کی پہلی شخصیت واضح طورپر امتیازی پالیسیوں اور رویوں کے خاتمے کا حکم جاری کرتے ہیں، پھر کیوں ہمارے ادارے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں؟ قومی امن کونسل کو چاہیے مرشد اعلی کے خط کو حکم نامہ اور نوٹس کی شکل میں شائع کرکے تمام اداروں کو پابند بنائے۔
انہوں نے کہا: انقلاب سے چالیس سال گزرچکاہے اور ہم ابھی تک مسائل سے دوچار ہیں۔ چالیس سال کی عمر میں انسان عقلی اور فکری طورپر بالغ ہوجاتاہے، اس انقلاب کو بھی بالغ ہونے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سنی برادری کو اس کے چالیس سالہ مطالبات ملنے چاہییں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مسلم حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تمام لسانی و مسلکی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی تاکید کی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں